اصغر مال کالج ……( 2)

اس کالم کی پہلی قسط ڈاکٹر شاہد صدیقی نے دو تین دن پہلے انہی صفحات پر لکھی‘ گویا دبستاں کھول دیا ع
بلبلیں سن کر مرے نالے غزل خواں ہو گئیں
گورنمنٹ کالج اصغر مال میری بھی مادر درسگاہ (Alma Mater) ہے۔ اس کے درودیوار میرے بھی دل پر نقش ہیں۔ دو سال جو وہاں گزرے‘ ڈھاکہ یونیورسٹی میں گزارے گئے عرصہ کے بعد‘ عمر کے بہترین دو سال ہیں۔ سترہ سال کا تھا جب بی اے کے لیے اس عظیم الشان دارالعلم میں داخل ہوا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب درسگاہیں واقعی درسگاہیں تھیں۔علم بھی بٹتا تھا تربیت بھی دی جاتی تھی۔تعلیمی ادارے ابھی یرغمال نہیں بنے تھے۔ تقاریب میں اہلِ سیاست نہیں اہلِ علم تشریف لاتے تھے۔ اس کالج میں حفیظ جالندھری کے ہاتھوں سے انعام حاصل کیا۔ قادرالکلام شاعر‘ معرکہ آرا شعری مجموعے‘‘ ہفت کشور'' کے مصنف جعفر طاہر کو پہلی اور آخری بار یہیں دیکھا۔ وہ کچھ کچھ سیہ فام تھے۔ سٹیج پر جہاں وہ کھڑے تھے‘ ان کے پیچھے کالے رنگ کا پردہ تھا۔ طلبہ نے شور مچایا کہ جعفر طاہر نظر نہیں آرہے اس لیے پیچھے سے کالے رنگ کا پردہ ہٹایا جائے۔ ڈاکٹر کنیز فاطمہ یوسف کے‘ جو قائد اعظم یونیورسٹی میں تھیں‘ لیکچر یہیں سنے۔ کیا تقریر ہوتی تھی ان کی شستہ انگریزی میں‘ دریا کی روانی کے مانند !
اس زمانے کے دو بہترین ماہرینِ تعلیم ہمارے پرنسپل رہے۔ پروفیسر اشفاق علی خان اور ڈاکٹر سید صفدر حسین ! پروفیسر اشفاق علی خان کو کون نہیں جانتا۔ الحمزہ کے نام سے برسوں انگریزی کالم لکھتے رہے۔ سٹیل انڈسٹری قائم کرنے کے بہت بڑے مبلغ تھے اور سول سروس کے ناقد۔ ہمیں ان کی ایک تلقین یہ بھی ہوتی تھی کہ جوتے صاف رکھا کرو۔ ان کے صاحبزادے کامران علی خان اسی کالج میں میرے کلاس فیلو تھے۔ سی ایس ایس کر کے انفارمیشن سروس میں آئے۔ شاید میرے بیچ میٹ تھے۔ اس زمانے میں کامن ٹریننگ نہیں تھی اور ہر گروپ کی تربیت الگ الگ ہوتی تھی۔ عجیب اتفاق ہے کہ کالج چھوڑنے کے بعد آج تک کامران سے ملاقات نہیں ہو ئی۔ ڈاکٹر سید صفدر حسین شاعر بھی تھے۔ معرّا نظم کہتے تھے۔نظم سنانے کا انداز ان کا خاص تھا۔ محفل پر چھا جاتے تھے۔ نظموں کے کئی مجموعے تھے جن میں ''رقص ِطاؤس‘‘ بہت مشہور ہوا۔پروفیسر اقبال بخت ہمارے اکنامکس کے پروفیسر تھے۔ ہمیشہ سفید براق پتلون شرٹ میں ملبوس۔ یہاں یہ ذکر بھی ہو جائے کہ اُس عہد میں کالجوں کے اساتذہ خوش لباس ہوتے تھے اور اس حوالے سے طلبہ کے آئیڈیل ! بہترین سوٹ میں ملبوس۔ اور گرما میں بہترین قمیض اور پینٹ!برسوں بعد اسی اپنے کالج میں ایک پروفیسر دوست کے ساتھ گیا۔ سٹاف روم میں اساتذہ کی ہیئت کذائی اور لباس کا انداز دیکھا تو دم گھٹنے لگا۔بغیر استری کے شلوار قمیضیں ! اکثر نے واسکٹ نہیں پہنی ہوئی تھی اور کچھ کے پیروں میں چپلیں تھیں۔ 
پروفیسر سجاد حیدر ملک ہمیں انگریزی شاعری اور ڈراما پڑھاتے تھے۔ ادب کا ذوق رکھتے تھے اور پڑھاتے ہوئے مسحور کر دیتے تھے۔ میں اکثر انہیں کسی گوشے میں بیٹھ کر ٹائم یا نیوزویک میگزین پڑھتے دیکھتا۔ غالباوہ اُس زمانے کے بڑے انگریزی روزنامے ''پاکستان ٹائمز‘‘ میں بھی کام کرتے تھے۔ ہماری خوش قسمتی یہ تھی کہ کلاسیکی انگریزی شاعری کی جگہ جدید شاعری کورس میں رکھی گئی تھی۔ اس کتاب کا نام تھا An Anthology of Modern English Verse۔اس میں ٹی ایس ایلیٹ سے لے کر رالف ہاجسن تک سب نئے شعرا تھے۔ ساٹھ میں سے اکثر نظمیں زبانی یاد ہو گئی تھیں۔ استادِ مکرم پروفیسر سجاد حیدر سیٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی میں مقیم ہیں۔دوست عزیز شاہد مسعود ملک نے از راہ کرم ان کا ایڈریس اور فون نمبر عطا کیا۔ پروفیسر صاحب سے بات کی تو آواز سے ان کی صحت اچھی لگ رہی تھی۔ فرمانے لگے :آج کل خط لکھنے کا رواج نہیں رہا‘ تم مجھے خط لکھو۔ انگریزی ہی کے شعبے میں پروفیسر نذیر بھی تھے۔ سرخ گلابی رنگ کا چہرہ۔ایک باکمال استاد! پھر وہ نئی نئی اٹھتی ہوئی پیپلز پارٹی کی نذر ہو گئے اور ایک دن ہم نے سنا کہ وفاقی وزیر خورشید حسن میر کے سیکرٹری تعینات ہو گئے۔ کہاں پروفیسری کی بادشاہی اور بلند باعزت مقام اور کہاں دربار کی ملازمت‘مگر اُن کا اپنا نقطہ نظر تھا!
بہت کم اداروں میں ایم اے کی کلاسیں تھیں‘ مگر ہمارے کالج میں اُس زمانے میں تین مضامین میں ایم اے کرایا جا رہا تھا۔ جغرافیہ‘ ریاضی اور اکنامکس۔ ادبی اور ثقافتی سرگرمیاں باقاعدگی سے منعقد ہوتی تھیں۔ کالج میگزین '' کوہسار‘‘ کے نام سے شائع ہوتا تھا۔ حصۂ اردو کا ایڈیٹر مجھے مقرر کیا گیا۔ بزم ِادب فعال تھی۔ ہم اس میں اپنی تازہ کہی ہوئی غزلیں اور نظمیں سناتے جن پر باقاعدہ تنقید کی جاتی۔ کالج میں اکثر مشاعرے ہوتے۔ ملک بھر کے تعلیمی اداروں کے مشاعروں میں اپنے کالج کی نمائندگی کی۔اسلامیہ کالج لاہور کے شہرہ آفاق'' شمع تاثیر‘‘ کے مشاعرے سے بھی اپنے کالج کے نام پر انعام حاصل کیا۔ انہی دنوں کالج کینٹین پر بیٹھے تھے کہ کسی طالب علم نے بتایا کہ ظفر اقبال کانیا شعری مجموعہ '' گلافتاب‘‘ چھپا ہے اور چھپتے ہی ازحد متنازعہ ہو گیا ہے۔ فوراًحاصل کیااور سوائے آخری حصے کے جو '' مشکل‘‘ ہے باقی سارا حفظ ہو گیا۔یہ ظفراقبال سے طویل تعلق اور عقیدت کی یک طرفہ ابتدا تھی۔ پھر وہ دن بھی آیا کہ انہوں نے کُلبۂ احزاں کو قیام سے مشرف کیا اور اس بے بضاعت کو حکم دیا کہ '' آبِ رواں‘‘ کے نئے ایڈیشن کے لیے فلیپ لکھوں۔ اس حکم کی تعمیل ہوئی۔ حافظہ خوب شعر پسند تھا۔ کالج کے دورانیہ میں احمد ندیم قاسمی کی ''دشتِ وفا‘‘، ناصر کاظمی کی'' برگِ نے‘‘، مجید امجد کی'' شب ِرفتہ‘‘ اور فراز کی ''درد آشوب‘‘ مکمل کی مکمل حفظ تھیں۔ عدم اور جوش کے بھی بے شمار اشعار یاد تھے۔ یوسف ظفر کے صاحبزادے نوید ظفر مرحوم ( جو بعد میں پی ٹی وی میں اعلیٰ مناصب پر رہے ) ایک سال سینئر تھے۔ ایک دن کہنے لگے کہ کالج لائبریری میں انہیں اپنے والد کی فلاں کتاب نہیں ملی۔ پوچھا‘کون سی نظم کی ضرورت پڑ گئی؟ بتایا تو وہ نظم انہیں زبانی سنا دی !
پھر امتحان ہوا اور کالج سے جدائی کا مرحلہ آیا۔ ڈر تھا کہ فیل نہ ہو جاؤں۔ نتیجہ آیا تو کالج میں پہلی پوزیشن تھی۔ رول آف آنر بھی ملا۔ کچھ برسوں بعد کالج جانا ہوا تو مین ہال میں دیواروں پر سال بہ سال رول آف آنر لینے والوں کے نام آویزاں دیکھے۔ صرف 1967 ء والی جگہ خالی تھی کہ اُس سال میں نے لیا تھا بقول ناصر کاظمی ؎
کتنی مردم شناس ہے دنیا
منحرف بے حیا ہمیں سے ہوئی 
ایم اے اکنامکس کے لیے داخلہ اصغر مال کالج ہی میں لیا۔ پروفیسر اصغری شریف صدر شعبہ تھیں۔مجموعی ( ایگریگیٹ ) نمبروں کی بنیاد پر پنجاب یونیورسٹی کا سکالرشپ بھی ہو گیا۔اسی اثنا میں مشرقی پاکستان کے لیے بین الصوبائی فیلو شپ کا مقابلہ ہوا۔ خوش بختی سے ڈھاکہ یونیورسٹی کے شعبہ اقتصادیات کی نشست مل گئی۔ یہ ایک نئی دنیا تھی۔اڑھائی تین سال وہاں گزارنے اور پورا مشرقی بنگال دیکھنے کا فائدہ یہ ہوا کہ آج مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اصل عوامل سے بخوبی آگاہی ہے۔اور یہ جو ہر سال سولہ دسمبر کو بھانت بھانت کے نام نہاد تجزیے نظر آتے ہیں ان کا کھوکھلا پن واضح ہے۔
اصغر مال کالج کے کلاس روم اور چھلکتے برآمدے آج بھی دل میں آباد ہیں ! جسم کا رؤاں رؤاں اس درسگاہ کا شکر گزار ہے۔اس کی لائبریری کے بے پناہ احسانات ہیں۔اس کے اساتذہ میرے لیے مقدس ہیں۔ع
شاد باد اے عشق خوش سودائی ما

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں