تو کیا عابد کوئی سوئی ہے جو کسی سوراخ میں گر گئی اور اب نہیں مل رہی ؟ یا گندم کی بالی ہے جسے ہوا اڑا کر لے گئی ؟یا وہ شلغم تھا جسے گائے کھا گئی؟ کیا وہ کنگھی کا دندانہ تھا جو ٹوٹ گیا اور اب اسے ڈھونڈنا ناممکن ہے ؟ یا وہ بیج کا دانہ تھا جسے زمین کھا گئی ؟ کیا وہ پانی کا قطرہ تھا جو ہوا میں تحلیل ہو گیا؟ یا مٹی کا پیالہ تھا جو گرا اور ٹوٹ گیا؟ یا اس کے ہاتھ کوئی سلیمانی ٹوپی آگئی ہے ؟
نہیں! وہ گوشت پوست کا انسان ہے۔ علائق کے ساتھ بندھا ہوا! رشتہ داریوں میں مقید! ضرورتوں کا محتاج! وہ پولیس جس کے پاس ہزاروں سے زیادہ کی نفری ہے ‘ وسائل ہیں ‘ سائنسی آلات ہیں ‘ مخبروں کے گروہوں کے گروہ ہیں ‘ اسے ڈھونڈنہیں پا رہی ! عجیب بات ہے !
یہ بالکل فطری امر ہے کہ دل میں وسوسے اٹھیں! کیا کہیں کوئی گڑ بڑ ہے ؟ کیا اصل بات کوئی اور ہے ؟آخر ہفتوں پر ہفتے گزرتے جا رہے ہیں اور مجرم نہیں مل رہا ! اب اس کے نہ ملنے کی خبر ہیڈ لائن سے اُتر کر ‘ پہلے صفحے کے نچلے حصے تک آگئی ہے۔کچھ دن اور گزریں گے تو اخبار کے بیک پیج پر آجائے گی۔پھر اندر کے کسی صفحے پر! پھر غائب ہو جائے گی ! یہاں تک کہ عوام بھول جائیں گے۔ صرف وہ خاتون یاد رکھے گی جس پر یہ قیامت گزری ہے۔ وہ مرتے دم تک نہیں بھولے گی۔اس کے بچے پوری زندگی ابنارمل رہیں گے۔ اگر ان کے لیے ممکن ہوا تو اس ملک کوہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ جائیں گے۔ آپ کا کیا خیال ہے ان کے دلوں میں اور ان کی آئندہ نسلوں کے دلوں میں اس ملک کے لیے محبت ہو گی ؟ آپ بھی جانتے ہیں اور ان سطور کا لکھنے والابھی کہ ان کے دلوں میں اس ملک کے لیے کیا ہو گا۔ لکھنے کی ہمت نہیں پڑ رہی۔
اس معاشرے میں یہی کچھ ہوتا رہا ہے۔ ریپ یا گینگ ریپ کا مجرم ہاتھ ہی نہیں آتا۔ ہاتھ آئے تو چھوٹ جاتا ہے۔ کیا کسی کو اس مشہور ایکٹریس کے ساتھ ہونے والا شرمناک سانحہ یاد ہے جس نے اپنی ساری زندگی پاکستان کو دے دی تھی ؟ اس کا گینگ ریپ ہوا۔ پھر اسلام کے ایک علمبردارحکمران نے اس کے مجرموں کو چھوڑ دیا۔ ایک معروف وکیل نے اس ضمن میں حکمران کو خط بھی لکھا تھا۔ وہ ایکٹریس‘ اس کا خاندان‘ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہ ملک چھوڑ گیا۔
اور اس سے کیا فرق پڑتا ہے اگر مظلوم عورت طاقتور خاندان سے ہو ؟ کیا وہ عورت طاقتور نہیں تھی جو خاتون وزیراعظم کی دوست تھی ؟ ایک بہت بڑے سیاسی خاندان کی چشم و چراغ! جس کا والد اور دادا حکمران رہے تھے۔ مگر تھی تو عورت نا ! کیا ہوا تھا اس کے کیس کا ؟ پولیس نے کیس بھی اُس وقت کے سپہ سالار کے کہنے پر مشکل سے درج کیا تھا! پھر وہ بھی ملک چھوڑ گئی! خاندان‘ دوستی روابط‘ طاقت ‘ سب کچھ تھا مگر تھی تو عورت ! مختاراں مائی یاد ہے ؟ جب وقت کے حکمران نے زمینِ غیر پر کھڑے ہو کر اس کی تضحیک کی تھی کہ غیرملکی شہریت کے لیے ریپ کرواتی ہیں! انا للہ و انا الیہ راجعون !
اس انصاف کدے میں جو قصور بھی ہے عورت ہی کا ہے ! اولاد نہ ہو تو عورت قصوروار ! بیٹا نہ پیدا ہو تو عورت کو پیٹو! پھر بھی بیٹی ہی جنے تو طلاق دو!
کتنے ہی واقعات ریکارڈ پر ہیں جن میں ظلم بھی عورت پر ہوا اور سزا بھی اسے ہی ملی۔ ع
وہی ذبح بھی کرے ہے وہی لے ثواب الٹا
بڑے بڑے جغادری لیڈر وں نے کہا کہ عورت کے ساتھ زیادتی ہو تو خاموش رہے۔ کلپ آج بھی سنا جا سکتا ہے۔ کیا بڑے بڑے تھری پیس سوٹ اور کیا دستارپوش عبائیں! کیا نام نہاد لبرل اور کیا دقیانوسی! وراثت بانٹنے کا وقت آئے تو بیٹی اور بہن کو ڈسٹ بِن میں یوں پھینکتے ہیں جیسے وہ کوڑا کرکٹ ہو۔
سو سال بیت گئے کچھ بھی نہیں بدلا۔ کل بیٹیوں کو لکھنا نہیں سکھایا جا رہا تھا کہ لکھنا سیکھ گئیں تو پڑوسیوں کو خط لکھیں گی۔ کھانا کم دیا جاتا تھا کہ جلدی بڑی نہ ہو جائیں۔ آج ان پر حملہ کرنے والے جنسی درندے نہیں پکڑے جا رہے۔ آج بھی بیٹیوں سے پوچھے بغیر ان کی زندگیوں کے فیصلے کیے جاتے ہیں۔ آج بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکیوں کو ان پڑھ بھتیجے یا نیم خواندہ جاگیردار بھانجے کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے۔ پہلے لیڈی ڈاکٹر تلاش کی جاتی ہے پھر اس سے شادی کی جاتی ہے۔ پھر اس سے ملازمت‘ پریکٹس سب کچھ چھڑا دیا جاتا ہے۔ یہ کالم نگار ایک ایسے شخص کو جانتا ہے جس نے ایک سی ایس پی لڑکی سے شادی کی اور شادی کے بعد مطالبہ کیا کہ استعفیٰ دو۔ ایک سرکاری رہائشی کالونی میں ایک افسر خاتون کو جب اس کا شوہر پیٹتا تھا تو ارد گرد والے چیخیں سنتے تھے۔شوہر کم پڑھا لکھا تھا۔اسے اعتراض تھا کہ دفتر سے فون کیوں آتے ہیں۔ آج نئی صدی کے دو عشرے مکمل ہونے کو ہیں۔ ہم ایٹمی طاقت بن چکے ہیں یہ ملک اسلام کے نام پر بنا مگر یہاں وٹہ سٹہ آج بھی عورتوں کو ذلیل کر رہا ہے۔ اسوارہ ہے یا ونی یا کاروکاری یا غیرت کے نام پر قتل‘ سب کچھ ہو رہا ہے۔ ان پڑھوں پر مشتمل پنچایتیں آج بھی معصوم بچیوں پر ظلم ڈھارہی ہیں۔ کوئی روکنے والا نہیں۔ سرنگ کے سرے پر روشنی کے آثار بھی نہیں نظر آرہے۔ ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ ایسا ہی ہوتا چلا جائے گا۔ اس زمانے میں بھی لڑکے والے جہیز کی فہرستیں دے رہے ہیں۔ آج بھی سینہ تان کر فخر سے کہا جاتا ہے ''ہم لڑکے والے ہیں ‘‘۔ تُف ہے !
لڑکی آج بھی فرنیچر کا پیس ہے۔ شوروم میں لوگ آتے ہیں۔دیکھتے ہیں۔ انکار کر کے چلے جاتے ہیں۔ ہم سب اس قبیح اور مکروہ رواج کے مجرم ہیں۔ اتنی عمر گزری صرف ایک صاحب ایسے ملے جنہوں نے ایک لڑکی اپنے بیٹے کو دکھانا تھی۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ لڑکی اور اس کے والدین کو معلوم نہ ہو۔ بہت بڑی دعوت کی جس میں دوسرے خاندانوں کے علاوہ اُس کنبے کو بھی مدعو کیا۔ تعدد ازدواج کاعرب کلچرتو بھاتا ہے مگر یہ یاد نہیں رہتا کہ خیرالقرون سے لے کر اب تک وہاں عورت شادی کا پیغام خود بھجواتی آ ئی ہے۔حضرت خدیجہ ؓنے شادی کا پیغام خود بھجوایا تھا۔ 2001ء میں جدہ میں پاکستانی قونصلیٹ کے ایک افسر مظہرالحق صاحب کے ہاں قیام تھا۔ انہوں نے بتایا کہ جدہ میں ان کے محلے میں ایک خوشحال عرب عورت بیوہ ہو گئی۔ اس کی دولت کی وجہ سے اس کے رشتہ دار وغیرہ اس کے گرد منڈلانے لگے۔ ایک بھلا مانس بنگالی اس کا ملازم تھا۔ بیوہ نے اسے شادی کی پیشکش کی اور اس کے ہاں کہنے پر اس سے شادی کر لی۔ یہاں عورت خود کیا اس کے والدین تک ایسا نہیں کر سکتے۔ سگے بھائی اور سگی بہن کو بھی خود پیشکش کریں گے تو لڑکی کو طعنے دیے جائیں گے اور ساری زندگی دیے جاتے رہیں گے۔
عابد پکڑا نہیں جا رہا اور جنگ و جدل اس بات پر ہو رہا ہے کہ پھانسی دی جائے یا نہ دی جائے‘ اور سرعام دی جائے یا جیل میں دی جائے۔ بچہ پیدا نہیں ہوا ‘ پھپھی شور و غوغا کر رہی ہے کہ اس کا داماد بنے۔ پکڑا نہیں جا رہا تو وسوسے تو دل میں اُٹھیں گے۔ آخر کیوں نہیں پکڑا جا رہا ؟ دس فٹ کے فاصلے سے بھی نہیں ہاتھ آیا۔دال میں کچھ کالا ہے۔ ممکن ہے پوری دال ہی کالی ہو۔مینڈا جی دلیلاں دے وات وے۔