ٹوٹ گئے ابو لہب کے دونوں ہاتھ اور وہ ہلاک ہو گیا۔ اس کا مال اور جو کچھ اس نے کمایا اس کے کام نہ آیا۔ وہ بھڑکتی ہوئی آگ میں پڑے گا۔ اور اس کی عورت بھی جو ایندھن اٹھائے پھرتی تھی۔ اس کی گردن میں مونج کی رسی ہے۔
ہر زمانے میں ابو لہب پیدا ہوتے رہے۔ ہر زمانے میں ان کے ہاتھ ٹوٹتے رہے۔ ہلاک ہوتے رہے۔ یہاں تک کہ اقبال پکار اٹھے:
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفوی سے شرار بو لہبی
میکرون کو اندازہ ہی نہیں کہ اس نے اپنی جان پر کتنا بڑا ظلم کیا ہے۔ کوئی میکرون کو بتائے کہ اس سے کئی گنا زیادہ بڑی سلطنت کے مالک کسریٰ کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ صلح حدیبیہ کے بعد خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف ملکوں کے بادشاہوں کو دعوتی خطوط ارسال فرمائے۔ حضرت عبداللہ ابن حذافہ (رض) کو ایران کے شہنشاہ کسریٰ کے پاس بھیجا۔ تکبر نے شہنشاہ کے دماغ کو سُن کر رکھا تھا۔ روئے زمین پر کون تھا اسے للکارنے والا؟ نامہ مبارک کو، میرے منہ میں خاک، اس نے چاک کر دیا۔ یہ اطلاع آپؐ تک پہنچی تو فرمایا: اس کی بادشاہت بھی پارہ پارہ ہو گی۔ بدبخت کسریٰ نے اپنے باجگزار، والئی یمن، باذان کو لکھا کہ یہ کون ہے عرب میں جس نے مجھے خط لکھنے اور تبلیغ کرنے کی جسارت کی ہے؟ اسے میرے پاس لے کر آؤ۔ باذان نے اپنے دو قوی ہیکل آدمی مدینہ منورہ بھیجے۔ آپؐ کے حضور پیش ہوئے تو گھبرائے ہوئے تھے۔ آپؐ نے فرمایا: کل بات کریں گے‘ رات کو وحی آئی۔ دوسرے دن آپؐ نے دونوں اشخاص کو بتایا کہ باذان سے جا کر کہو کسریٰ کو اس کے بیٹے نے قتل کر دیا ہے۔ باذان کو یہ اطلاع ملی تو دم بخود رہ گیا۔ ساتھ ہی کسریٰ کے بیٹے شیرویہ کا فرمان بھی پہنچ گیا کہ اب میں حکمران ہوں۔ ایرانی سلطنت کا شیرازہ یوں بکھرا کہ لوگ حیران ہو گئے۔ شیرویہ کی حکومت چھ ماہ رہی۔ آنے والے چار سالوں میں دس بادشاہ آئے اور گئے یہاں تک کہ امیرالمومنین عمر فاروق اعظمؓ کے دور میں قادسیہ، جلولہ اور نہاوند کی لڑائیوں نے ایرانی سلطنت کا خاتمہ کر دیا۔ آخری بادشاہ، یزد گرد، کٹی پتنگ کی طرح صوبہ صوبہ شہر شہر پھرتا رہا۔ اصفہان، وہاں سے کرمان، پھر سیستان یہاں تک کہ مرو میں پناہ لی‘ جہاں کسی نے اس کے زیور دیکھ کر اسے مار ڈالا۔
اللہ کے نظر نہ آنے والے لشکروں سے یہ کائنات چھلک رہی ہے۔ چیونٹی سے لیکر زمین کو جھنجھوڑ دینے والے زلزلوں تک‘ ساری مخلوقات اور تمام عناصر اللہ کے احکام کے تابع ہیں اور اللہ نے اپنے محبوب پیغمبرؐ کو اذیت پہنچانے والوں اور شانِ اقدس میں گستاخی کرنے والوں کو کبھی معاف نہیں کیا۔ میکرون جیسے کئی آئے اور گئے۔ کسی کو نام بھی نہیں معلوم۔ مگر اسم گرامی، نام نامی، ہمیشہ بلند رہا اور رہے گا۔ میکرون کو کیا پتہ کہ اس سیارے پر، جسے زمین کہتے ہیں، کوئی لمحہ ایسا نہیں جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لاکھوں زبانوں پر نہ ہو۔ کہیں فجر کی اذان اور نماز ہو رہی ہے تو کہیں ظہر کی، کہیں عصر کے بعد درود پاک پڑھا جا رہا ہے تو کہیں عشا کے بعد۔ خالق کائنات نے خود فرمایا کہ ہم نے آپؐ کا ذکر بلند کیا تو پھر کس کی مجال ہے کہ اس میں روڑے اٹکائے۔
یہ تورز کی جنگ (Battle of Tours) تھی جس نے مسلمانوں کو فرانس کے وسط سے واپس موڑا۔ 732ء تک ہسپانیہ کی مسلم افواج مغربی اور جنوب مغربی فرانس فتح کر چکی تھیں۔ اُسی سال امیر عبدالرحمن الغافقی ایک لشکر جرار لے کر شمالی فرانس کی طرف بڑھا۔ نصرانیوں کی متحدہ فوج نے تورز کے مقام پر مقابلہ کیا۔ جب فتح قریب تھی تو افواہ اڑی کہ مال غنیمت خطرے میں ہے۔ مسلمانوں کو جب بھی ڈبویا تو عورت کی ہوس نے یا مال غنیمت کی لالچ نے۔ سو شکست کھائی اور ایسی شکست کہ یورپ کھو دیا۔
بارہ سو سال کے بعد آج یورپ پھر مسلمانوں سے خائف ہے۔ استعمار کے خاتمے کے بعد مسلمان اپنے اپنے غریب، پسماندہ، لُٹے پٹے ملک چھوڑ کر یورپ کے ملکوں میں بسنا شروع ہوئے۔ مشقتیں جھیلیں، نمک اور چٹنی پر گزارا کیا، جو کام سفید فام نہیں کرتے تھے ان مسلمانوں نے کیے۔ ان ملکوں کو سہارا دیا، سنبھالا۔ ان ملکوں کی معیشت تارکین وطن بالخصوص مسلمانوں کی مرہون احسان ہے۔ آج مسلمان ان ملکوں میں نسبتاً خوشحال ہو چکے ہیں تو اب سفید فاموں کے پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگے ہیں کہ مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے۔ اب یہ سروے پر سروے کر رہے ہیں کہ فرانس کے ستاون لاکھ مسلمان 2050ء تک اتنے ہو جائیں گے اور جرمنی میں اتنے اور برطانیہ میں اتنے۔ اس خوف کو امریکہ کے پیو ((PEW جیسے تھنک ٹینک اور نام نہاد ریسرچ سنٹر مزید ہوا دے رہے ہیں اور جلتی پر تیل ڈال رہے ہیں۔ سفید فام کبھی توہین رسالت کا ارتکاب کرتے ہیں‘ کبھی حجاب پر تو کبھی نقاب پر پابندیاں لگاتے ہیں‘ کبھی مسجدوں پر حملے کرتے ہیں‘ کبھی طعن و تشنیع اور دشنام طرازی پر اترتے ہیں۔ درحقیقت وائٹ نیشنلزم کی تحریک فرانس ہی میں پیدا ہوئی اور سارے مغرب میں یہیں سے پھیلی۔ نیوزی لینڈ میں جس دہشت گرد، ٹرانٹ برینٹن، نے درجنوں مسلمانوں کو بھون ڈالا، فرانس کے انہی لوگوں سے متاثر تھا جو سفید فاموں کی برتری پر یقین رکھتے ہیں۔ ان میں سر فہرست ایک بد بخت ریناڈ کیمو ہے۔ اسے ہم جنس پرستی کی وجہ سے اس کے ماں با پ نے عاق کر دیا تھا۔ اولین شہرت اس کی اسی برائی کے حوالے سے تھی کہ یہ اس کے حق میں لکھتا تھا۔ اس کے بعد اس نے عظیم تبدیلی یعنی Great Replacement کا مکروہ نظریہ پیش کیا۔ اس تھیوری کا مطلب تھا کہ یورپی ملکوں میں افریقی اور ایشیائی، خاص طور پر مسلمان، آ کر بس رہے ہیں اور سفید فاموں کی جگہ لے رہے ہیں۔ اس نے یہ خیال بھی پھیلایا کہ تارکین وطن جو یورپ میں آرہے ہیں، ہماری تہذیب اور ہماری آبادی کے لیے خطرہ ہیں ۔ اس نے انہیں حملہ آور کا لقب دیا۔ نیوزی لینڈ میں قتل عام کرنے والا ٹرانٹ اس سے بہت متاثر تھا۔ جبھی قتل عام کے بعد ٹرانٹ نے کہا تھا کہ اس اقدام سے میں ان لوگوں کو (یعنی مسلمانوں کو) یہ بتانا چاہتا تھا کہ ہماری سرزمین کبھی بھی تمہاری سرزمین نہیں بن سکے گی۔ فرانس کا صدر‘ میکرون، ذاتی طور پر، اس مہم میں شریک ہو گیا ہے۔ اُسے شرم آنی چاہیے کہ وہ اس پست سطح پر اتر آیا ہے۔ گستاخانہ خاکے اس نے فرانس کی سرکاری عمارتوں پر چلوائے۔ اس میں کیا شک ہے کہ ذہنیت میکرون کی بالکل وہی ہے جو نیوزی لینڈ والے دہشت گرد کی تھی۔
المیے کا بد ترین پہلو مسلم حکمرانوں کی بے حسی، مصلحت کیشی اور بزدلی ہے۔ پچپن ملکوں میں سے، ہماری معلومات کے مطابق، صرف چار ملکوں کے سربراہوں نے بے خوف ہو کر فرانس کے صدر کی مذمت کی ہے۔ ترکی کے صدر اردوان، پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان، ایرانی صدر حسن روحانی اور مہاتیر محمد (جو اب سابق وزیر اعظم ہیں) اگر تمام مسلمان ممالک متحد ہو کر بائیکاٹ کی مہم چلاتے اور سفیروں کو واپس بلا لیتے تو ایک بات بھی تھی۔ یہ حقیقت، بہر طور، واضح تر ہو چلی ہے کہ مسلم دنیا کی اصل لیڈرشپ اب غیر عرب ملکوں میں ہے۔ یہیں سے کوئی لہر اٹھے تو اٹھے۔ جن کے نام بڑے ہیں ان کے درشن تو چھوٹے نکلے۔ علامہ اقبال کا وژن دیکھیے۔ کتنا عرصہ پہلے کہہ گئے تھے:
تہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا
شاید کُرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے!