منصور کی قسمت اچھی نہیں تھی۔
ساری زندگی محنت کی۔ حلال کمایا۔ دونوں بیٹوں کو اعلیٰ تعلیم دلائی یہاں تک کہ دونوں کو ملٹی نیشنل کمپنیوں میں قابل رشک ملازمتیں مل گئیں۔ جب تک منصور اور اس کی بیوی کی صحت ٹھیک رہی، انہوں نے پوتوں اور پوتیوں کا بھی خیال رکھا‘ مگر جیسے ہی بڑھاپا اُس مرحلے میں داخل ہوا جہاں انسان کام کرنے اور کمانے کے قابل نہیں رہتا بلکہ دیکھ بھال کی ضرورت پڑتی ہے تو دونوں بیٹوں نے آنکھیں پھیر لیں۔ ہفتے گزر جاتے مگر ماں باپ سے ملنے کی توفیق نہ ہوتی۔ آتے بھی تو مصروفیت کا رونا لے کر۔ کیا کریں دفتر کا کام ہی اتنا ہوتا ہے۔ بچوں کی پڑھائیاں ہیں وغیرہ وغیرہ۔ دونوں میں سے کسی کو یہ سعادت نصیب نہ ہوئی کہ ضعیف ماں باپ کو اپنے گھر لے جاتا اور خدمت کرتا۔ منصور نے ساری زندگی کی جمع پونجی اکٹھی کی‘ بیوی کے بچے کھچے زیور فروخت کیے اور جو رقم بنی قومی بچت مرکز (نیشنل سیونگ سنٹر) میں جمع کرا دی۔ ماہانہ نفع آنے لگا تو گھر کا خرچ پوراہونے لگا۔
پھر منصور بیمار ہوا اور روتی سسکتی بیوی کو بھری دنیا میں اکیلا چھوڑ کر اُس جہان کو چلا گیا جہاں سے واپس کوئی نہیں آتا۔ بیٹے آئے۔ تجہیز و تدفین سے فارغ ہو کر، ماں کو تسلیاں دے کر اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے اور اپنی اپنی دنیاؤں میں کھو گئے۔ منصور کی بیوہ نیشنل سیونگ سنٹر گئی اور بتایا کہ اس کے شوہر نے جمع شدہ رقم کی ملکیت کے لیے اپنے بعد اُسے یعنی بیوی کو نامزد کیا تھا‘ اس لیے رقم اُس کے نام منتقل کی جائے تاکہ ماہانہ منافع اُسے ملتا رہے اور دال روٹی چلتی رہے۔ اس کے علاوہ تو اس کے پاس گزر بسر کے لیے کچھ بھی نہ تھا۔ آپ کا کیا خیال ہے‘ یہ رقم بیوہ کے نام منتقل ہونی چاہیے تھی یا قانونِ وراثت کی رُو سے اس کے حصے بیٹوں کو بھی ملنے چاہئیں تھے؟
اِس روئے زمین پر شاید ہی کوئی ایسا سنگدل ہو جو منصور کی اس آخری جمع شدہ پونجی کو بیوہ کے نام منتقل کرنے کی حمایت نہ کرے۔ اُن بیٹوں کا اس پر کیا حق تھا جو ماں باپ کے بڑھاپے میں ان سے لاتعلق ہو گئے تھے؟ مگر افسوس! صد افسوس ! قومی بچت مرکز کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔ قومی بچت مرکز کا منیجر منصور کو اچھی طرح جانتا تھا اور اس کے بد بخت بیٹوں کے رویّے سے بھی آگاہ تھا۔ اُس نے بیوہ کو بتایا کہ وہ مجبور ہے۔ قانون میں حالیہ تبدیلی کی رُو سے یہ رقم ورثا میں تقسیم ہو گی۔ دونوں بہوؤں کی باچھیں کھِل گئیں۔
کچھ عرصہ پہلے تک قومی بچت مرکز کا قانون یہ تھا کہ رقم جمع کرنے والا اپنی زندگی میں جس کو بھی نامزد کرے گا، جمع کرنے والے کی وفات کے بعد رقم اسی کے نام منتقل ہو گی۔ قومی بچت میں رقم جمع کرانے والوں کی بھاری اکثریت بوڑھوں، بوڑھیوں، بیواؤں اور ضعیف ریٹائرڈ سرکاری ملازمین پر مشتمل ہے۔ یہ ان کی عمر بھر کی کمائی ہوتی ہے۔ عام طور پر، بوڑھا شخص، اپنی بوڑھی بیوی کو نامزد کرتا ہے کہ یہ رقم اس کی وفات کے بعد اس کی بیوی کے نام منتقل ہو جائے تا کہ اس کا گزر بسر ہوتا رہے۔ اگر رقم عورت کے نام جمع ہو تو وہ عام طور پر اپنے بوڑھے شوہر کو نامزد کرتی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں دن بدن افراتفری اور نفسا نفسی بڑھتی جا رہی ہے۔ اولاد بوڑھے والدین سے بے نیاز ہوتی جا رہی ہے۔ ہم لاکھ تنقید کریں مگر اولڈ ہوم کا سلسلہ مغربی ملکوں میں بوڑھوں کے لیے نعمت سے کم نہیں۔ ہم نے جو اولڈ ہوم دیکھے ہیں وہ فائیو سٹار ہوٹلوں سے کم نہیں۔ ہمارے ہاں یہ بھی نہیں۔ پھر، کچھ بیٹے بیٹیاں بیرون ملک مقیم ہیں‘ چاہیں بھی تو والدین کے کام نہیں آ سکتے۔ ہر ماہ ڈالر یا پاؤنڈ بھیجنا بھی ممکن نہیں۔ ایسے میں قومی بچت مرکز ہی ان بے سہارا بوڑھوں بوڑھیوں کی اولاد ہے۔ یہی ان کے کام آ رہا ہے۔ دونوں میں سے ایک کی وفات ہو جائے اور یہ رقم، جو واحد سہارا ہے، دیگر ورثا میں تقسیم ہو جائے تو انصاف نہیں، میری نظر میں یہ ظلم ہو گا۔ قانونِ وراثت کا اطلاق بے شک جائیداد پر کیجیے مگر اِس رقم پر خدا را نہ کیجیے۔ قانون تو یہ بھی ہے کہ چور کا ہاتھ کاٹ دیا جائے مگر قحط کے دوران دوسرے خلیفۂ راشد نے یہ قانون معطل کر دیا تھا۔ اگر قحط زدگاں پر اس قانون کا اطلاق کرتے اور اُن بھوکوں کے ہاتھ کاٹ دیتے جنہوں نے جان بچانے کے لیے چوری کی تھی تو یہ نا انصافی ہوتی۔ پس ثابت ہوا کہ قانون کا اطلاق کرتے وقت دیکھنا ہو گا کہ اس اطلاق کا نتیجہ نا انصافی کی صورت میں تو نہیں نکلے گا۔
کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، ڈنمارک، ناروے، سویڈن اور دوسری فلاحی ریاستوں میں بوڑھے والدین کو ان کے بچے چھوڑ بھی جائیں تو وہ بے یارو مددگار نہیں رہتے۔ ریاست ان کی مالی کفالت کرتی ہے۔ بے گھروں کو چھت فراہم کرتی ہے۔ علاج معالجہ مفت کرتی ہے۔ ان ملکوں میں رضا کار بوڑھوں کے گھروں میں جا کر ان کے گھر صاف کرتے ہیں۔ انہیں سودا سلف لا کر دیتے ہیں۔ آسٹریلیا میں میونسپل لائبریریاں بسوں میں کتابیں بھر کر ان بوڑھوں کے گھروں میں جاتی ہیں اور ان کی پسند کی کتابیں ان کے بستروں پر مہیا کرتی ہیں۔ ہمارے ہاں ان سہولیات اور خدمات کا تصور ہی نا پید ہے۔ واحد سہارا جو ریاست نے مہیا کر رکھا تھا، قومی بچت مرکز کی صورت میں تھا۔ یہ ایک انتہائی قابل تحسین سسٹم تھا‘ مگر اب حالیہ تبدیلی نے بوڑھے جوڑوں کی راتوں کی نیندیں اڑا کر رکھ دی ہیں۔ بوڑھا رات کو سوچتا ہے کہ اس کا بلاوا آ گیا تو رقم تو تقسیم ہو جائے گی اور ان رشتہ داروں کو بھی ملے گی جو پانی کا گلاس تک دینے کے روادار نہیں، تو بیوی کیا کرے گی؟ بجلی اور گیس کے بل۔ مہینے کے اخراجات، دوائیں، کیا ہو گا اور کیا بنے گا؟ دھکے کھائے گی؟ بھیک مانگے گی؟ رات دونوں کی کروٹیں بدلتے گزر جاتی ہے۔ کیا یہ ستم کافی نہیں کہ ریاست بوڑھوں کے لیے کچھ بھی نہیں کرتی۔ علاج نہ رہائش نہ خوراک! تو کیا یہ ستم بالائے ستم ضروری ہے کہ قومی بچت کا ادارہ جو قُوتِ لا یموت فراہم کر رہا تھا وہ بھی کھینچ لی جائے؟ یہ بھی دیکھیے کہ نیا سسٹم طویل مدت چاہتا ہے۔ عدالتوں کے دھکے کھانے پڑتے ہیں۔ تاریخ پر تاریخ ملتی ہے۔ مہینے نہیں اس تقسیم میں سال لگ جاتے ہیں۔ اس کالم نگار کے ایک دوست کے والد اِس دنیا سے چلے گئے تو بینک میں ان کے ڈیڑھ لاکھ روپے پڑے تھے جو چار بھائی بہنوں میں تقسیم ہونے تھے۔ ان صاحب نے وکیل کیا۔ مہینے لگ گئے۔ عدالتوں کے دھکے کھاتے کھاتے عزت بھی گئی۔ رقم پھر بھی نہ ملی۔ تنگ آ کر چھوڑ دی۔ یہی حال ہو رہا ہے اُن بیواؤں کا جن کے شوہر مرتے وقت قومی بچت مرکز میں کچھ رقم چھوڑ کر گئے ہیں۔ اکیلی، عدالتوں میں اُس رقم کے لیے دھکے کھاتی ہیں جو اُن کی اپنی ہے!!!
سسٹم میں یہ تبدیلی سندھ ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کی وجہ سے ہوئی ہے۔ ہم سندھ ہائی کورٹ کا احترام کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان کی خدمت میں گزارش کرتے ہیں کہ اس معاملے کے از خود نوٹس لیں اور پہلے کی طرح نامزد فرد کو رقم منتقل کرنے کا حکم جاری فرمائیں تا کہ بیوہ یا بوڑھا مرد عدالتوں میں دھکے کھانے سے بچ جائے۔ مجھے اس ضمن میں کئی ای میلز اور ٹیلی فون موصول ہوئے ہیں۔