بیس سال؟
صرف بیس سال کے لیے؟
کیا یہ سب کچھ صرف بیس سال، صرف دو سو چالیس مہینوں کے لیے تھا؟
کیا آپ کسی ایسے قطعہ زمین پر سرمایہ کاری کریں گے جو بیس سال کے بعد نفع دینے کے بجائے زمین کے اندر دھنس جائے؟ کیا آپ ایسا محل خریدیں گے جو بیس سال کے بعد ہوا میں اڑ جائے؟ یا منہدم ہو جائے ؟
اتنی بڑی بڑی غلط کاریاں! اور حاصل فقط چند سال! سازشیں، خیانتیں، قانون شکنیاں، دوست نوازیاں، قتل، دھوکے اور حاصل ہونے والا فائدہ صرف چند سالوں کے لیے! یہی تو خسران ہے! یہی تو حماقت ہے۔
نیب کے سامنے ایک خاتون پیش ہوتی ہے اور بتاتی ہے کہ اس کے والد انتقال کر گئے اس لیے ان کے خلاف چلایا جانے والا ریفرنس ختم کیا جائے۔ ریفرنس کیا تھا؟ بیس سال پہلے مرحوم کو، اْس وقت کے صدر نے جکارتہ میں سفیر متعین کیا تھا۔ کس بنیاد پر؟ کیا وہ پیشہ ور ڈپلومیٹ تھے؟ کیا وہ وزارت خارجہ کا حصہ تھے؟ کیا ان کے تجربہ کی اس میدان سے مناسبت تھی؟ نہیں! ایسی کوئی وجہ نہ تھی۔ وہ حاکم وقت کے دوست تھے۔ یہی بنیاد تھی۔ یہی قانون تھا۔ کوئی اعتراض نہیں کر سکتا تھا۔ کسی کی مجال نہ تھی! جکارتہ جا کر سفیر صاحب نے سفارت خانہ کی عمارتوں کو، جو حکومت پاکستان کی غیر متنازعہ ملکیت تھیں، حکومت پاکستان سے پوچھے بغیر فروخت کر دیا۔ نیب میں چلنے والے ریفرنس کے مطابق مالک کو، یعنی حکومت پاکستان کو، تیرہ لاکھ ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا۔ تیرہ لاکھ ڈالر یعنی آج کے حساب سے بائیس تئیس کروڑ پاکستانی روپے۔ جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا، جکارتہ کے پاکستانی سفارت خانے میں ایک محب وطن افسر نے اس دھاندلی کی اطلاع وزارت خارجہ کو دی۔ اطلاع دینے والے محب وطن افسر کو فوراً عہدے سے ہٹا کر وطن واپس بلا لیا گیا کہ حکمرانِ وقت کے دوست کے جرم کی نشان دہی کرتے ہو؟ پھر اسے نشانِ عبرت بنانے کے لیے وزارتِ خارجہ سے ہٹا کر، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے نیچے رکھ دیا گیا۔ اس اقدام کی ماضی میں کوئی نظیر نہ تھی۔ آٹھ سال! جی ہاں آٹھ سال تک بغیر کسی کام، بغیر کسی دفتر کے رہنے دیا گیا یہاں تک کہ اسی در بدری کے عالمِ نا پرسی میں اس نے جان جانِ آفرین کے سپرد کر دی!
چڑیا پر نہیں مار سکتی تھی۔ حکمرانِ اعلیٰ نے ایک کمیٹی تشکیل دی۔ بالکل ایسی ہی ایک کمیٹی جیسی دھاندلیوں اور خیانتوں پر پردہ ڈالنے کے لیے بنائی جاتی ہیں۔ کمیٹی نے ویسی ہی رپورٹ دی جیسی مطلوب تھی۔ پنجابی محاورہ بتاتا ہے کہ لُوٹا ہوا کپڑا چوروں نے ماپنا ہو تو گزوں سے نہیں، لاٹھیوں سے ماپتے ہیں۔ قانون شکنی کے انعام میں حکمران نے سفیر کو مدتِ سفارت میں توسیع عطا کی۔
محبِ وطن افسر آٹھ سال ظلم کی چکی میں پستا رہا۔ کہاں جاتا؟ کس سے فریاد کرتا؟ کس کی مجال تھی کہ اسے ریلیف دیتا؟ فرشتے دیکھتے رہے۔ نوٹ کرتے رہے۔ مظلوم افسر مر گیا۔ کنگرو کمیٹی کا سربراہ بھی، جس نے معاملے پر مٹی ڈالنے کی سفارش کی تھی، مر گیا۔ مظلوم افسر کی بیوہ کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں بلایا گیا۔ اس نے سارا معاملہ کمیٹی کے سامنے رکھا‘ مگر یہ معاملات کمیٹی کی طاقت سے بالا تھے۔ کہاں ہوا میں اڑنے والے بادل اور کہاں زمین پر رینگتے کیڑے! کہاں شاہ اور شاہزادے اور کہاں عامی!
دن گزرتے رہے۔ ہفتے، مہینے اور مہینے سال بنتے رہے یہاں تک کہ سفارت خانے کی عمارتوں کو فروخت ہوئے بیس سال گذر گئے۔ 2020 آ گیا۔ احتساب کے ادارے نے سفیر کے خلاف ریفرنس دائر کر دیا‘ اور اب، چار دن پہلے، سفیر کی بیٹی نے احتساب کے ادارے کو اطلاع دی ہے کہ ان کی وفات ہو گئی ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
ہے کوئی عبرت پکڑنے والا؟ بیس سال تو لمبا عرصہ ہے، دو دن کی گارنٹی نہیں۔ کہاں وہ شکوہ و جلال کہ مظلوم کی فریاد سنتے ہوئے لوگ خوفزدہ تھے کہ ہمدردی کا الزام نہ لگ جائے اور کہاں یہ حال کہ ریفرنس چل رہا ہے اور زندگی کی ڈور کٹ گئی۔ اُس وقت کا حکمران، بلا شرکتِ غیرے حکمران، خود اتنا مجبور اور بے بس ہے کہ وطن واپس نہیں لوٹ سکتا۔ یہ ہے انقلاب۔ خدا کے بندو! اس انقلاب سے ڈرو! انقلاب یہ نہیں کہ فلاں نے فلاں کا تختہ الٹ دیا۔ انقلاب یہ ہے کہ کل کے تخت نشین آج بوریا ڈھونڈتے پھر رہے ہیں! جن کے سروں پر سونے کے تاج تھے آج ان کے پاس چیتھڑا بھی نہیں کہ دھوپ سے بچنے کے لیے سر پر رکھ لیں۔ خاندان کے خاندان مٹ گئے۔ نام لینے والا کوئی نہیں بچا۔ تکبر کا یہ عالم تھا کہ شاہ جہان نے وسط ایشیا سے خالص نسل کے سید منگوائے۔ ایک نماز پڑھاتا تھا کہ بادشاہ کی طرف نماز کے دوران امام کی پیٹھ آئے بھی تو امام سید سے کم درجے کا نہ ہو۔ دوسرا، ہاتھی پر، بادشاہ کی طرف منہ کر کے، ہودے میں بیٹھتا تھا تا کہ مہاوت کی پیٹھ بادشاہ کی طرف نہ ہو کیونکہ مہاوت نے تو منہ اسی طرف کرنا تھا جدھر ہاتھی کا تھا‘ یعنی مہاوت کی پیٹھ سید کی طرف آئے مگر شاہ جہان کی طرف نہ آئے۔ پھر انقلاب آیا تو وہی شاہ جہان آٹھ سال قلعے میں قید رہا۔ بیٹے قتل ہو گئے۔ پوتے پوست کی نذر ہو گئے۔ دکن کے ساحلوں سے لے کر ہمالہ کی سرحدوں تک اور کابل اور بدخشاں سے لے کر آسام اور بنگال تک بادشاہی تھی مگر اب دیکھنے کو جمنا کے کنارے کھڑا اداس تاج محل اور رہنے کے لیے چند کمرے!! اور کیا برامکہ کا انجام کسی کو یاد ہے؟ کسی باد شاہ کی سطوت ان کے سامنے ہیچ تھی۔ قصر ایسے کہ تاریخ آج تک مبہوت اور مرعوب ہے۔ فیاضی کے واقعات ضرب المثل ہو چکے۔ پھر ایک دن سب کچھ ختم ہو گیا۔ کوئی آنکھ رونے والی نہ تھی اور کوئی شاعر قصیدہ خواں نہ تھا۔
تو پھر غَرّہ کس چیز کا ہے؟ رعونت کیسی ہے؟ اقتدار کی ایک مختصر مدت پر غرور کیوں ہے؟ دوسروں کو ہیچ کیوں سمجھتے ہو؟ دھمکیاں کیوں دیتے ہو؟ اکڑ کر کیوں چلتے ہو؟ ظلم کیوں کرتے ہو ؟ وَإِذَا بَطَشْتُم بَطَشْتُمْ جَبَّارِینََ! جب بھی کسی کی گرفت کرتے ہو تو ظالموں ہی کی طرح کرتے ہو۔ تمہاری حیثیت کیا ہے؟ آئے تھے تو بدن سے غلاظت تک دور نہیں کر سکتے تھے۔ مکھی تک نہیں اڑا سکتے تھے۔ جاؤ گے تو اپنے پیروں پر چل کر نہیں بلکہ دوسروں کے کندھوں پر سوار ہو کر جاؤ گے! پھر تمہیں ایک گڑھے میں اتارا جائے گا جس میں کھڑکی یا روشندان تو کیا ہونا ہے، سلوں کے درمیان جو شگاف ہوں گے وہ بھی گارے سے بھر دیے جائیں گے۔ پھر تمہاری ہڈیوں سے گوشت الگ ہو جائے گا۔ تمہارے ہونٹ ختم ہو جائیں گے۔ صرف دانت رہ جائیں گے۔ تمہارا اپنا بدن کیڑے پیدا کرنے کی فیکٹری میں تبدیل ہو جائے گا۔ یہ حشرات الارض تمہارے جسم کے مختلف حصوں کو اپنی شاہراہیں بنا لیں گے اور تم کچھ بھی نہیں کر سکو گے۔ پھر وہ دن بھی آئے گا جب تمہاری قبر کا نشان تک مٹ جائے گا۔ کیا معلوم اس پر کیا بنے؟ جھونپڑا یا محل؟ باتھ روم یا مہمان خانہ؟ یا جانوروں کی چراگاہ؟ درمیان میں جو چار دن تمہیں قوت کے ملے ان میں تم پیدائش بھی بھول گئے اور موت بھی۔ تم اپنے جیسے انسانوں کو اپنا غلام سمجھنے لگ گئے۔ یوں برتاؤ کرنے لگ گئے جیسے ان کے خالق اور رازق ہو۔ جیسے تم نے ہمیشہ رہنا ہے۔ کسی حق دار سے اس کا حق چھین لیتے ہو اور کسی نا اہل کو منصب پر بٹھا دیتے ہو! بیس سال لگیں یا چالیس یا اسّی، کھیل ختم تو ہونا ہے۔