جسم کا زوال

سترہویں صدی کے آغاز میں فلپ سوم ہسپانیہ کا بادشاہ تھا۔ اس کی موت کی وجہ عجیب تھی۔ آتشدان کے پاس بیٹھا رہا۔ بیٹھا رہا۔ حرارت اس کے جسم میں نفوذ کرتی رہی۔ بخار تیز ہوتا گیا۔ جس ملازم کی ڈیوٹی آتشدان ہٹانے کی تھی ‘ وہ مل نہیں رہا تھا۔ خود اُٹھ کر ہٹنا بادشاہ کی شان کے خلاف تھا۔اسی حال میں مر گیا۔
فلپ سوم آج کے زمانے میں ہوتا تو کم از کم اس وجہ سے نہ مرتا۔ اس کے ہاتھ میں ریموٹ کنٹرول ہوتا۔ اپنی جگہ سے اٹھے بغیر ‘ گرم ہوا پھینکنے والے ایئر کنڈیشنر کو بند کر دیتا۔ آج اکثر کام اپنی جگہ سے اُٹھے بغیر کیے جا رہے ہیں!انسانی جسم زوال کے راستے پر چل رہا ہے۔
انسانی جسم پر پہلی افتاد ریل کی صورت میں پڑی‘ مگر اصل دشمن کار ثابت ہوئی۔کار ایجاد تو پہلے ہو چکی تھی مگر بڑی مقدار میں پروڈکشن بیسویں صدی کے اوائل میں شروع ہوئی۔1913 ء اور 1927 ء کے درمیان‘فورڈ کمپنی نے ڈیڑھ کروڑ کاریں بنا ڈالیں۔ جیسے جیسے گاڑیاں عام ہوئیں‘ لوگوں نے چلنا چھوڑ دیا۔ پھر بسیں اور ویگنیں آگئیں۔ اس کالم نگار کو وہ دن یاد ہیں جب گاؤں سے لڑکے دوسرے گاؤں میں واقع سکول جانے کے لیے کچے ٹریک پر چلتے اور کچھ ہی دیر میں پہنچ جاتے۔ اب وہ اپنے گاؤں سے سوزوکی میں بیٹھتے ہیں‘ دو جگہ سواری تبدیل کرتے ہیں تب دوسرے گاؤں پہنچتے ہیں۔ پرانی بات یاد آرہی ہے۔ دفتر جانے کے لیے نکلا‘ ایک طالب علم نے ہاتھ دیا۔ اسے بٹھا لیا۔ کہنے لگا: آدھ گھنٹے سے لفٹ کے انتظار میں کھڑا ہوں حالانکہ پیدل چلتا تو پندرہ منٹ کا رستہ تھا۔ ٹریکٹر اور ٹرالیاں گاؤں گاؤں داخل ہو چکیں ! بجلی سے چلنے والے پنکھے جاپانیوں نے 1909ء میں اپنے ملک میں فراہم کرنے شروع کر دیے تھے۔ اگلے تیس برسوں میں برصغیر میں عام بننے لگے۔ دستی پنکھے سے بازوؤں کی جو ورزش ہوتی تھی ‘ ختم ہو گئی۔ رہی سہی کسر ایئر کنڈیشنر نے نکال دی۔ صحن میں یا چھت پر ‘یا باہر گلی میں سونے کا تصور ہی نہیں رہا۔ پہلے لوگ باگ‘ لڑکے بالے‘ شام کو باہر جا کر کھیلتے تھے۔ پھر ٹی وی آگیا۔ پوری شام اس کے حضور گزرنے لگی۔وڈیو گیمز نے بچوں کی جسمانی اچھل کود پر قدغن لگا دی۔ لفٹ آنے کے بعد سیڑھیاں چڑھنے اترنے کا عمل ختم ہو گیا۔ بیت الخلا چھت پر‘ یا آخری منزل پر ہوتے تھے۔ سیڑھیاں چڑھنا پڑتی تھیں ! اب یہ کام خواب گاہ کے اندر ہی ہو جاتا ہے۔یہاں تک بھی خیریت تھی‘ مگر جو آج کی صورتحال ہے‘ ہولناک ہے۔ اب گھرسے باہرقدم رکھنے کی ضرورت ہی نہیں رہی ! گھنٹی بجے تو لازم نہیں کہ باہر جا کر دیکھیں کون آیا ہے۔ انٹر کام پر آنے والے سے بات کر لیجیے۔ صبح اٹھیں تو باہر دروازے پر جا کر اخبار اٹھانے کی ضرورت نہیں‘ بستر پر لیٹے لیٹے ‘آئی پیڈ پر دنیا بھر کے اخبارات کھنگال لیجیے۔ پنکھے کو تیز یا آہستہ کرنے والا ریموٹ کنٹرول بھی آچکا۔ کھانا کھانے ریستوران جانا لازم نہیں ‘ کھانا گھر ڈیلیورکرا سکتے ہیں۔ رات رات بھر یہ '' سہولت‘‘ میسر ہے۔ گھر کا سودا سلف خریدنا ہے تو وٹس ایپ پر مطلوبہ اشیا کی فہرست سٹور والے کو بھیج دیجیے۔ کچھ ہی دیر میں سودا پہنچا دیا جائے گا۔ نہلے پر دہلا یہ دیکھیے کہ اگر ادائیگی کریڈٹ کارڈ سے کرنی ہے تو کریڈٹ کارڈ والی مشین بھی گھر بھیج دی جاتی ہے۔ اب بات دال گھی اور چینی سے آگے جا چکی ہے۔ آن لائن شاپنگ کی کوئی حدود و قیود نہیں۔ خواتین کو شاپنگ مال جانے کی حاجت ہی نہیں۔ کون سی شے ہے جو گھر بیٹھے بیٹھے آن لائن نہیں منگوائی جا سکتی۔ ملبوسات‘ جوتے‘ بستر کی چادریں‘ تکیوں کے غلاف‘ہینڈ بیگ‘ مصنوعی جیولری‘ کتابیں ‘ یہاں تک کہ برقی پنکھے اور ایئرکنڈیشنر بھی ! پہلے بچے سکول جانے کے لیے باقاعدہ تیار ہوتے‘ نہا دھو کر یونیفارم پہنتے‘ ناشتہ کرتے ‘ غضب خدا کا ‘ اب منہ ہاتھ دھوئے بغیر‘ بہتی رال کے ساتھ‘ بستر پر نیم دراز ‘ کلاس اٹینڈ کر رہے ہیں۔ دفتر جانے کی بھی ضرورت نہیں ‘ گھر سے ہی ڈیوٹی سرانجام دی جا نے لگی ہے۔ سْستی کا یہ عالم ہے کہ گیٹ کھولنے کے لیے گاڑی سے نیچے نہیں اُترنا‘ ریموٹ کنٹرول سے‘ گاڑی میں بیٹھے بیٹھے‘ گیٹ کھول لیجیے۔ کیا آپ نے نوٹ نہیں کیا کہ لیٹر بکس غائب ہو گئے ہیں؟ پہلے خط لکھ کر پوسٹ کرنے جاتے تھے یا رجسٹری کرانے ڈاکخانے جاتے تھے۔ اب گھر بیٹھے بیٹھے ای میل کیجیے۔ ای میل کے بعد وٹس ایپ آگیا ہے۔ اس کا خرچہ بھی برائے نام ہے‘ گھر کے کسی فرد سے بات کرنی ہے تو دوسرے کمرے میں یا بالائی منزل پر جانے کی بھی ضرورت نہیں‘ وٹس ایپ سے بات ہوتی ہے۔ شادی کے دعوتی کارڈ پہلے گھر گھر جا کر دیے جاتے تھے۔ اعزہ و احباب سے ملاقات بھی ہو جاتی تھی۔ مگر اب نہیں! وٹس ایپ پر کارڈ کی فوٹو بھیج دیجیے۔ اللہ اللہ خیر صلّا!سنیما ہاؤس وفات پا چکے۔ ٹیلی فون بوتھ ختم ہو گئے۔ سب کچھ گھرکے اندر منتقل ہو چکا۔ ٹیکسی ڈھونڈنے کے لیے چوک پر یا بازار کی طرف کیا جانا! گھر بیٹھے بیٹھے اَیپ سے سلسلہ جنبانی کیجیے‘ دروازے پر حاضر ہو جائے گی۔ جہاز یا ٹرین کا ٹکٹ لینے کے لیے کہیں مت جائیے‘ سب کام آن لائن ہو سکتا ہے۔
یہ سب کیا ہے؟ انسانی جسم کے ساتھ دشمنی !جسم زوال پذیر ہے۔ حرکت تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ جسمانی فٹنس ہمارے ہاں پہلے بھی ترجیحات میں شامل نہ تھی‘ آبادی کا قلیل حصہ ہی اس کی طرف راغب تھا؛ تاہم کچھ کام سرانجام دینے کے لیے باہر نکلنا پڑتا تھا۔ اب اُس سے بھی گئے۔ غضب یہ ہوا کہ ساتھ انواع و اقسام کے کھانے بھی میسر ہیں۔ اور افراط سے میسر ہیں۔ایک عزیز رات دن فوڈ والی وڈیوز دیکھتے رہتے ہیں۔دلی‘ کراچی لاہور کے چٹ پٹے کھانے‘ نہاری کی اقسام! بریانی اور پلاؤ کی تاریخ۔ اب ماشاء اللہ مندی بھی تشریف لے آئی ہے۔ ایک دن میں لاکھوں مرغے ‘ بکرے‘ بیل‘ مچھلیاں تنور ہائے شکم میں جھونکی جاتی ہیں ! پورا سرما گاجر کا حلوا چلے گا۔ گھی اور کھوئے سے بھرا ہوا۔ وہی گاجر جو صحت کے لیے تیر بہدف ہے اور اس کا رس از حد مفید ہے‘ ہمارے ہاں‘ شوگر‘ کولیسٹرول اور وزن بڑھانے کے لیے اکسیر کا درجہ رکھتی ہے۔ دوسرے ملکوں میں پارکنگ کے قوانین سخت ہیں۔ گاڑی پارک کرنے کے بعد اچھا خاصا چلنا پڑتا ہے‘ ہمارے ہاں اس ضمن میں مکمل اور شرمناک لا قانونیت کا دور دورہ ہے۔ عین دکان کے سامنے گاڑی پارک ہو گی۔ راستہ بے شک بلاک ہو جائے! پارکنگ کی جگہ بے شک کھلی کیوں نہ ہو ! موٹر سائیکل والوں کا بس چلے تو موٹر سائیکل باتھ روم کے اندر لے چلیں ! کسی کے گھر جانا ہو تو پھل یا کوئی اور شے لے جانے کا رواج نہیں ! کیک اور مٹھائیوں پر زور ہے۔ چائے میں چینی نہیں بلکہ چینی میں چائے ڈالی جاتی ہے۔ چین سے لے کر مراکش تک ‘ تاشقند سے لے کر ترکی تک ہر جگہ قہوہ یا سبز چائے پھیکی پینے کا معمول ہے‘ ہمارے ہاں نہیں! اتنا بھی نہیں ہو سکتا کہ سفید چینی کے بجائے گُڑ ہی استعمال کر لیں ! دنیا میں دوپہر کا کھانا کھانے کی عادت ختم کی جا رہی ہے۔ پھل‘ سلاد یا ایک آدھ سینڈوچ سے کام چلایا جاتا ہے۔ یہاں جاڑے کے چھوٹے دنوں میں بھی باورچی خانہ سارا دن رنگا رنگ سرگرمیوں کا مرکز بنا رہتا ہے۔ ڈاکٹروں ‘ طبیبوں اور اتائیوں کے مزے ہیں !

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں