ہوا سرد ہے۔ تیز اور کٹیلی! خزاں کا دور دورہ ہے۔ تحریک انصاف کے پیڑ کے ساتھ لگے پتے پیلے ہو ہو کر جھڑ رہے ہیں۔ حکومت ایک ٹنڈ منڈ درخت کی طرح کھڑی ہے۔ قابلِ رحم! جڑیں تک خشک ہو رہی ہیں۔ بہار آئی بھی تو مشکل ہے کہ برگ و بار دوبارہ ظاہر ہوں۔
حامیوں میں کون کون رہ گیا ہے؟ ایک وہ جو براہ راست مستفید ہو رہے ہیں یعنی Beneficiaries‘ ان میں وہ نوجوان بھی شامل ہیں جنہیں زندگی میں، شاید پہلی بار، کچھ اہمیت مل رہی ہے‘ جیسے ٹائیگر فورس! زمانے کا انقلاب دیکھیے کہ ایک وقت وہ تھا جب اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان اس جماعت پر فریفتہ تھے۔ ٹاپ کے تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل نوجوان! وہ بھی جو بیرون ملک سے قابل رشک ڈگریاں لیے تھے۔ اور آج! ٹائیگر فورس کے نوجوان! چند ہفتے پہلے انہیں وفاقی دارالحکومت میں جمع کیا گیا۔ ان کے سامنے جس قسم کی تقریر کی گئی، اس سے ان نوجوانوں کی کوالٹی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے! دوسرے وہ جو شخصیت کے اسیر ہیں۔ انہوں نے ہر حال میں حمایت کرنی ہے۔ ایسے حامی نون لیگ اور پی پی پی کے تھیلے میں بھی بہت ہیں۔ پرکھنے کی صلاحیت سے عاری! نظریات سے نہیں، صرف شخصیات سے وابستہ! جب لا جواب ہو جائیں تو یہ دلیل دیتے ہیں کہ وزیر اعظم نہیں، ان کی ٹیم کا قصور ہے۔ جیسے ٹیم کسی اور نے چنی اور مسلط کر دی! تیسرا گروہ حامیوں کا ان شرفا پر مشتمل ہے‘ جو اپنے آپ کو بے بس پاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر خان صاحب کو بھی ناکام قرار دے دیا جائے تو متبادل کیا ہے؟ یہ ایسے ہی ہے جیسے مریض کو نقصان دینے والی دوا صرف اس لیے دی جاتی رہے کہ پھر اور کیا دیں! پچیس کروڑ افراد کے اس ملک میں لیڈرشپ کی کوئی کمی نہیں۔ صرف ان چند پارٹیوں کا طلسم توڑنے کی دیر ہے جو پیش منظر پر چھائی ہوئی ہیں۔ رب العزت نے امکانات کی بے کنار دنیا پیدا کی ہے۔ چوتھا گروہ حامیوں کا تارکین وطن پر مشتمل ہے۔ ان کے سامنے صرف تقریریں اور وعدے ہیں، انہیں کوئی اندازہ نہیں کہ ان اڑھائی برسوں میں عملی طور پر کیا ہوا ہے۔ وہ مہنگائی سے بھی براہ راست متاثر نہیں۔ انہیں اُن نئے مافیاز کا بھی اندازہ نہیں جو پرانے مافیاز کی جگہ لے چکے ہیں۔
ایک غلط فہمی، بلکہ کنفیوژن موجودہ حکومت شد و مد سے یہ پھیلا رہی ہے کہ اِس حکومت سے غیر مطمئن صرف وہ لوگ ہیں جو مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے حامی ہیں۔ یہ ایک عجیب و غریب قسم کی منطق ہے جس کے ڈانڈے بلیک میلنگ سے جا ملتے ہیں۔ ارے بھائی! گزشتہ حکومتوں سے مایوس ہو کر جن لوگوں نے آپ سے امیدیں باندھی تھیں‘ انہیں آپ نے بھی مایوس کیا ہے تو وہ اب کس برتے پر آپ کے ساتھ بندھے رہیں؟ ہر وعدہ آپ نے توڑا، ہر وہ کام آپ کر رہے ہیں جو گزشتہ حکومتیں کرتی رہی ہیں تو آپ کا ساتھ کیوں دیا جائے؟ بزدار صاحب جیسے نابغوں اور عبقریوں کے نام کون تجویز کر رہا ہے؟ میرٹ کے خلاف نوکریوں کی تائید اعلیٰ ترین سطح سے یہ کہہ کر کی گئی کہ ووٹرز کا پریشر ہے۔ یہی کچھ تو پہلے بھی ہو رہا تھا۔ بد ترین مذاق یہ کیا جا رہا ہے کہ ہر اعتراض ہر شکایت کا ایک ہی جواب ہے: این آر او نہیں دیں گے!
باقی سب کچھ چھوڑ دیجیے۔ صرف تین پہلوئوں سے موجودہ حکومت کی سنجیدگی کا جائزہ لے کر دیکھ لیجیے۔ حکومت میں آنے سے پہلے تین بڑے دعوے کیے گئے تھے: آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے‘ ایک کروڑ نوکریاں دیں گے اور پچاس لاکھ گھر بنائیں گے۔ اکیس سال کا ان کے پاس ہوم ورک تھا۔ اب دو ہی صورتیں ممکن ہیں‘ یا تو یہ وعدے سنجیدگی سے کیے گئے مگر ہوم ورک غلط تھا۔ اتنا بھی نہ جان پائے کہ آئی ایم ایف کے پاس لازماً جانا پڑے گا اور اتنی نوکریاں اور اتنے مکان ممکن ہی نہیں۔ اگر ایسا تھا تو پارٹی کی صلاحیت اور قابلیت مشکوک ٹھہری بلکہ سخت نا قابل اعتبار! اور اگر معلوم تھا کہ یہ نا ممکن ہے اور پھر بھی وعدے اور دعوے کیے تو سبز باغ دکھانے کی فریب کاری کی۔ ایک طویل فہرست ہے عہد شکنیوں کی۔ ہر چند میٹر کے بعد ایک نیا یُو ٹرن۔ جتنے زیادہ ہو گئے اتنے ہی کم ہوئے! کابینہ کی تعداد نصف سنچری کو کراس کر چکی، تقریباً ایک تہائی ارکان غیر منتخب ہیں۔ اچھی خاصی تعداد ان میں شوکت عزیزوں کی بھی ہے جو بساط الٹتے ہی بریف کیس اٹھائیں گے اور اپنے اپنے ''وطن‘‘ کا رخ کریں گے۔ بیوروکریسی کا مستقبل جو صاحب طے کرنے میں لگے ہیں‘ وہ خود چھپن سال پہلے کی سول سروس کی باقیات میں سے ہیں۔ چوبِ خشک! فروختنی نہ سوختنی! یعنی
قیاس کُن ز گلستانِ من بہارِ مرا
اس باغ سے اندازہ لگائیے کہ بہار کیسی ہو گی!
کارکردگی کے خارجی پہلو پر نظر دوڑائیے تو وہاں بھی معاملات اتنے ہی تشویشناک ہیں۔ سی پیک پیش منظر پر کہیں دکھائی ہی نہیں دے رہا۔ بقول مجید امجد
اب تو یاد ان کی دل میں آتی ہے
جیسے بجلی بہ نبضِ خس گزرے
نہ جانے کہاں ہے اور کس حال میں ہے! لگتا ہے قصّہ پارینہ ہو چکا! کوئی نہیں جو اس ضمن میں قوم کو اصل صورت احوال سے آگاہ کرے۔ یو اے ای سے آنے والی خبریں سخت تشویش ناک ہیں۔ ویزے بند کر دیے گئے ہیں۔ فارن آفس اس ضمن میں خاموش ہے! سعودی عرب اور اسرائیل کے حوالے سے جو پیچیدہ اور غیر واضح اطلاعات مل رہی ہیں، کیا پاکستان کی موجودہ لیڈرشپ میں اس حوالے سے عہدہ برآ ہونے کی صلاحیت موجود ہے؟ ابھی تو ملائیشیا میں منعقدہ کانفرنس سے جُڑا پہلا دھچکا بھی پرانا نہیں ہوا۔ رہا امریکہ تو وہاں کے الیکشن سے عین پہلے ہمارے وزیر اعظم صاحب نے اپنا تعلق ٹرمپ سے جا جوڑا۔ یہ ایک انتہائی غیر محتاط مماثلت تھی جو قائم کی گئی۔ نو منتخب امریکی صدر نے اس سے کیا تاثر لیا ہو گا؟ اس کا اندازہ لگانے کے لیے کسی لمبی سوچ بچار کی ضرورت نہیں۔ کشمیر کے معاملے میں بھارت ہمیں بہت پیچھے چھوڑ چکا۔ بھری دنیا میں سوائے دو تین ملکوں کے کسی نے ہمارے حق میں منہ نہ کھولا۔ کیا کسی نے سوچا ہے کہ گلگت بلتستان جیسے حساس علاقے میں جو اضطراب برپا ہے اس سے سرحد پار کیا پیغام جائے گا؟
یہ ہے ایک اجمالی صورت حال جس سے ہم لمحۂ موجود میں دوچار ہیں۔ حکومت اس سے نمٹنے کے بجائے ایک ہی بات بار بار کہے جا رہی ہے کہ این آر او نہیں دے گی۔ ایک طرف یہ کہا جاتا ہے کہ نیب اور عدالتیں ہمارے ماتحت نہیں، دوسری طرف یہ دھمکی دی جاتی ہے کہ چھوڑیں گے نہیں جبکہ عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ این آر او دینا ہے یا نہیں یا کسے دینا ہے اور کسے نہیں دینا۔ عوام تو ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کا انتظار کر رہے ہیں۔ پانچ سالہ ٹرم کا نصف تقریباً مکمل ہونے کو ہے۔ اس موقع پر پچیس لاکھ گھر اور نصف کروڑ ملازمتیں تو نظر آ جانی چاہیے تھیں۔ اب بھی وقت ہے۔ نابغوں اور عبقریوں سے حکومت چھٹکارا حاصل کرے۔ بیوروکریسی کے جس مخصوص طائفے نے اقتدار کو اپنے حصار میں قید کر رکھا ہے‘ اسے منتشر کیا جائے۔ جس میرٹ کا شور مچایا گیا تھا‘ اسے بروئے کار لایا جائے۔ ترجیحات درست کی جائیں۔ غرض مند مشیروں کے بجائے بے لوث ماہرین سے استفادہ کیا جائے۔ یہی واحد راستہ ہے عوام کو مطمئن کرنے کا اور اپوزیشن کو نیچا دکھانے کا!