سوال تحریک انصاف یا پی ڈی ایم کا نہیں۔ سوال اداروں کا یا حکومت کا بھی نہیں، سوال یہ ہے کہ ہم ، ایک قوم کی حیثیت سے، انسانیت کے کم سے کم معیار پر پورے اتر رہے ہیں یا نہیں ؟ اس کا جواب ساجدہ احمد نے دیا ہے۔ اور اثبات میں نہیں ، نفی میں دیا ہے!
ساجدہ احمد کوئی ان پڑھ، یانیم تعلیم یافتہ، یا قصباتی مائنڈ سیٹ کی خاتون نہیں ،اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ ڈاکٹر ہیں۔ عدلیہ کا حصہ ہیں ! ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ہیں ! ملک کے سب سے بڑے قاضی کو کھلے خط میں انہوں نے پچھتاوے کا اظہار کیا ہے کہ کاش صدی کا ربع حصہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں صرف کرنے کے بجائے وہ گاؤں میں مویشی چراتیں، اُپلے تھاپتیں، کھیتوں میں کام کر کے کاشتکاری میں گھر والوں کی مساعدت کرتیں ! اعلیٰ ترین تعلیم حاصل کرکے، ایک نہایت بلند منصب پر فائز ہو کر انہیں کیا حاصل ہوا؟ گالیاں، بے حرمتی، خوف و ہراس، توہین، پریشانیاں، مصائب ، بدتمیزی، بدسلوکی، مجبوری اور مایوسی ! ( یہ سب الفاظ ڈاکٹر ساجدہ کے مکتوب میں موجود ہیں ) ! خود کشی روا ہوتی تو، بقول ان کے، وہ عدالت عالیہ کی عمارت کے سامنے اپنے آپ کو ختم کر لیتیں ! پریشانی کی انتہا ہے کہ وہ اپنی تعلیمی اسناد کو ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے سامنے نذر آتش کرنے کا سوچ رہی ہیں !
بادی النظر میں ڈاکٹر ساجدہ نے قا نون کے پیشے میں ‘‘ گندے، گھناؤنے اور غیر پیشہ ور ‘‘ عناصر کو الزام دیا ہے اور ضلعی عدلیہ کی حالت زار پر نوحہ خوانی کی ہے؛ تاہم مکتوب کے آخر میں وہ آرزو کرتی ہیں کہ کاش'' خواتین کو اتنا حوصلہ ملے کہ وہ اپنے جوش اور ایمان کے ساتھ کسی کی بہن ، بیٹی یا ماں بن کر وقار اور تکریم کے ساتھ ‘‘قوم کی خدمت کر سکیں ! انہوں نے خواتین کے ساتھ بدسلوکی کا ذکر اس پیشے کے حوالے سے کیا ہے جس سے وہ منسلک ہیں۔دوسرے لفظوں میں انہوں نے اِس سوسائٹی کے صرف اس حصے کا ماتم کیا ہے جس کاانہیں تجربہ ہوا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وکیل ہیں یا ڈاکٹر، اساتذہ ہیں یا اہل سیاست‘ حکمران ہیں یا عوام، سب ایک ہی معاشرے کا حصہ ہیں۔ ایک ہی گھر میں پرورش پانے والے بھائیوں میں ایک وکیل بن جاتا ہے دوسرا بیورو کریٹ، تیسرا بزنس مین اور چوتھا سیاست دان ! یہ سب ایک ہی آئینے کا پرتو ہیں۔ وکیل برادری سے ہمیں کوئی ہمدردی ہے نہ دشمنی، بلکہ شکایات ہیں ، مگر ڈاکٹر ساجدہ نے جس ناسور کا ذکر کیا ہے وہ بدن کے کسی ایک عضو تک محدود نہیں ، پورے بدن کو فاسد کر چکا ہے۔ناقابل تردید سچائی یہ ہے کہ عورت کو اس معاشرے نے وہ مقام دیا ہی نہیں جو اس کا استحقاق ہے۔ اس میں صرف وکیل نہیں سب حسب توفیق اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ پوسٹ آفس کے ا دارے کی خاتون افسر ، صوفیہ قاسم ، کو جس مرد نے تھپڑ مارا تھا وہ بزنس مین تھا اور سیاست دان ! سیالکوٹ لاہور موٹر وے پر جس خاتون کے ساتھ ظلم کی انتہا ہوئی تھی اسے زجر و توبیخ کا نشانہ پولیس کے افسر اعلیٰ نے بنایا تھا۔یہ طعنہ کہ پاکستانی عورتیں آبرو ریزی کا ڈھونگ پیسہ بنانے اور کینیڈا کی شہریت حاصل کرنے کے لیے رچاتی ہیں ، ہمارے ایک حکمران نے دیا تھا۔ جب سولہ سے اٹھارہ سال تک کی تین لڑکیوں کو ریگستان میں زندہ دفن کیا گیا تھا تو یہ مرد سینیٹر تھے جنہوں نے اس بربریت کا دفاع کیا تھا۔ کون سا طبقہ ہے جو عورت کے خلاف جرائم کے ارتکاب سے پاک ہے؟ جسمانی تشدد سب کرتے ہیں۔ کیا ان پڑھ، کیا اعلیٰ تعلیم یافتہ ، کیا دیہاتی کیا شہری! سب سے مراد سو فی صد مرد نہیں بلکہ ہر کلاس مراد ہے! ہاں تعلیم یافتہ مردوں کی تعداد ، موازنے میں ، کم ضرور ہے۔
بیٹی کی پیدائش پر موت پڑ جانا بھی کم و بیش سبھی طبقوں میں پایا جاتا ہے۔ بیٹی یا بہن کو وراثت کے شرعی اور قانونی حق سے محروم کرنے میں بھی ہر طبقہ شامل ہے۔ ہزاروں ایکڑ زمین کا مالک جاگیردار بھی اور چند ایکڑ رکھنے والا کسان بھی۔ اپنی مرضی کا شوہر لڑکی پر مسلط کرنا بھی عام ہے۔ بیٹی کو بھی ماں باپ کی پسند کا خیال رکھنا چاہیے مگر بیٹی کی پسند نا پسند کو ذرا اہمیت نہ دینا بہت بڑی سماجی برائی ہے۔ اس سے معاشرے میں جو قباحتیں پیدا ہوتی ہیں ناقابل بیان ہیں۔
اب یہاں ایک دوسرا عامل یعنی فیکٹر بھی ہے جسے سننے کے لیے خواتین بھی ذرا حوصلہ پیدا کریں۔ خواتین بے شک ملازمت کریں ، کاروبار بھی ! مگر اصل سوال یہ ہے کہ ان کی ترجیح کیا ہونی چاہیے ؟ اگران کی پہلی ترجیح، فیملی لائف نہیں ، اور اگر خانگی زندگی متاثر ہو رہی ہے تو پھر ایک وقت ایسا آئے گا جب دونوں میں سے ایک کو چھوڑنا پڑے گا اور فیملی کو پس پشت ڈالنا، جس کا انجام گھر کی شکستگی ہو، گھاٹے کے علاوہ کچھ نہیں ! اعلیٰ تعلیم یافتہ ملازمت کرنے والی لڑکیوں میں مطلقہ لڑکیوں کی تعداد دن بدن زیادہ ہو رہی ہے۔ ملازمت کرنے والی کم تعلیم یافتہ خواتین میں طلاق یافتہ کی تعداد نسبتاً کم ہے ! اس پہلو پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ساری برابری اور دوستی کے باوجود ، ہر شادی شدہ جوڑے پر ایک وقت ایسا ضرور آتا ہے جب دونوں میں سے ایک کو کسی مسئلے پر ویٹو کرنا پڑتا ہے۔ یہ اسی طرح ہے جیسے کائنات کے دو خالق نہیں ہو سکتے۔ کسی بھی کمپنی کے دو ایم ڈی نہیں ہو سکتے۔ کسی بھی ملک کے دو صدر یا دو وزیر اعظم نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح کسی بھی خاندان کے دو سربراہ نہیں ہو سکتے۔ اگر بیوی شوہر کو ویٹو کا حق نہیں دیتی اور شوہر، بیوی کو خاندان کا سربراہ مان لیتا ہے تو خاندان بچ جائے گا۔ تاہم ، اگر مرد خود سربراہ بننا چاہتا ہے اور بیوی اسے ویٹو کا حق نہیں دینا چاہتی تو اس کا انجام مسلسل خانہ جنگی ہے یا طلاق! اپنے ارد گرد ، ٹھنڈے دل و دماغ سے نظر دوڑائیے ، یہ صورت حال آپ کو ان کنبوں میں ضرور نظر آئے گی جہاں عورت اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے، ملازمت کرتی ہے، اور مرد کو ہَیڈ آف فیملی ماننے سے ، عملاً انکار کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں ''واحد والدین ‘‘ ( Single Parent )کا تناسب بڑھتا جا رہا ہے۔
اس تین یا چار یا پانچ سالہ بچے کی حالت کا اندازہ لگائیے جسے صبح آٹھ بجے چائلڈ کئیر سنٹر میں چھوڑا جاتا ہے۔ باپ شام پانچ چھ بجے چھٹی کرتا ہے۔ ماں بھی کسی ملٹی نیشنل میں ہے ، یا اپنی کمپنی چلاتی ہے اور پانچ چھ بجے ہی فارغ ہوتی ہے۔ جاڑوں میں جس وقت یہ بچی گھر لائی جاتی ہے ، اندھیرا چھا چکا ہوتا ہے، دونوں ماں باپ گھر لَوٹ کر بھی لیپ ٹاپ یا موبائل فون میں گھسے رہتے ہیں۔ آج کل ایک اصطلاح کا بہت زور ہے۔ کوالٹی آف لائف! اس بچے کی کوالٹی آف لائف کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں!
اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون کی ضرورت ،کمپنیوں اور بزنس سے زیادہ ، اس کے اپنے بچوں کو ہے۔ سنگا پور کو سنگاپور بنانے والے لی کوان یئو نے ''گریجویٹ ماؤں کی سکیم ‘‘ کا ڈول ڈالا تھا۔ اس کی تھیوری یہ تھی کہ ماں باپ دونوں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں گے تو بچے لائق فائق ہوں گے۔ اس کی پالیسی یہ تھی کہ کم پڑھی لکھی مائیں کم ، اور، اعلیٰ تعلیم یافتہ مائیں زیادہ بچے پیدا کریں تا کہ لائق افراد کی تعداد زیادہ ہو۔ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ ماں اپنے بچے کے لیے بہترین چائلڈ کئیر سنٹر ہے۔ پچاس چائلڈ کئیر سنٹر بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے !!