سرما کی پہلی بارش برس رہی ہے۔
ہم جیسے لوگ جو وفاقی دارالحکومت میں چوّن سال پہلے اترے تھے‘ اور تب سے اسے مستقر بنائے ہیں‘ ان بارشوں میں اُس اسلام آباد کو یاد کرتے ہیں جو لطافت اور نرمی کا مرکز تھا۔ جس میں پھول ہی پھول تھے۔ جہاں سرما میں پیڑوں کے پتے لہو کی طرح لال ہو جاتے تھے‘ جہاں گرین ایریا اتنا ہی تھا جتنا مکانوں اور دکانوں کا تھا۔ یہ اسلام آباد قاعدے قانون سے عبارت تھا۔ ترقیاتی ادارہ مستعد تھا اور مددگار !صرف دو تین سیکٹر آباد تھے۔ اسلام آباد ہوٹل ( اب ہالیڈے ان) زیر تعمیر تھا۔ صفائی بے مثال تھی۔ لوگ ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔ ایک گرم صبح تھی جب حسبِ معمول آب پارہ سے زیرو پوائنٹ تک اور پھر واپس‘ سیر کی۔ اسی صبح بی اے کا رزلٹ آیا۔ ڈر فیل ہونے کا تھا مگر معاملہ اُلٹ نکلا بالکل اُلٹ !
یہی دارالحکومت تھا جو طالب علموں کے لیے ماں کی طرح آغوش وا کئے تھا۔ یہاں برٹش کونسل کی لائبریری تھی۔ امریکی سفارت خانے کی لائبریری تھی۔ میلوڈی کے پاس پاکستان نیشنل سنٹر کی لائبریری تھی۔ ایک لائبریری سے نکلتے تو دوسری میں چلے جاتے۔ سرما آتا تو جیسے بھاگ جاگ اُٹھتے۔ ہاتھ میں کتاب‘ سامنے پہاڑوں پر بادل‘ شاہراہوں پر لرزتی سٹریٹ لائٹیں‘ جگہ جگہ پانی کے منجمد ٹکڑے! مکروہات جو اَب دامن گیر رہتی ہیں‘ وٹس ایپ‘ انٹر نیٹ‘ یو ٹیوب‘ ایس ایم ایس‘ تب وجود نہیں رکھتی تھیں۔ کتابیں ہی عیاشی تھیں !کتابیں ہی اوڑھنا بچھونا ! ہم نے ٹھٹھرتی سردیوں میں کتابیں پڑھیں۔ ایک ایک کتاب شاہی پکوانوں سے بڑھ کر تھی۔ مجید امجد کی شبِ رفتہ‘ ناصر کا ظمی کی برگِ نے‘ ظفر اقبال کی آبِ رواں‘ باری علیگ کی کمپنی کی حکومت‘ پاسترناک کی ڈاکٹر ژواگو‘ سارتر کی روڈز ٹو فریڈم کے تینوں حصے۔ گان وددی وِنڈ‘ ولیم فاکنر کے ناول جو ادق زبان میں تھے‘ دیوانِ شمس تبریز اور بہت سی دوسری!
اُس زمانے کے اسلام آباد میں پیسہ دھیلا کچھ خاص نہ تھا مگر ہم غریب نہ تھے۔ کپڑوں کے چند جوڑے‘ ایک جوڑا جوتوں کااور ایک سائیکل ! امارت ہم لائبریریوں کی ممبر شپ سے ماپتے تھے۔ بینک بیلنس کی جگہ‘ اطمینان کا باعث کتابوں کی تعداد ہوتی تھی۔ دوست ہمارا سرمایہ تھے۔ جہاں کوئی علمی تقریب ہوتی‘ کوئی سکالر‘ کوئی دانشور آیا ہوتا‘ ہم پہنچ جاتے۔ سینئرز کو سنتے‘ اُن کا احترام کرتے۔ رہنمائی کے طالب ہوتے۔ علم کی دھاک بٹھانے کا رواج نہ تھا۔ کم مائیگی ظاہر کرنے میں شرم محسوس نہیں کی جاتی تھی۔ احساس ِبرتری تھا نہ احساسِ کمتری‘ ہمیں سیکھنے میں عار تھا نہ ہمارے سینئرز کو سکھانے میں ! محب عارفی تب سیٹلائٹ ٹاؤن میں رہائش پذیر تھے۔ ان کے گھر ہر ویک اینڈ پرشام کو شعرا اور اہلِ دانش اکٹھے ہوتے۔ یہ سلسلہ ان کے ہاں اُس وقت سے چل رہا تھا جب وہ شملہ میں تھے اور متحدہ ہندوستان کے سیکریٹریٹ میں کلرک تھے۔ پھر کراچی آئے تب بھی یہ نشستیں جاری رہیں۔ دارالحکومت منتقل ہوا تو وہ بھی اسلام آباد آگئے‘ اب وہ ڈپٹی سیکرٹری تھے۔ بعدمیں جوائنٹ سیکرٹری ہو گئے تھے اور کوَرڈ مارکیٹ کے پاس ( جو اب معدوم ہو چکی ہے) رہنے لگے تھے۔ مالی قوا نین کے بے مثال ماہر تھے۔ وزارت ِخزانہ ہی میں رہے۔ تب سرکاری ملازموں میں ان کے حوالے سے یہ محاورہ عام گردش کرتا تھاکہ ''جسے دے اللہ‘ اُس سے لے محب اللہ‘‘۔ ہم طالب علموں کو بھی وہ اپنے گھر خوش آمدید کہتے تھے۔
سیاست میں تب بھی تلخیاں تھیں۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان سرد جنگ عروج پر تھی‘ مگر وہ شائستگی کا زمانہ تھا۔ حریف کو گیدڑ یا چوہا کہنے کا رواج نہ تھا۔ نہ ہی گلی کے لڑکوں کی طرح سیاست دان منہ پر ہاتھ پھیر کر دھمکی دیتے تھے کہ چھوڑوں گا نہیں۔ اگر کبھی کوئی ایسا فقرہ کہہ بھی دیتا تو بس ایک دو بار ! یہ حال نہ تھا کہ سوتے جاگتے‘ اُٹھتے بیٹھتے‘ رات دن‘ صبح شام‘ نہیں چھوڑوں گا‘ نہیں چھوڑوں گا کی گردان ہو‘ یہاں تک کہ یہ الفاظ تکیہ کلام ہو جائیں‘ وقعت کھوبیٹھیں‘ چِڑ بن جائیں اور سارا معاملہ غیر سنجیدہ ہو جائے۔ ہاں‘ ناشائستگی کی ابتدا ایوب خان کر بیٹھے تھے جب 1965 ء کے انتخابات میں انہوں نے اور ان کے حامیوں نے مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کو غدار کہا۔ ڈھاکہ میں مادرِ ملت نے تقریر کی تو اڑھائی لاکھ افراد جلسے میں موجود تھے۔ چٹا گانگ تک ہر سٹیشن پر لوگوں کا ہجوم منتظر ہوتا۔ اپوزیشن ناشائستگی میں اُس وقت کی حکومت کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی۔ شاید حکومتوں کا پلہ اس معاملے میں ہمیشہ بھاری رہا کرتا ہے۔
سرما اتر رہا ہے‘ قطرہ قطرہ‘ لمحہ لمحہ‘ مگر اسلام آباد وہ نہیں۔ گرین ایریا کا زیادہ حصہ ہڑپ کیا جا چکا۔ اب پھول ہیں نہ درخت۔ لہو کی رنگت کے لال پتے بس کہیں کہیں دکھائی دیتے ہیں۔ لائبریریاں عنقا ہو گئیں۔ سنا ہے ایک سرکاری لائبریری ہے۔شاید ہی کسی کو معلوم ہو کہ کہاں ہے۔ کسی ایسی بزم‘ تقریب‘ مجلس‘ فنکشن کا‘ جہاں کوئی دانشور‘ کوئی اہل علم‘ خطاب کرے‘ کوئی امکان نہیں! اب دانش اور علم کی ضرورت کسی کو نہیں۔ یہ مال اب نہیں بکتا اس لیے کہ ڈیمانڈ ہی نہیں۔اب علم کا ماخذ کتابیں نہیں‘ فیس بک اور وٹس ایپ ہے۔ اب دعویٰ کے ثبوت میں دلیل نہیں‘ دشنام مہیا کی جاتی ہے۔ علمی ترقی کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہو گا کہ مضحکہ خیز‘ مبتذَل‘ اشعار غالبؔ اقبالؔ‘ اور فیضؔ کے نام سے درج کیے جاتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے واہ واہ کے ڈھیر لگ جاتے ہیں۔
وفاقی دارالحکومت کے ماسٹر پلان کے پرخچے اُڑ چکے۔ جہاں گھاس کے قطعے تھے وہاں مکان بن گئے۔ جہاں درخت تھے‘ وہاں دکانیں کھلی ہیں۔ تجاوزات نے شہر کو بدصورت کر رکھا ہے۔ گلی کوچے تنگ ہو گئے ہیں۔جہاں جہاں پارکنگ تھی وہاں کھوکھے کھڑے ہیں۔ رہائشی علاقے بازاروں میں بدل گئے۔ کھیل کے میدان ختم ہو گئے۔ سیوریج کے بدبو دار نالوں پر لوگوں نے اپنے اپنے مسلک کی مسجدیں‘ متعلقہ اداروں کو پوچھے بغیر‘ کھڑی کر لیں۔ولایتی ناموں والے سیکٹر‘ گنجان آباد قصباتی محلے لگتے ہیں۔ ٹھیلے والے کہیں بھی قبضہ کر سکتے ہیں۔ میوہ فروش جہاں دل کرے‘ سٹال لگا لیتے ہیں۔ پھر آہستہ آہستہ‘ اسے پکی دکان میں تبدیل کر لیتے ہیں۔ متعلقہ ادارہ تجاہلِ عارفانہ سے کام لیتا ہے۔ایک مدت بعد جب گرانے آتا ہے‘ تو میوہ فروش حکم امتناعی دکھا دیتا ہے۔
نئی صدی کا بیسواں سال ختم ہونے کو ہے۔ اسلام آباد اس ایٹمی طاقت رکھنے والے ملک کا دارالحکومت ہے۔ وفاقی دارالحکومت !مگر یہاں کے باشندوں کو اپنے شہر کیاانتظام و انصرام میں اپنی رائے دینے کا حق حاصل نہیں۔ وہ اپنے شہر کا میئر نہیں چن سکتے۔ شہر کے امور کسی منتخب نمائندے کے پاس نہیں۔ شہر پر‘ اور شہریوں پر‘ اٹھارہویں صدی کی نوکر شاہی مسلط ہے۔اٹھارہویں صدی کی نوکر شاہی پھر بھی غنیمت تھی کہ وہ ویلزلے کو یا منٹو کو یا لارڈ ڈلہوزی کو جوابدہ تھی‘مگر یہ نوکر شاہی کسی کو جوابدہ نہیں! عوام کو تو بالکل نہیں ! کاش کوئی ایسی حکومت آئے جو اسلام آباد کے شہریوں کو ان کا یہ بنیادی حق دے۔سٹی کونسل ہو جس میں منتخب نمائندے بیٹھیں۔شہر کے ترقیاتی اور غیر ترقیاتی بجٹ پر بحث کریں۔ عوام کے مسائل پر غور کریں اور انہیں حل کریں۔اُس ملک کی جمہوریت کا اندازہ لگائیں جس کا دارالحکومت ہی اپنے نمائندوں سے محروم ہو ! صادق خان لندن کے میئر منتخب ہوئے تھے تو ہم نے شادیانے بجائے تھے۔ہم بھی عجیب لوگ ہیں! جمہوریت ہمیں پسند ہے مگر کہیں اور ! اپنے ہاں نہیں !!