دنیا میں پہلے ہماری عزت دو وجوہ سے تھی۔ ایک ہمارا پاسپورٹ‘ دوسری ہماری کرنسی۔امریکہ سے لے کر جاپان تک سب ہمارا پاسپورٹ دیکھ کر ٹھٹک جاتے اور سمجھ جاتے کہ یہ مسافر ایک عظیم الشان ملک سے تعلق رکھتا ہے۔ یہی حال کرنسی کا تھا۔ پانچ ڈالر کی چائے کا مطلب نوسو یا ہزار روپے تھا۔
مگر یہ صورتِ احوال ایک ہفتہ پہلے تک تھی۔ گزشتہ ہفتے ہمیں ایک طلسمی اسم مل گیا ہے‘ جادو کا لفظ۔اب دنیا میں عزت حاصل کرنے کے لیے ہمیں پاسپورٹ دکھانا پڑے گا نہ کرنسی کی شرح مبادلہ بتانا پڑے گی۔ اب ہم صرف ایک لفظ کہیں گے حاجی عطا اللہ۔ اور لوگ ہمارے سامنے احترام سے جھُک جائیں گے۔حاجی عطا اللہ !صرف گیارہ حروف ! اور اتنا بڑا اعزاز! ایک پاکستانی جس ملک میں بھی اب جائے گا‘ لوگ اسے دیکھ کر حاجی عطا اللہ کا ذکر کریں گے۔ پاکستانی کا سر فخر سے بلند ہو جائے گا۔ سینہ تن جائے گا۔ ہمارے صدرِ مملکت‘ ہمارے وزیر اعظم‘ ہمارے چیئرمین سینیٹ‘ ہمارے سپیکر قومی اسمبلی‘ ہمارے وزرائے کرام ‘ جہاں بھی ملک کی نمائندگی کرنے جائیں گے ‘ وہاں حاجی عطا اللہ کا ذکر ہو گا۔دنیا بھر کی یونیورسٹیوں کے نصابوں میں‘ قانون کی کتابوں میں ‘ انصاف کے تذکروں میں ‘ وکیلوں کی بحثوں میں ‘اخبارات کے اداریوں میں ‘ادیبوں کے ناولوں میں ‘ شاعروں کی نظموں میں اور ججوں کے فیصلوں میں حاجی عطااللہ کا ‘ اور حاجی عطا اللہ کے حوالے سے پاکستان کا نام ضرور لیا جائے گا۔اس نام نے ہمیں دنیا کے مہذب ترین ملکوں میں سر فہرست لا کھڑا کیا ہے۔بنیادی انسانی حقوق کے لحاظ سے ہم اس وقت دنیا کو لیڈ کر رہے ہیں۔اسلام کا نظام ِقصاص آج مسلمان ملکوں میں کہیں رائج ہے تو وہ ہمارا ملک ہے !
اقبال کی عہدساز تصنیف '' پیام مشرق‘‘ میں ایک نظم '' ستاروں کا گیت‘‘ہے۔ اس میں ستارے کہتے ہیں کہ وہ تاریخ کے تمام ادوار‘ زمین کے سارے انقلابات اور زمانے کے سب الٹ پھیر دیکھتے چلے آ رہے ہیں۔
خواجہ ز سروری گذشت
بندہ ز چاکری گذشت
زاری و قیصری گذشت
دورِ سکندری گذشت
شیوۂ بت گری گذشت
می نگریم و میرویم
مالکوں اور جاگیرداروں کا زمانہ لد چکا‘غلامی کا دور گزر گیا‘زار تھا یا قیصر یا سکندر سب وقت کی دھول میں گم ہو چکے ‘یہ سب کچھ ستارے دیکھتے جا رہے ہیں۔
حاجی عطااللہ کو بھی ستارے دیکھ رہے تھے۔ یہ جون 2017 ء کا ایک گرم دن تھا‘ حاجی عطااللہ کوئٹہ کے ایک چوک پر کھڑا ٹریفک کنٹرول کر رہا تھا۔ یہ اس کا کارِ منصبی تھا جو ریاست ِپاکستان نے اس کے سپرد کیا ہوا تھا۔ وہ کسی کا ذاتی ملازم تھا نہ کسی سردار کی رعایا تھا۔ وہ تو حکومت کا ملازم بھی نہ تھا۔ حکومتیں تو آتی جاتی رہتی ہیں۔ وہ ریاست کا ملازم تھا! ریاست پاکستان کا! ایک تیزرفتار قیمتی گاڑی آئی اور اسے روند کر گزر گئی۔ جیسے وہ ایک کیڑا تھا ‘ زمین پر رینگتا ہوا۔بقول رومی کے‘ وہ کنگھی نہ تھا کہ بال اسے توڑ دیں نہ ہی وہ دانہ تھاکہ زمین اسے لے بیٹھے۔ وہ تنکا بھی نہ تھا کہ ہوا اُسے اُڑا لے جاتی نہ ہی وہ پانی تھا کہ سرما میں برف بن جاتا۔ وہ انسان تھا۔ اپنے خاندان کا واحد سہارا!
اس گاڑی کو ایک سردار چلا رہا تھا۔ اچکزئی قبیلے کا سردار ‘منتخب ایوان کا نمائندہ ! تین سال دو ماہ یہ کیس قانون اور انصاف کی چکی میں پسا اور گزشتہ ہفتے سردار صاحب کو باعزت بری کر دیا گیا۔فوٹیج موجود تھی۔ حاجی عطا اللہ کے روندے جانے ‘ پھر جنازہ پڑھے جانے اور آخر میں زیر زمین دفن ہونے کو ساری دنیا نے دیکھا تھا‘ مگر سسٹم کا تقاضا یہی تھا کہ سردار کو بری الذمہ قرار دیا جائے۔مقتول ریاست کا نمائندہ تھا۔ ریاست نے اسے جو فرضِ منصبی سونپا تھا اسی کو سرانجام دیتے ہوئے اسے موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ ریاست ہار گئی۔ عدل جیت گیا۔ کیا ریاست بالائی عدالتوں میں اپنا مقدمہ لے جائے گی ؟ یا یہ طے ہے کہ ریاست اپنے کارکنوں کی حفاظت کرنے سے قاصر ہے؟ یا بے نیاز ہے؟
پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کے پاس‘ اس دور میں بھی ایک ایسا خطۂ زمین موجود ہے جو ہزاروں سال پرانے سرداری نظام پر چل رہا ہے۔ آج کی دنیا میں شاید ہی کہیں اس کی مثال ہو ! اگر کوئی اسے غلامی قرار نہیں دیتا تو اس کی مرضی مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سرداری اور غلامی کا ایک مضبوط نظام ہے جو بلوچستان میں رائج ہے۔ اس نظام کا آج کے زمانے سے دور کا تعلق بھی نہیں۔ یہ تو ابھی چند سال پہلے کی بات ہے کہ ایک سردار سے لاہور میں پریس کانفرنس کے دوران پوچھا گیا کہ یہ چور پکڑنے کے لیے جلتے کوئلوں پر چلانے کا کیا سلسلہ ہے تو سردار نے پورے اعتماد کے ساتھ جواب دیا تھا کہ یہ تو ان کے قبیلے کی روایت ہے۔ تعلیمی اداروں کی سرکاری عمارتیں وہاں مویشی خانوں اور غلے کے گوداموں کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔ نئی بندوق کو آزمانے کے لیے سردار گلی میں سے گزرتے ہوئے کسی بھی شخص کے سر کا نشانہ لے سکتا ہے۔سردار کے علاقے میں تعینات سرکاری ملازموں کو تنخواہ سردار کی پرچی دکھائے بغیر نہیں دی جاتی۔ سردار قبیلے کے ہر فرد کے ذاتی معاملات میں دخل دینے اور فیصلہ کرنے کا مجاز ہے۔ کسی بھی ناپسندیدہ شخص کے جسم پر شہد یا گڑ کا شیرہ مل کر اُسے چیونٹیوں بھری غار میں پھینکا جا سکتا ہے۔ گیس یا تیل کی کسی بھی پائپ لائن کو ‘ بجلی کے کسی بھی ٹرانسفامر کو‘ ٹیلی فون کی کسی بھی تنصیب کو سردار کے حکم سے اُڑایا جا سکتا ہے۔ کوئی کمشنر یا ریاست کا کوئی افسر یا اہلکار سردار کی لاقانونیت یا '' ریاست کے اندر ریاست‘‘ کو چیلنج نہیں کر سکتا۔ سردار کے اشارے پر اس کے قبیلے کے لوگ بندوقیں لے کر پہاڑوں پر چڑھ جائیں تو کوئی انہیں منع کر سکتا ہے نہ واپس لا سکتا ہے۔ تہتر برسوں میں ایک‘ جی ہاں ! صرف ایک‘ ایسا سیاستدان صوبے کا وزیر اعلیٰ بن سکا ہے جو کسی قبیلے کا سردار نہ تھا ورنہ سیاست ان سرداروں کی کنیز ہے۔ حکومت ان کی دست بستہ غلام ہے۔ قانون ان کے پاؤں کی جوتی ہے۔ ریاست ان کے سامنے بے بس ہے۔اقتدار کی کلید اِن کی جیب میں ہے۔ اس پس منظر میں دیکھئے تو آپ خود ہی اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ حاجی عطااللہ جیسا ایک معمولی اہلکار‘ بے شک وہ کتنا ہی فرض شناس کیوں نہ ہو‘ ایک سردار کے مقابلے میں اتنی بھی حیثیت نہیں رکھتا جتنی آندھی کے مقابلے میں تنکے کی ہوتی ہے۔
سچ یہ ہے ‘ اور جتنا بھی کڑواہو ‘ بہر طور سچ یہی ہے کہ ریاست پاکستان بلوچستان کے معاملے میں آج تک کچھ نہیں کر سکی۔ کسی حکومت میں اتنا وژن تھا ہی نہیں کہ صوبے کے عوام کو سرداری نظام سے چھڑا سکتی۔ یہ وژن کل بھی مفقود تھا۔ آج بھی عنقا ہے۔ زرعی اصلاحات کی کسی کو فکر ہے نہ دماغ۔ اور اب تو حال وہ ہو چکا ہے کہ بقول اقبال؎
خواجگی میں کوئی مشکل نہیں رہتی باقی
پختہ ہو جاتے ہیں جب خوئے غلامی میں غلام
اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ سرداروں کو مائی باپ‘ مربی اور آقا سمجھتے ہیں اور سرداری نظام کا دفاع کرتے ہیں۔ ابتری یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ جہاں بظاہر سرداری نظام نہیں ہے وہاں بھی مائنڈسیٹ وہی ہے۔یقین نہ آئے تو شہ زیب اور نقیب اللہ محسود کی روحوں سے پوچھ لیجئے جو انصاف کی تلاش میں آج بھی بھٹک رہی ہیں۔