پھل جس ٹہنی پر لگتا ہے وہ جھک جاتی ہے!
اقتدار بھی ایک پھل ہے! جس کے پاس اقتدار ہو اسے منکسر المزاج ہونا چاہیے۔ اس پر لازم ہے کہ حسن اخلاق اور شائستہ گفتگو سے دشمنوں کے دل بھی فتح کر لے، نہ یہ کہ دوستوں کو بھی آزردہ خاطر کر کے اپنے سے دور کر لے۔ حکومت اور ریاست کے مفاد کی خاطر اسے چاہیے کہ اپنی ذاتی رنجشوں کو قابو میں رکھے۔ ایسا نہ ہو کہ اس کی ذا تی رنجش اور منتقم مزاجی حکومت کو نقصان پہنچائے۔ غصہ، جذبۂ انتقام، دوسروں کی تحقیر، خود پسندی، ابتذال سے آلودہ زبان، یہ سب وہ رذائل ہیں جو حکمران کو زیب نہیں دیتے۔ وہ ملک کا والی ہوتا ہے۔ ملک کے باشندوں کے لیے وہ بمنزلہ باپ کے ہے۔ ان باشندوں میں اس کے مخالفین بھی شامل ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ فراخ دلی کا سلوک ملک اور حکومت کے استحکام کے لیے ضروری ہے۔ مخالفین میں کئی افراد بے پناہ ٹیلنٹ کے مالک ہوتے ہیں۔ اس ٹیلنٹ کو عوام کے مفاد کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ صدر اوبامہ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے اندر، ہلیری کلنٹن، اوبامہ کے مقابلے میں صدارتی امیدوار تھیں‘ مگر صدر بننے کے بعد اوبامہ نے اس مخالفت کو ملکی مفاد کے راستے میں حائل نہ ہونے دیا اور اصرار کر کے اس خاتون کو وزیر خارجہ کے منصب پر فائز کیا۔
یہ جو بادشاہ ملکوں اور بر اعظموں پر پھیلی ہوئی وسیع و عریض سلطنتوں پر کامیابی سے حکومت کرتے تھے تو اس کامیابی کی پشت پر عالی ظرفی ہوتی تھی اور قوت برداشت! حکومت حکمت کے بغیر نہیں کی جا سکتی اور حکمت اس میں ہے کہ دوسروں کی عزت نفس کو کچلا نہ جائے۔ اقتدار میں آ کر انتقام لینا آسان تو ہوتا ہے مگر اس کے عواقب خطرناک ہوتے ہیں اور نتائج دور رس! کتنے ہی تاریخی واقعات ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ فراخ دلی نے سلطنتوں کو استحکام بخشا۔ اس کے مقابلے میں لذتِ انتقام اکثر و بیشتر بارودی سرنگ ثابت ہوئی۔ میواڑ کے راجپوتوں سے زیادہ مغلوں کا مقابلہ ہندوستان میں کسی نے نہیں کیا۔ اس بہادر خاندان نے چار پشتوں تک مغلوں کی برتری کو تسلیم نہیں کیا۔ رانا سانگا نے ہندوستانی قومیت کی بنیاد پر بابر سے جنگ کی۔ شکست کھائی مگر سر نہ جھکایا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا اودے سنگھ ڈٹا رہا۔ میواڑ کے راجپوت اپنے آپ کو دوسرے راجپوتوں سے برتر سمجھتے تھے۔ انہیں غصہ تھا کہ امبر کے راجہ بھارا مل نے اپنی بیٹی اکبر کے عقد میں کیوں دی۔ بقول ان کے کہاں بد حال ترک اور کہاں اعلیٰ نسل راجپوت رانیاں! مغل بادشاہ، اپنے دربار میں باجگزار حکمرانوں کی ذاتی حاضری لازم قرار دیتے تھے۔ اودے سنگھ نے اپنے بیٹے کو تو دربار میں بھیجا مگر خود حاضر ہونے سے معذرت کر لی۔ اکبر نے اس کے دارالحکومت چتوڑ پر حملہ کر دیا۔ اودے سنگھ شہر کو اپنے جرنیلوں کے حوالے کر کے خود پہاڑوں کی طرف نکل گیا۔ وہیں اس نے نیا دارالحکومت اودے پور تعمیر کیا... مغلوں نے چتوڑ فتح کر لیا۔ خوب قتل و غارت برپا ہوئی۔ اودے سنگھ پہاڑوں سے اترا نہ اطاعت قبول کی یہاں تک کہ دنیا سے کوچ کر گیا۔ اس کا بیٹا اور جانشین، رانا پرتاپ سنگھ، باپ کی پالیسی ہی پر کاربند رہا۔ اس نے بھی اپنے بیٹے امر سنگھ کو دربار میں بھیجا مگر خود نہ گیا۔ یہ اکبر کو قبول نہ تھا۔ پرتاپ سنگھ بھی جھکنے کو تیار نہ تھا۔ اس کے علاوہ بھی تلخیاں تھیں ! پرتاپ سنگھ کے پاس ایک مشہور اور زبردست ہاتھی تھا جس کا نام رام پرشاد تھا۔ حکمرانوں کی ہوس لا محدود ہوتی ہے۔ اکبر یہ ہاتھی حاصل کرنا چاہتا تھا۔ رانا نے یہ فرمائش پوری کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر اکبر نے اپنا خاص مقرّب راجہ مان سنگھ اس کے پاس بھیجا۔ اکبر کی بیوی مان سنگھ کی پھوپھی تھی۔ پرتاپ سنگھ نے مان سنگھ کا استقبال خود کیا نہ کھانے پر اس کے ساتھ بیٹھا۔ تلخی ہوئی۔ مان سنگھ نے دھمکی دی کہ پھر آؤں گا۔ پرتاپ سنگھ نے طنز کیا کہ آتے ہوئے پھوپھا کو بھی لے آنا۔ قصہ مختصر، مغلوں نے حملہ کیا‘ اور میواڑ میں خون کی ندیاں بہا دیں۔ اودے پور پر بھی قبضہ کر لیا مگر پرتاپ سنگھ، باپ کے نقش قدم پر چلتا ہوا، جنگلوں اور پہاڑوں میں چلا گیا۔ وہ مغلوں کے ہاتھ آیا‘ نہ اطاعت قبول کی یہاں تک کہ وہ بھی مر گیا اور اکبر بھی فتح پور سیکری میں دفن ہو گیا۔ پرتاپ سنگھ کی گدی اس کے بیٹے امر سنگھ نے سنبھالی۔ ادھر مغلوں کے تخت پر جہانگیر براجمان ہوا۔ رانا سانگا سے لے کر امر سنگھ تک، میواڑ کے راجپوتوں نے اٹھاسی سال مغلوں کا مقابلہ کیا۔ یہاں تک کہ جہانگیر نے شہزادہ خرم (مستقبل کے شاہ جہان) کو فوج دے کر بھیجا۔ ہر مزاحمت کا ایک خاتمہ ہوتا ہے۔ امر سنگھ نے امن کی عرضی بھیج دی اور حاضری کی اجازت چاہی!
آپ کا کیا خیال ہے مغل بادشاہ نے کیا کیا ہو گا؟ چار نسلوں کا انتقام اور غصہ تھا! کیا پا بہ زنجیر کیا؟ کیا زندان میں ڈالا؟ کیا تذلیل کی؟ نہیں! جہانگیر نے حکمت اور دور اندیشی سے کام لیا۔ شہزادہ خرم کو ہدایت کی کہ امر سنگھ کا احترام کیا جائے۔ امر سنگھ نے شہزادے کے پاؤں پڑنا چاہا تو شہزادے نے اسے اٹھا کر گلے لگا لیا۔ اس کی عزتِ نفس کی حفاظت کی۔ جہانگیر نے میواڑ کی حکومت امر سنگھ ہی کے سپرد کر دی۔ بظاہر اس کی عمر کو وجہ بنا کر دربار میں حاضری سے بھی مستثنیٰ قرار دیا، اس کے تند مزاج بیٹے رانا کرن سنگھ کو بھی پنج ہزاری منصب دے کر قابو کر لیا۔
یہ ہوتی ہے جہانبانی ! حکمت! تدبر! دور اندیشی اور سیاسی دانش مندی! عیسیٰ علیہ السلام سے تین سو چھبیس سال پہلے، آج کے پاکستانی پنجاب میں، حکمرانی کا اصول طے ہو گیا تھا جب سکندر اعظم نے شکست خوردہ پورس کے ساتھ وہ سلوک کیا جو، بقول پورس، بادشاہ بادشاہوں کے ساتھ کرتے ہیں! اس نے پورس کو اس کی راج دھانی واپس کر دی!
حکمران کا مخالف اگر بد زبانی بھی کرے، اگر انتقام کا نعرہ بھی لگائے تب بھی حکمران کو شائستگی کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے اس لیے کہ مخالف تو شکست خوردہ ہے‘ مایوس ہے اور اقتدار سے محروم ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو اور کر ہی کیا سکتا ہے! مگر حکمران ؟ حکمران کے پاس تو اقتدار ہے، طاقت ہے اور زور ہے! یہی اس کا امتحان ہے! اگر وہ بھی ویسی ہی بد زبانی کرے اور بدلہ لینے کی بات کرے تو ایسے رویّے کا کوئی جواز نہیں! حکمران کو کبھی بھی اشتعال میں آ کر ایسی بات نہیں کرنی چاہیے جو اس کے شایانِ شان نہ ہو اور پست سطح کی ہو ورنہ اس میں اور ایک محرومِ اقتدار، مایوس، شخص میں فرق ہی کیا رہ جائے گا؟ اگر کوئی مجرم ہے تو اس کا معاملہ ، عدالت پر چھوڑ دینا چاہیے یا اُن اداروں پر جو تفتیش کرنے اور مقدمہ عدالت تک لے جانے کے لیے قائم کیے گئے ہیں۔ حکمران پر لازم ہے کہ غیر جانب دار رہے۔ اسے ایسا تاثر ہرگز ہرگز نہیں دینا چاہیے کہ وہ سزا دلوانے کے لیے سخت بے تاب ہے۔ اسے اپنی توجہ مثبت پہلوؤں پر مبذول کرنی چاہیے اور ایسے کام کرنے چاہئیں جن کا فائدہ عوام کو اس کے جانے کے بعد بھی پہنچتا رہے تا کہ وہ اسے اچھے نام سے یاد کریں! اگر وہ بات بات پر اپنے حریفوں کی تحقیر اور تنقیص کرے گا اور انہیں سزا دلوانے کی حسرت کا اظہار کرے گا تو وہ اپنے مقام سے نیچے گر جائے گا اور لوگ سمجھیں گے کہ مخالف اس کے اعصاب پر سوار ہیں!