عابد کے والد اکبر نے بیچ چوراہے کے ہنڈیا پھوڑ دی۔ اکبر کی بیٹیاں یعنی عابد کی بہنیں پولیس کی حراست میں تھیں۔ والد کا کہنا ہے کہ اس نے بیٹے کو قائل کیا کہ گرفتاری دے۔ ظاہر ہے یہی کہا ہو گا کہ شرم کرو مرد ہو کر چھپتے پھر رہے ہو اور خاندان کی عورتیں تمہاری وجہ سے قید ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ اکبر کو جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت تھی۔ پولیس اگر اتنی لائق تھی تو اِس زمانے میں جب اس کے پاس جدید ترین وسائل کا انبار ہے، دو تین دن کے اندر نہ سہی، ہفتے میں عابد کو پکڑ لیتی۔
پولیس کے سر پر صرف اکبر کا بیان ہی بم بن کر نہیں پھٹا‘ عزت کی رہی سہی پونجی عدالت عالیہ نے دریا میں بہا دی جب پچاس لاکھ کے انعام کے آگے سوالیہ نشان کھڑا کر دیا۔ پنجاب حکومت کی پھرتیاں ملاحظہ کیجیے کہ ملزم بلکہ مجرم کو پکڑنے میں مہینے لگا دیے۔ وہ بھی یوں کہ والد دعویٰ کر رہا ہے کہ گرفتاری عابد نے خود دی‘ مگر چند گھنٹوں کے اندر اندر ایک خطیر رقم پولیس کو انعام کے طور پر دینے کا اعلان کر دیا۔ عدالت نے کہا ہے کہ مجرموں کو پکڑنا تو پولیس کا کام ہے۔ اسی کی اسے تنخواہ ملتی ہے۔ انعام کا کیا مطلب؟
حیرت انگیز واقعات اور بھی رونما ہو رہے ہیں۔ آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ جناب وزیر اعظم نے گرانی کا نوٹس لے لیا ہے! انہوں نے کہا ہے کہ اب ہماری پوری توجہ مہنگائی کنٹرول کرنے پر ہو گی‘ ساری صورتحال خود مانیٹر کر رہا ہوں۔ وزیر اعظم کے منہ سے نکلے ہوئے یہ فقرے ابھی ہوا میں تَیر ہی رہے تھے کہ شیخ رشید نے، عملًا‘ ان کی تردید بھی کر دی۔ شیخ صاحب نے اسی میٹنگ میں وزیر اعظم کو بتا دیا کہ نومبر دسمبر میں آٹا مزید مہنگا ہو سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں شیخ صاحب نے وزیر اعظم کے مہنگائی کنٹرول کرنے کے دعوے یا خواہش پر پانی پھیر دیا۔ ویسے وزیر اعظم کو چاہیے تھا کہ شیخ رشید کو فوراً ٹوکتے اور تنبیہ کرتے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں اور تم کیا کہہ رہے ہو‘ بلکہ وزیر اعظم کو شیخ رشید کا نشانہ لے کر یہ محاورہ چلانا چاہیے تھا کہ من چہ می سرایم و طنبورۂ من چہ می سراید‘ یعنی میں کیا گا رہا ہوں اور میرا طنبورہ کیا گا رہا ہے؟ شیخ رشید کا مسئلہ یہ ہے کہ ساری کمزوریوں کے باوجود اور پارٹیاں بدلنے کے باوجود وہ ایک عوامی سیاستدان ہیں۔ الف لیلوی محلات میں رہتے ہیں نہ لندن میں کوئی ٹھکانہ بنایا۔ گلی محلوں میں پھرتے ہیں۔ ایک ایک ووٹر کو جانتے ہیں اور وہ جو کہا جاتا ہے ڈاؤن ٹو ارتھ‘ تو بالکل وہی ہیں ۔ اسی لیے انہوں نے کابینہ کی اسی میٹنگ میں، جس میں آٹے کے مہنگا ہونے کی پیشگوئی کی، یہ بھی پوچھا کہ دوائیں کیوں مہنگی ہوئی ہیں؟
کاش کابینہ میں کوئی بہادر شخص یہ بھی پوچھتا کہ جب وزیراعظم کہتے ہیں کہ صورتحال کو وہ خود مانیٹر کر رہے ہیں تو اس سے ان کی مراد کیا ہے؟ صورتحال کو مانیٹر تو وہ شخص بھی کر رہا تھا جسے گاڑی کے مالک نے کہا کہ ذرا میری گاڑی کو دیکھنا، میں تھوڑی دیر میں آرہا ہوں۔ وہ واپس آیا تو گاڑی غائب تھی۔ اس نے پوچھا تو جواب ملا کہ آپ نے دیکھنے کو کہا تھا، میں دیکھتا رہا‘ ایک شخص آیا اور گاڑی لے گیا۔ کیا وزیر اعظم کے مانیٹر کرنے سے چینی واپس پچاس روپے پر آجائے گی؟ کیا پٹرول کی قیمت کم ہو جائے گی؟ اور کیا ادویات کی قیمتیں پہلے والی سطح پر آجائیں گی؟ ان سوالوں کے جواب ہم سب کو معلوم ہیں۔ بس سنتے جائیے اور سر دھنتے جائیے۔ ایک چارج شیٹ حکومت کے خلاف تحریک انصاف کے اپنے ایم این اے میجر (ر) طاہر صادق نے بھی پیش کی ہے۔ یہ بھی خاصے کی چیز لگتی ہے۔ میجر صاحب نے لگی لپٹی رکھے بغیر بہت کچھ کہا اور سب کچھ کہہ دیا۔ کڑی تنقید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کی ٹیم نااہل لوگوں پر مشتمل ہے‘ مہنگائی عروج پر ہے‘ غریب عوام کا کوئی پرسان حال نہیں۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک اتنی کرپشن نہیں ہوئی جتنی موجودہ دور میں ہے۔ انتظامیہ کی کارکردگی صرف فوٹو سیشن اور وٹس ایپ گروپ تک محدود‘ ٹائیگر فورس کی اداروں میں کوئی شنوائی نہیں۔ عوام کے پاس روٹی جیسی اہم ضرورت کے لیے بھی پیسے نہیں۔ انتظامی اداروں میں انت مچی ہوئی ہے۔ موجودہ حکومت نے بلدیاتی نظام کو لولا لنگڑا بنا دیا ہے۔ میجر (ر) طاہر صادق کی یہ چارج شیٹ وہ جانیں اور ان کی پارٹی اور پارٹی کی حکومت‘ مگر بلدیاتی نظام کے حوالے سے جو بات انہوں نے کی ہے اس کی حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ موجودہ حکومت کا دعویٰ تھا کہ عوامی امنگوں کو جیتی جاگتی شکل دے گی مگر بہت بڑی ٹریجڈی ہے کہ لوکل گورنمنٹ سسٹم بحال کرنے کی طرف ایک قدم بھی نہ بڑھایا گیا۔ کئی سو سال پرانا ڈی سی سسٹم جمہوریت کا منہ چڑا رہا ہے۔ وہی کمشنر‘ وہی بیوروکریسی، مقامی سطح پر انتخابات ہی نہیں ہو رہے۔ سیاسیات کے ادنیٰ سے ادنیٰ طالب علم کو بھی معلوم ہے کہ جمہوری نظام کی پہلی اینٹ ہی مقامی حکومت کی تشکیل ہے۔ بات کڑوی ہے مگر سچی ہے کہ اس وقت پاکستان میں جمہوریت نہیں بلکہ صوبائی حکومتوں کی آمریت قائم ہے۔ صوبائی دارالحکومتوں میں بادشاہ بیٹھے ہیں۔ تحصیل، ضلع اور ڈویژن ان کی رعایا ہے۔ جہاں وزیر اعلیٰ ضعف کا شکار ہے یا نااہل، وہاں بادشاہی چیف سیکرٹری کے ہاتھ میں ہے اور بیوروکریسی کے وارے نیارے ہیں۔ اس ضمن میں پی ٹی آئی کی حکومت اور ماضی کی حکومتوں کے درمیان سرِ مُو فرق نہیں بلکہ سفر پیچھے کی طرف جاری ہے۔ وفاقی دارالحکومت کے میئر نے استعفیٰ دے دیا ہے اور نئے میئر کے انتخاب کا کوئی پروگرام سامنے نہیں آ رہا۔ دارالحکومت کا ترقیاتی ادارہ مکمل طور پر افسر شاہی کے قبضے میں ہے۔ گونگی، بہری، نابینا افسر شاہی!! عوام سے دور! مسائل سے لا تعلق! فائلوں میں غرق۔ سیاست دان اور نوکر شاہی میں یہی تو بنیادی فرق ہے جو مسئلے کی جڑ ہے۔ سیاست دان لوگوں سے ملتا ہے۔ لوگوں کو ڈیل کرتا ہے۔ ووٹرز کو مطمئن کرنے کے لیے اسے ڈلیور کرنا پڑتا ہے۔ دوسری طرف نوکر شاہی گوشت پوست کے بنے ہوئے انسانوں کو نہیں، فائلوں کو ڈیل کرتی ہے۔ ملاقاتیں کرتی ہے مگر ماتحتوں سے۔ فائلوں پر نوٹنگ ہوتی ہے۔ زندگی اپنی تمام سچائیوں کے ساتھ کہیں دور بیٹھی ہوتی ہے۔ مشتاق احمد یوسفی نے لکھا ہے کہ ماتحت اپنے افسر کی خوشامد کرتے ہوئے فائل پر اس کے لکھے نوٹ کی تعریف کرتا ہے تو یہ بھی کہتا ہے کہ جیسا کاما (Comma) حضور ڈالتے ہیں، کوئی کیا ڈالتا ہو گا!! یہ ایسے ہی ہے جیسے ایک شاعر شعر سناتا تھا کہ قفس میں مُرغ... اور پھر فوراً توجہ دلاتا تھا کہ سامعین! مرغ کا غَین ملاحظہ فرمائیے!
اس حکومت کو حریف سیاسی جماعتوں سے خطرہ ہے نہ ان کے اتحاد سے۔ خورشید رضوی نے کہا ہے:
دل کے ڈوبے سے مٹی حرف شناور کی سکت
موج کی طغیانیوں سے ڈوبتا کوئی نہیں
خطرہ ہے تو عوام کی روز بروز بڑھتی مایوسی سے۔ یہ مایوسی غیظ و غضب میں بدلتی نظر آ رہی ہے۔ حکومت کی ساری توجہ ایک ہی خاندان کے استیصال پر مرکوز ہے۔ حکومت کے عمائدین بھی اسی خاندان کے تعاقب میں لگے ہوئے ہیں۔ ہمیں اس خاندان کی حفاظت یا بقا میں کوئی دلچسپی نہیں اور عوام کی ایک کثیر تعداد کو بھی کوئی دلچسپی نہیں مگر حکومت کو چاہیے کہ مہنگائی کے جن کو بوتل میں واپس ڈالنے کی کوئی سبیل فوراً کرے اور عام آدمی کو مطمئن کرے۔ لمحۂ موجود میں جو ترجیحات نظر آرہی ہیں وہ حد درجہ مایوس کن ہیں۔ ترجیحات پر نظر ثانی فرمائیے! بندہ پرور! ترجیحات پر!