حمید صاحب ہمارے پڑوسی تھے۔ ایک ریٹائرڈ بینکار۔ ہم لوگ جس آبادی میں رہ رہے تھے وہ وزیر اعظم کے مغل سٹائل، پُرشکوہ، دفتر سے صرف پندرہ بیس منٹ کی ڈرائیو پر واقع تھی۔ ایک صبح معلوم ہوا کہ حمید صاحب کے گھر سے رات ان کی گاڑی چوری ہو گئی ہے۔ متعلقہ تھانے میں رپورٹ درج کرائی گئی۔ تھانے والے آئے‘ اور کئی بار آئے۔ حمید صاحب بھی تھانے کے چکر لگاتے رہے۔ ہونا کیا تھا! صبر کر کے بیٹھ گئے۔
دو تین ماہ گزرے تھے کہ حمید صاحب کو ایک فون کال موصول ہوئی کہ گاڑی، جس کا رجسٹریشن نمبر یہ ہے، ہمارے پاس ہے‘ بنوں آ کر فلاں جگہ ملیے اور ''سودا‘‘ کر کے گاڑی لے جائیے۔ حمید صاحب پتہ نہیں کس ذہنی کیفیت میں تھے، بیگم سے مشورہ کیا نہ بچوں کو بتایا، ایک پٹھان دوست کو، جو ڈاکٹر ہے‘ ساتھ لیا اور ٹاپو ٹاپ بنوں پہنچ گئے۔ وہاں دونوں کو اغوا کر لیا گیا۔ ساٹھ ساٹھ لاکھ دونوں کے لواحقین نے دیے (یہ لگ بھگ 2012ء کی بات ہے) اور رہائی دلوائی۔ گاڑی اغوا کنندگان کے پاس تھی ہی نہیں۔ ان کا کل اثاثہ ''انفارمیشن‘‘ تھی۔ آپ کا کیا خیال ہے‘ یہ انفارمیشن انہیں کس نے بہم پہنچائی ہو گی؟ حمید صاحب کے اڑوس پڑوس اور ملنے والوں میں دور دور تک بنوں کا کوئی نہیں تھا۔
جی ہاں! آپ کا اندازہ درست ہے! انفارمیشن وہیں سے ملی جہاں موجود تھی! چوروں اور چوکیداروں کا گٹھ جوڑ ہمارے ہاں مسلمہ ہے۔ اس گٹھ جوڑ کے حوالے سے ایک مشہور محاورہ پنجابی زبان کا خاصا چٹ پٹا ہے مگر یہاں اس کا ذکر کرنا شاید مناسب نہ ہو گا۔ بہر طور کئی عشروں کی تاریخ بتاتی ہے کہ گڈریے بھیڑیوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور کھیت کی باڑ کھیت ہی کو کھا رہی ہے۔ تازہ خبر ملاحظہ کیجیے جو گداگروں کے حوالے سے دس ستمبر یعنی چار دن پہلے روزنامہ دنیا میں شائع ہوئی ''اگر کوئی نیا بھکاری کسی شاہراہ یا مارکیٹ میں مانگنے آ جائے تو پہلے سے موجود (بھکاریوں کا) گروہ اس کو وہاں سے چلے جانے کی دھمکیاں دیتے ہیں، نہ جانے پر کسی کو فون کر دیتے ہیں جس پر کچھ ہی دیر بعد پولیس پکڑ کر لے جاتی ہے‘ جبکہ دوسرے گداگر بدستور اپنے کام میں مگن رہتے ہیں‘‘۔ سبحان اللہ! گداگروں کا گروہ شکایت کرتا ہے کہ ایک حریف گروہ بھی آ کر بھیک مانگنے لگ گیا ہے تو اس حریف گروہ کے ارکان کو پولیس والے پکڑ کر لے جاتے ہیں۔ اس سے زیادہ صاف اور کلیئر گواہی چوروں اور چوکیداروں کے گٹھ جوڑ کی کیا ہو گی۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ اس خبر کو سب حکامِ اعلیٰ اور سب وزرائے بالا نے پڑھا ہو گا یعنی ع
چہ دلاور است دزدی کہ بکف چراغ دارد
چور کی جرأت کا کیا کہنا! چراغ ہتھیلی پر لیے پھرتا ہے۔
اب اس سیاق و سباق میں سی سی پی او کے اس بیان پر غور کیجیے جس پر احتجاج ہو رہا ہے۔ کیا غلط کہا ہے انہوں نے! وہی تو کہا ہے جو ایک چوکیدار کہا کرتا تھا کہ ''جاگدے رہنا، ساڈے تے نہ رہنا‘‘ یعنی ہم پر بھروسہ نہ کرنا، سو نہ جانا! واقفان حال کا کہنا ہے کہ جہاں یہ افسوسناک قیامت خیز واردات رونما ہوئی، وہاں یہ پہلی واردات نہیں ہے۔ اس سے پہلے جو بربریت ہوئی اس کے شکار نے تشہیر سے بچنے کے لیے چُپ سادھ لی۔ اس جگہ شاہراہ کے دونوں طرف تار لگائے ہی نہیں گئے۔ اب تک کم از کم اْس ذات شریف کو تو پکڑا جانا چاہیے تھا جو تار نہ لگانے کا یا نہ لگوانے کا ذمہ دار ہے۔
گزشتہ ہفتے ہی شیخوپورہ موٹر وے پر ڈاکوؤں نے درخت اور جھاڑیاں ڈال کر شاہراہ بلاک کی۔ انہوں نے کارروائی شروع کی ہی تھی کہ حسن اتفاق سے ایک ایمبولینس وہاں آ گئی اور وہ ایمبولینس کو پولیس کی گاڑی سمجھ کر فرار ہو گئے۔ تونسہ شریف میں دو بچوں کی ماں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کیا گیا۔ رپورٹ درج نہیں کی جا رہی تھی نہ میڈیکل ہونے دیا جا رہا تھا۔ لواحقین نے احتجاج کیا تو مقدمہ درج کیا گیا‘ اور سلامت تا قیامت رہے ہمارا سسٹم کہ ملزموں نے گرفتاری سے پہلے ہی ضمانت کرا لی۔
خواتین اور بچوں کے ساتھ یہ بربریت اس ملک میں عام ہے۔ حالت یہ ہے کہ کچھ با اثر طبقات ڈی این اے کی گواہی قبول کرنے میں متامل ہیں۔ ایک بڑی سیاسی مذہبی جماعت کے مرحوم سربراہ کی یہ ویڈیو آج بھی دیکھی جا سکتی ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ چار گواہ میسر نہ ہوں تو مظلوم عورت خاموش رہے۔ عورت کے حوالے سے ہماری سوسائٹی کا مجموعی رویہ ان افسوس ناک واقعات کا براہ راست نہ سہی، بالواسطہ ضرور ذمہ دار ہے۔
سکّے کا دوسرا رخ بھی نظر سے اوجھل نہیں ہونا چاہیے۔ پولیس کی کیا مشکلات ہیں؟ مطلوبہ فنڈز کی کمی اور افرادی قوت کی قلت! مگر سب سے بڑی صعوبت جس کا پولیس کو سامنا ہے، سیاسی مداخلت ہے۔ وہ جو وعدہ تھا تحریک انصاف کا پولیس کو ہر قسم کی مداخلت سے نجات دلانے کا، وہ قصۂ پارینہ ہو چکا اور اس حقیقت سے اب شاید ہی کوئی انکار کرے۔ سات دن کے بعد ناصر درانی کا منظر سے ہٹ جانا اس امر کی علامت ہے کہ پنجاب کی پولیس کو مداخلت سے پاک کرنے کا عزم ہے نہ ہمت! پتھر بھاری تھا! حکومت نے چوم کر چھوڑ دیا۔ یہ جو شورِ محشر بپا ہے کہ ہر کچھ ماہ بعد پولیس کا سربراہ تبدیل کر دیا جاتا ہے تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ یہ سیاسی مداخلت ہی کا شاخسانہ ہے! معروف بیوروکریٹ خاتون انیتہ تراب کا کیس اس قدر مشہور ہو چکا ہے کہ ہم سب اس سے آگاہ ہیں۔ اس کیس میں سپریم کورٹ نے رولنگ دی تھی کہ تعیناتی کی مدت (Tenure) مکمل ہونے سے پہلے کسی کا تبادلہ کیا جائے گا تو متعلقہ اتھارٹی کو اس تبادلے کی وجوہات ریکارڈ پر لانا ہوں گی۔ یوں موجودہ آئی جی کی یہ بات سو فی صد غلط ہے کہ وہ ایک سیکشن افسر کے نوٹیفکیشن کی مار ہیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ ریاست کے ملازم ہیں، حکومت کے نہیں! سپریم کورٹ کے احکام کی رو سے وقت سے پہلے تبادلہ ہونے کی صورت میں وہ اس تبادلے کے اسباب جاننے کا حق رکھتے ہیں۔ جب تک ہمارے بیوروکریٹ، خاص طور پر سینئر بیوروکریٹ‘ جو نوواردان کے لیے مثال بنتے ہیں‘ اپنے آپ کو ہیچ سمجھتے رہیں گے اور اپنے آپ کو underestimate کرتے رہیں گے، حکومتیں انہیں رولنگ سٹون بنائے رکھیں گی۔ یہ سلسلہ کب تلک چلے گا؟ کہ بقول غالب؎
کیوں گردش مدام سے گھبرا نہ جائے دل
انسان ہوں، پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں
مقررہ مدت پوری ہونے سے پہلے تبادلہ کرنے کی بیماری پوری سول بیوروکریسی کو گُھن کی طرح کھائے جا رہی ہے۔ ایس ایچ او سے لے کر آئی جی تک، اے سی سے لے کر کمشنر تک، کیا ایف بی آر، کیا آڈیٹر جنرل، ہر محکمے میں میوزیکل چیئر کا کھیل کھیلا جا رہا ہے اور یہ مضحکہ خیز صورت حال عرصۂ دراز سے چلی آ رہی ہے۔ مسلح افواج میں ایسا نہیں ہوتا مگر المیہ یہ ہوا کہ جنرل ضیاالحق سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک، کسی فوجی حاکم نے اس صورت حال کو بدلنے کی کوشش نہیں کی‘ اور سیاست دانوں کی طرح سول بیوروکریسی کو اپنے مقاصد ہی کیلئے استعمال کرتے رہے۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کا بنیادی فریضہ ہی یہ ہے کہ وہ اعلیٰ سرکاری ملازموں کی کیریئر پلاننگ کرے۔ کیریئر پلاننگ کیلئے مدتِ تعیناتی کی تکمیل ضروری ہے۔ مخصوص حالات میں تبادلہ پہلے بھی کیا جا سکتا ہے مگر معقول وجوہ ریکارڈ کر کے! گزشتہ اور موجودہ، سب حکومتیں جس طرح اس ضمن میں اختیارات کو نا روا استعمال کرتی آ رہی ہیں وہ ہرگز درست نہیں! اس روش کو بدلنا ہو گا!