''آج جب دنیا میں اسلحہ سے متعلق جرائم، اسلحہ کی سمگلنگ اور اسلحہ کی نقل و حمل زوروں پر ہے، سنگا پور میں یہ جرائم بہت ہی کم ہیں۔ اس کی وجہ ہمارا یہ قانون ہے کہ اگر کوئی فائر کرتا ہے، تو کوئی اس سے زخمی یا ہلاک نہ ہو تب بھی اس کی سزا موت ہے‘‘۔
یہ الفاظ جیا کمار کے ہیں۔ جیا کمار مذہباً ہندو ہیں۔ نسلاً تامل ہیں۔ سنگا پور کے ڈپٹی وزیر اعظم رہے۔ مختلف اوقات میں مختلف وزارتوں کے انچارج رہے۔ یکم جولائی 2020ء سے انہیں نیشنل یونیورسٹی آف سنگا پور کا پرو چانسلر مقرر کیا گیا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اتنی سخت سزا کے باوجود، جو بظاہر ظلم لگتی ہے‘ اسلحہ سے متعلق جرائم اس ملک سے بالکل ختم نہیں ہوئے‘ مگر سنگا پور میں یہ کبھی ایشو نہیں بنا۔
لاہور سیالکوٹ موٹر وے پر رونما ہونے والے گھناؤنے جرم کے بعد سزائے موت پر ایک بار پھر بحث چل نکلی ہے۔ دو وفاقی وزیروں سمیت، کچھ حضرات کی رائے یہ ہے کہ سزائے موت جرائم کا حل نہیں۔ ہر کسی کو رائے دینے کا حق حاصل ہے مگر رائے دیتے وقت انصاف سے کام لینا چاہیے۔ سزائے موت اس وقت جاپان، روس، چین، جاپان، سنگا پور، جنوبی اور شمالی کوریا، تھائی لینڈ اور تائیوان سمیت کئی ملکوں میں رائج ہے مگر نام صرف سعودی عرب، ایران اور پاکستان کا لیا جاتا ہے۔ صرف جاپان کی صورت احوال دیکھیے۔ جاپان میں 2014ء میں تین، 2015ء میں تین، 2016ء میں تین، 2017ء میں چار، 2018ء میں پندرہ اور 2019ء میں تین افراد کو مختلف جرائم کے سلسلے میں موت کی سزا دی گئی۔ چین اور دوسرے ملکوں کے اعداد و شمار بھی موجود ہیں۔
دلیل یہ دی جاتی ہے کہ ایران اور سعودی عرب میں سزائے موت کے باوجود جرائم کم نہیں ہوئے۔ ایسا کہتے وقت یہ حضرات کوئی اعداد و شمار نہیں پیش کرتے۔ آخر کس سال کے جرائم کو بنیاد (بنچ مارک) بنا کر آپ یہ بات کر رہے ہیں؟ اور کن برسوں میں جرائم بڑھے اور کتنے بڑھے؟ کوئی حوالہ تو دیجیے۔ آئیے صرف اور صرف اعداد و شمار کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ زمینی حقائق کیا ہیں؟
جن ملکوں میں سزائے موت ختم کر دی گئی ہے، کیا وہاں جرائم کا خاتمہ ہو گیا ہے؟ یورپ میں روس اور بیلاروس کے سوا تمام ملکوں میں سزائے موت ختم کر دی گئی ہے۔ ہمارے سامنے اس وقت جو دستاویز کھلی ہوئی ہے‘ وہ فن لینڈ میں قائم ''یورپین انسٹی ٹیوٹ فار کرائم کنٹرول‘‘ کی شائع کردہ پبلی کیشن سیریز نمبر55 ہے۔ یہ ادارہ اقوام متحدہ سے وابستہ ہے۔ یہ دستاویز یورپی ملکوں میں 1995ء اور 2004ء کے درمیان جرائم کی کمی یا بیشی کے اعداد و شمار پیش کرتی ہے۔ اس کی رو سے ان دس برسوں میں جرائم مندرجہ ذیل فی صد بڑھے:
سویڈن6 فی صد
فن لینڈ 38 فی صد
بلجیم 38 فی صد
آسٹریا 30 فی صد
شمالی آئرلینڈ 83 فی صد
یونان35فی صد
سپین 31 فی صد
سوئٹزر لینڈ 19 فی صد
ڈنمارک، جرمنی، لکسمبرگ، آئر لینڈ اور ہنگری میں جرائم پہلے کی نسبت کم رونما ہوئے۔ numbeo.com بہت بڑی ویب سائٹ ہے جو دنیا کے مختلف ملکوں میں رائج قیمتوں، جرائم اور دیگر اشاریوں کو انڈیکس کی صورت میں پیش کرتی ہے۔ اس ویب سائٹ کو حوالے کے طور پر پیش کرنے والوں میں اکانومسٹ، بی بی سی، ٹائم میگزین، فوربس، نیویارک ٹائمز، دی ٹیلی گراف، سڈنی مارننگ ہیرالڈ، چائنہ ڈیلی، واشنگٹن پوسٹ اور کئی دیگر اخبارات و جرائد شامل ہیں۔ اس ویب سائٹ نے سال رواں یعنی 2020ء کے وسط میں جرائم کا جو انڈیکس پیش کیا ہے اس کی رو سے سعودی عرب کا کرائم انڈیکس 26.68 فیصد ہے اور ایران کا 48.91 فیصد۔ اب اس کے مقابلے میں امریکہ اور یورپی ملکوں کے کرائم انڈیکس ملاحظہ فرمائیے:
یو ایس اے 47.70
سویڈن 47.43
فرانس 47.37
بلجیم 45.29
برطانیہ 44.54
اٹلی 44.24
نیوزی لینڈ 42.19
آسٹریلیا 41.67
دیکھ لیجیے کہ سعودی عرب کا کرائم انڈیکس ان سب یورپی ملکوں اور امریکہ سے کم ہے۔ اب بھی یہ کہنا کہ سعودی عرب میں سزائے موت کے باوجود جرائم کم نہیں ہوئے، ایک بے سر و پا بات ہے۔ ایران کا کرائم انڈیکس زیادہ ہے مگر کتنا زیادہ؟ 45‘ 47 اور 48 میں کتنا فرق ہے؟ سب سے کم کرائم انڈیکس قطر کا ہے یعنی 11.90، تائیوان کا 15.26ہے‘ متحدہ عرب امارات کا 15.45 ہے اور عمان کا 20.62 ہے۔ ان چاروں ملکوں میں سزائے موت کا قانون موجود ہے۔
امریکہ کی لگ بھگ نصف یعنی 25 ریاستوں میں سزائے موت ختم کر دی گئی ہے۔ اب ذرا جرائم کے حوالے سے سعودی عرب اور امریکہ کا موازنہ ملاحظہ کیجیے: جرائم کی سطح سعودی عرب میں 23.41 ہے اور امریکہ میں 55.84 یعنی دو گنا زیادہ ہے۔ منشیات کا استعمال امریکہ میں سعودی عرب کے مقابلے میں ستاون گنا زیادہ ہے۔ قتل کی شرح سعودی عرب میں 0.9 اور امریکہ میں 5 ہے۔ ڈاکے امریکہ میں سعودی عرب کی نسبت پچاس گنا زیادہ پڑتے ہیں۔ ہر فی ہزار افراد میں سعودی عرب میں جرائم 3.88 اور امریکہ میں 41.29 ہیں یعنی گیارہ گنا زیادہ! سعودی عرب میں 35 فی صد افراد کے پاس اسلحہ ہے اور امریکہ میں 88.8 فی صد کے پاس۔ قتل کی شرح امریکہ میں 49 گنا زیادہ ہے۔ ہر دس لاکھ سعودیوں میں 10.23 افراد قتل کا ارتکاب کرتے ہیں جب کہ امریکہ میں ہر دس لاکھ افراد میں 42.01 افراد قتل کا ارتکاب کرتے ہیں یعنی چار گنا زیادہ۔
ہم کوئی مذہبی حوالہ نہیں دے رہے۔ غیر مسلم ممالک میں بھی سزائے موت دینے کا قانون موجود ہے مگر احساس کمتری اتنا شدید ہے کہ نظر پاکستان، ایران اور سعودی عرب ہی پر پڑتی ہے۔ یوں بھی مسئلہ سزائے موت دینے یا نہ دینے کا نہیں ہے۔ اصل ایشو ہمارا نظام ہے۔ مناسب قانون سازی نہ کیے جانے کے سبب مجرم چھوٹ جاتے ہیں اور بے گناہ زندانوں میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے ہیں۔ پارلیمنٹ اپنا کردار ادا کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ قوانین میں اتنے سقم ہیں کہ عدلیہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ سزائے موت کا فائدہ بھی تب ہے جب دلوں میں یہ یقین راسخ ہو کہ سزا ملے گی اور جلد ملے گی، ضمانت نہیں ہو گی اور چھوٹنا نا ممکن ہو گا۔ اس کے لیے پولیس کی چابک دستی اور سیاسی مداخلت سے نجات ضروری ہے۔
ہم ملا نصرالدین کی طرح سوئی باہر سڑک پر تلاش کر رہے ہیں جبکہ سوئی کمرے میں گم ہوئی ہے۔ دلیل ہماری یہ ہے کہ سڑک پر روشنی ہے اور کمرے میں اندھیرا ہے۔ خرابی کہیں اور ہے مگر ہم اُس طرف دیکھنا نہیں چاہتے۔ ایک ایک دن میں متعدد عورتوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے واقعات پیش آرہے ہیں۔ انسان درندے بن گئے ہیں۔ ان کی اپنی مائیں کہہ رہی ہیں کہ انہیں مار دیا جائے اور ہمیں یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ کہیں انہیں واقعی سزائے موت نہ دے دی جائے۔ کل کو ہم یہ مطالبہ بھی کر دیں گے کہ سانپ اور بچھو ڈستے ہیں تو ڈسنے دو مگر انہیں مارو نہیں۔ مانا کہ عورت کو کمتر سمجھنے والے مائنڈسیٹ میں تبدیلی بھی ضروری ہے مگر اُسی سانس میں عورت کے بدترین دشمنوں کو بچانے کی فکر!! یہ تضاد نہیں فساد ہے!!