ڈیفنس میکنزم

مرحوم نے یہ واقعہ خود بتایا تھا۔ بعد میں وہ رپورٹنگ اور کالم نگاری کے حوالے سے خاصے مشہور ہو گئے تھے مگر یہ ان کے کیریئر کے ابتدائی دنوں کی بات ہے۔ جس اخبار میں وہ کام کر رہے تھے اس کے مالک کا نام، فرض کیجیے، مجید تھا۔ ایک دن ان کے کسی سینئر نے، یا باس نے، انہیں گالی دے دی۔ انہوں نے جواب میں ایک زناٹے دار تھپڑ رسید کیا اور شور مچا دیا کہ مجید صاحب کو گالی دے رہے ہو‘ میں نہیں برداشت کر سکتا۔ گالی دینے والے کو لینے کے دینے پڑ گئے۔ تھپڑ الگ کھایا۔
یہ کیا ہے؟ یہ ڈیفنس میکنزم ہے۔ دفاعی میکانیت کہہ لیجیے یا دفاعی طریق کار! قدرت نے مختلف حیوانات کو مختلف ڈیفنس میکنزم سے مسلح کیا ہے۔ رینگتے ہوئے کسی کیڑے کو چھیڑیں تو وہ کنڈلی سی مار کر یوں پڑ رہے گا جیسے اس میں جان ہی نہیں رہی۔ کچھ کیڑے ماحول کے رنگ میں اتنے رچے بسے ہوتے ہیں کہ اسی کا حصہ لگتے ہیں جیسے ٹڈا (grasshopper)۔ 
ہمارے علاقے میں اسے خدا کا گھوڑا یا خدا کا گھائیا کہتے ہیں۔ بالکل گھاس کا ہم رنگ! کئی مچھلیاں خطرے کے وقت اپنا رنگ بدل لیتی ہیں۔ ایک چھپکلی ایسی ہے جسے کوئی دوسرا جانور کھانے لگے تو آنکھوں سے لہو کی تیز دھار پھینکتی ہے جو پانچ فٹ تک جاتی ہے۔ ایک سمندری جانور ایسا ہے جو اپنی پسلیوں کو ایک خاص زاویے پر رکھ کر اپنے جسم کے گرد تیر جیسی سلاخیں نصب کر لیتا ہے۔ ایک خاص قسم کی مچھلی دشمن کو سامنے پا کر اپنے مساموں سے کیچڑ ٹائپ مادہ نکالتی ہے جو دشمن کے جسم کے ساتھ گوند کی طرح چپک کر اسے پریشان کر دیتا ہے۔ یہ ڈیفنس میکنزم نباتات میں بھی پایا جاتا ہے۔ اکاسیا درختوں کی ایک نوع ایسی ہے جس کے کانٹوں کے اندر کھوکھلی جگہ پائی جاتی ہے۔ اس کھوکھلی جگہ میں چیونٹیاں رہتی ہیں۔ جب کوئی جانور اس درخت کی ٹہنی پر، کھانے کے لیے، منہ مارتا ہے تو یہ چیونٹیاں جانور کے منہ اور اس کے ارد گرد کی جگہ پر حملہ کر دیتی ہیں اور اس قدر کاٹتی ہیں کہ جانور دوسری بار ٹہنی پر منہ مارنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
انسانوں کے پاس بھی قسم قسم کے ڈیفنس میکنزم ہیں۔ دماغ استعمال کر کے انسان نے ہتھیار بنائے جنہیں وہ اپنے دفاع کے لیے برتتا ہے۔ یہ اور بات کہ جس طرح جانور دوسرے جانوروں پر حملہ کرتے ہیں اسی طرح انسان بھی جارحیت اختیار کرتا ہے۔ مگر بات چیت کرتے وقت، بحث کرتے وقت، اپنا موقف واضح کرتے وقت اور دوسرے کو قائل کرتے وقت جو ڈیفنس میکنزم قدرت نے انسان کو دیا ہے اس کا نام دلیل ہے۔ یہ دلیل ہے جس سے ایک مہذب انسان اپنے نقطہ نظر کا دفاع کرتا ہے؛ تاہم ہم پاکستانیوں کا ڈیفنس میکنزم دلیل کے بجائے کچھ اور عجیب و غریب چیزوں پر مشتمل ہے۔
ہمارا مضبوط ترین ڈیفنس میکنزم مذہب ہے۔ ہم جب دیکھتے ہیں کہ دلیل کے اعتبار سے ہم شکست کھانے کے قریب ہیں تو ہم فوراً اس طاقتور میکنزم کو حرکت میں لے آتے ہیں۔ ہم حریف کو کافر قرار دیتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی اسے یہ وحشت اثر خبر سناتے ہیں کہ دائرۂ اسلام سے نکلنے کے بعد وہ دائرۂ ازدواج سے بھی خارج ہو چکا ہے۔ یہ ایک ایسا مہلک دفاعی طریقِ کار ہے کہ مخالف کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں۔ اس کی سٹی گم ہو جاتی ہے۔ اب وہ اصل موضوع کو چھوڑ کر، جس میں وہ غالب آ رہا تھا، اپنے ایمان کی حفاظت میں لگ جاتا ہے۔ اب اس کا سارا زور بیان یہ ثابت کرنے پر صرف ہونے لگتا ہے کہ وہ مسلمان ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو اسے جان کے بھی لالے پڑ سکتے ہیں۔ ہماری بحث اس طرح کی ہوتی ہے:
آپ کی دلیل میں نہیں مانتا کیونکہ آپ قران و سنت کے خلاف بات کر رہے ہیں۔ 
میں نے کون سی بات قرآن و سنت کے خلاف کی ہے۔ بتائیے۔ 
آپ تو قرآن و سنت کو مانتے ہی نہیں آپ مسلمان ہی نہیں۔
جناب! میں کیوں نہیں مانتا! میں بالکل مانتا ہوں 
آپ کو مسلمان ہونے کے لیے دوبارہ کلمہ پڑھنا ہو گا۔
کبھی کبھی ہم اپنا کام نکلوانے کے لیے یا کسی کو لا جواب کرنے کے لیے اسے یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ تم تو فلاں گروہ یا فلاں مسلک سے تعلق رکھتے ہو، مثلا ہم شہر کے حاکم کے پاس جاتے ہیں کہ ہمیں فلاں مقام پر پبلک میٹنگ کے انعقاد کی اجازت دی جائے۔ حاکم اجازت نہیں دیتا کہ اس سے امن و امان مجروح ہونے کا خدشہ ہے۔ ہم اصرار کرتے ہیں۔ وہ انکار کرتا ہے۔ آخر ہم اپنا آخری داؤ آزماتے ہیں اور مسکرا کر حاکم سے کہتے ہیں: اچھا‘ اب معلوم ہوا کہ آپ فلاں گروہ سے تعلق رکھتے ہیں! ٹھیک ہے! ہم باہر جا کر عوام کو آپ کی اصلیت سے آگاہ کر دیتے ہیں! یہ سن کر حاکم کے ماتھے پر پسینہ آ جاتا ہے۔ وہ چلا اٹھتا ہے: خدا کا خوف کیجیے! میرا اُس گروہ سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہم کہتے ہیں یہ تو آپ کا موقف ہے۔ فیصلہ عوام خود کر لیں گے۔ اب حاکم ہتھیار ڈال دیتا ہے اور کہتا ہے‘ اچھا صاحب آپ کر لیجیے پبلک میٹنگ! مگر میرے بارے میں یہ جھوٹ نہ پھیلائیے۔ 
مذہب کا استعمال ہم ایک اور اسلوب سے بھی خوب کرتے ہیں۔ اور وہ ہے حریف کو دائرۂ اسلام سے نکال کر سیدھا دائرۂ یہود کے اندر لے جانا‘ خواہ اس نے تورات کو کبھی ہاتھ بھی نہ لگایا ہو اور اتنا ہی مسلمان ہو جتنا اسے یہودی قرار دینے والا!
ہمارا دوسرا زبردست ڈیفنس میکنزم وطن اور دشمن ملک کے ارد گرد گھومتا ہے۔ دلیل کمزور پڑ جائے تو ہم مخالف کو غدار کہہ دیتے ہیں۔ وطن کی محبت چونکہ ہمارے خون میں شامل ہے اور خون ہمارا گرم ہے، اس لیے غداری کا تیر ٹھیک ٹھیک نشانے پر بیٹھتا ہے۔ دل متنفر ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ سفید سے وہ کالی بھیڑ بن جاتا ہے۔ اس کی باقی عمر حب الوطنی ثابت کرنے میں لگ جاتی ہے۔ یوں فتح کا سہرا ہمارے سر بندھ جاتا ہے۔ یہ ہتھیار کارگر نہ ہو تو اسے صاف صاف دشمن ملک کا ایجنٹ قرار دیتے ہیں۔ دلائل کا جواب دینے کے بجائے یہ الزام لگانا کہ یہ تو ایجنڈا ہی دشمن کا ہے، تیر بہدف ثابت ہوتا ہے۔ ساتھ ہی یہ خبر بھی دے دیتے ہیں کہ دشمن ملک میں گھی کے چراغ جلائے جا رہے ہیں۔ دلیل کا جواب دینے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔ اب حریف چاروں شانے چت! دیتا پھرے صفائیاں اور دہائیاں!
کبھی کبھی ہم مذہب، مسلک اور حب الوطنی ! ان سب کو ملا کر بارود کا ایسا مہلک اور قاتل، آمیزہ تیارکرتے ہیں کہ دشمن کے پرخچے اُڑ جاتے ہیں۔ یہ فلاں ملک سے فنڈ لے رہے ہیں۔ ان کی پشت پر فلاں ملک کھڑا ہے۔ ہر مسلک کا ایک ہمدرد ملک ہم نے تیار کر رکھا ہے۔ اِس گروہ کو فلاں ملک کا طعنہ دینا ہے اور اُس گروہ کو فلاں ملک کا۔ ثبوت، گواہی یا دستاویزات کی ضرورت ہے نہ عوام مانگتے ہیں۔
دلیل نہ ہونے کی صورت میں ہم گلے کو بھی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا فن جانتے ہیں۔ چیخ کر بات کرنا، دھاڑنا، گلے کی رگیں پھلانا، منہ سے جھاگ نکالنا، حریف کو بات ہی نہ کرنے دینا، اس کی تربیت اب ہمارے ٹی وی چینل بھی دیتے ہیں اور بغیر کسی فیس کے سکھاتے ہیں۔
اگر ان میں سے کوئی طریقہ بھی کارگر نہ ہو تو پھر ہمارا آخری ہتھیار گالی ہے۔ اس سے بازی ہی الٹ جاتی ہے۔ اب کشتوں کے پشتے لگتے ہیں۔ گھمسان کا رن پڑتا ہے۔ ہار جیت بے معنی ہو جاتی ہیں۔ اصل موضوع گم ہو جاتا ہے۔ کہتے ہیں‘ جنگ میں پہلی موت سچ کی ہوتی ہے۔ دنیا میں ایسی جنگیں کبھی کبھی ہوتی ہیں! ہمارے ہاں اکثر و بیشتر!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں