سولہ دسمبر اور تاریخ کا دائرہ

سردار کیلے کے چھلکے پر سے صرف دو بار پھسلا تھا۔ پہلے دن اس نے چھلکا دیکھا نہیں تھا۔ پاؤں اچانک چھلکے پر جا پڑا۔ دوسرے دن اس نے چھلکے کو دیکھا اور افسوس کا اظہار کیا کہ آج پھر پھسلنا پڑے گا۔ مگر ہم سردار صاحب سے کہیں زیادہ پہنچی ہوئی چیز ہیں۔ ہم بار بار پھسل رہے ہیں۔ چھلکا دیکھتے ہیں تو ہماری باچھیں کھِل اٹھتی ہیں۔ اپنے آپ کو مبارک دیتے ہیں۔ پھر، پوری حماقت کے ساتھ چھلکے پر پاؤں رکھتے ہیں، پورے صدقِ دل کے ساتھ پھسلتے ہیں اور ہر بار منہ کے بل گرتے ہیں!
سولہ دسمبر جب بھی آتا ہے، ہم ثابت کر دیتے ہیں کہ چھلکے سے بچ کر چلنے کا ہمارا کوئی ارادہ نہیں! خدا کی پناہ! کیسے کیسے مضامین چھپتے ہیں! کیا کیا تبصرے ہوتے ہیں اور کیا کیا تجزیے کیے جاتے ہیں۔ کسی کے ذہن میں صرف اور صرف اپنی پارٹی ہے۔ وہ تاریخ کے اس واقعے کو اپنی جماعت کی عینک کے بغیر دیکھنے کو ہرگز تیار نہیں! کوئی پہلے سے فیصلہ کر بیٹھا ہے کہ بنگالی غدار تھے؛ چنانچہ وہ اس واقعے کی ایسی تصویر کھینچتا ہے کہ اس کے کیے گئے فیصلے کی توثیق ہو جائے۔ کسی کو حقائق کا علم ہی نہیں، مشرقی بنگال کے بارے میں کچھ بھی نہیں معلوم۔ مشاہدہ ہے نہ مطالعہ! مگر دانش وری ہے کہ اچھل اچھل پڑتی ہے؛ چنانچہ میڈیا کے ذریعے وہ بھی اپنا حصہ ڈال دیتا ہے۔ لب لباب یہ ہوتا ہے کہ ہماری (یعنی وفاق کی اور مغربی پاکستان کی) تو کوئی غلطی تھی ہی نہیں‘ سارا قصور بنگالیوں کا تھا۔ وہ غدار تھے۔ ہندوؤں کے ہاتھوں میں کھیل رہے تھے۔ بھارت ان کی مدد کر رہا تھا۔ مجیب الرحمن ابتدا ہی سے علیحدگی کے لیے کام کر رہا تھا، اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ! سچ یہ ہے کہ سچ سننے کا حوصلہ نہیں۔ سچ کہنے کی جرأت نہیں! کبھی خود ساختہ نظریات آڑے آ جاتے ہیں۔ کبھی مذہب کی خود ساختہ تعبیر پَیروں میں زنجیر ڈال دیتی ہے۔ کبھی جذباتی عوام سے واہ واہ کرانے کا شوق لے بیٹھتا ہے۔ یوں قلم یا زبان سے وہی الفاظ نکلتے ہیں جو عوام سننا یا پڑھنا چاہتے ہیں۔
ویسے کچھ معمے ایسے ہیں جو سمجھ میں نہیں آتے۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ مشرقی پاکستان میں ہندو زیادہ تھے اور یہ ان کا اثر و رسوخ تھا کہ اینٹی پاکستان جذبات پیدا ہوئے‘ تو معمہ یہ ہے کہ یہ ہندو آبادی تو تقسیمِ ہند سے پہلے بھی موجود تھی تو پھر بنگالی مسلمان اُس وقت کیوں زور و شور سے تحریک پاکستان میں شامل ہوئے؟ ہندو اثر و رسوخ وہاں تھا تو تحریک پاکستان کی مخالفت میں جماعت احرار اور خاکسار تحریک وہاں کیوں نہ بنیں؟ یہ مخالف تنظیمیں تو پنجابی مسلمانوں کی تھیں!! ایک اور معمہ جو سمجھنے کا ہے نہ سمجھانے کا! اگر الجزائر میں الیکشن جیتنے والی پارٹی کو حکومت نہ بنانے دی جائے تو یہ ظلم ہے۔ اگر مصر میں الیکشن جیتنے والی پارٹی کی حکومت کو طاقت سے ختم کر دیا جائے تو یہ بھی ظلم ہے‘ لیکن اگر مشرقی پاکستان میں الیکشن جیتنے والی جماعت کو، بزور، اقتدار سے محروم رکھا جائے تو یہ عین ثواب ہے! یعنی ہمارا کتا کتا ہے اور آپ کا کتا ٹامی۔ پھر، دنیا کے کئی ملکوں میں ایک سے زیادہ قومی زبانیں ہیں۔ کینیڈا میں انگریزی اور فرنچ دونوں کو سرکاری سطح پر تسلیم کیا گیا ہے۔ سوئٹزر لینڈ کی قومی زبانیں چار ہیں: جرمن، فرنچ، اطالوی اور رومانش۔ بلجیم کی تین قومی زبانیں ہیں: ڈچ، فرنچ اور جرمن۔ لگسمبرگ کی بھی تین قومی زبانیں ہیں۔ پاکستان بنا تو مشرقی پاکستان آبادی کے اعتبار سے اکثریت میں تھا۔ جو بات اہل پنجاب نہیں سمجھ پائے اور آج تک سمجھنے سے گریزاں ہیں وہ یہ ہے کہ بنگالی، اردو کی نسبت زیادہ قدیم اور زیادہ ترقی یافتہ زبان تھی۔ مسلمان سلاطینِ بنگال نے چودہویں صدی عیسوی ہی میں بنگالی زبان کو دربار کی سرکاری زبان قرار دے دیا تھا۔ ان تمام حقائق کو نظر انداز کر کے، بنگالی کو قومی زبان کے درجے سے محروم رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ دلوں میں گرہ پڑ گئی۔ فسادات ہوئے۔ بالآخر خرابیٔ بسیار کے بعد، 1956ء میں بنگالی کو اردو کی طرح قومی زبان قرار دیا گیا مگر ضرر پہنچ چکا تھا۔
پاکستان بنا تو مشرقی پاکستان میں مہاجر مغربی بنگال سے بھی آئے مگر کم۔ زیادہ تعداد مہاجرین کی بہار، اڑیسہ، اور مشرقی یو پی سے تھی۔ یہ اردو بولنے والے لوگ تھے۔ یہ حقیقت ریکارڈ پر ہے کہ مشرقی پاکستانیوں نے کھلے دل کے ساتھ اور پھیلے ہوئے بازوؤں کے ساتھ مہاجرین کا استقبال کیا اور ہر ممکن طریقے سے ان کی پذیرائی اور دل جوئی کی۔ یہ مہاجرین جلد ہی صنعت و حرفت اور کاروبار پر چھا گئے اور کچھ سرکاری محکموں پر بھی اپنی اجارہ داری قائم کر لی۔ ریلوے اور پوسٹ آفس کے شعبوں میں ان کی بھاری اکثریت تھی۔ مغربی پاکستان میں اور آج کے پاکستان میں بھی، کسی کو نہیں معلوم کہ مقامی بنگالیوں کو ان شعبوں میں ملازمت سے محروم رکھنے کی نا محسوس اور زیرک کوششیں کی جاتی تھیں۔ یہ حضرات مقامی آبادی میں مکس ہونا بھی پسند نہیں کرتے تھے؛ چنانچہ محمد پور اور میر پور کے نام سے الگ بستیاں بسائی گئیں۔ یہ رویہ اور یہ اقدام آخر میں خود انہی حضرات کے لیے سخت نقصان کا باعث بنا کیونکہ جب فسادات ہوئے تو الگ بستیوں کو نشانہ بنانا آسان تھا۔ بنگالیوں کے لیے ہمارے پنجابی اور بہاری بھائی جو حقارت بھری زبان استعمال کرتے تھے، جن جن ناموں سے انہیں پکارتے تھے، ان کے کھانے پینے کے سٹائل کی جس طرح نقلیں اتارتے تھے اور تضحیک کرتے تھے، اسے کالم نگار نے بارہا خود اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے کانوں سے سنا۔ تین سالہ قیام کے دوران، کاکس بازار سے لے کر سلہٹ تک اور میمن سنگھ سے لے کر رانگا متی اور کپتائی تک بہت کچھ دیکھا اور بہت کچھ محسوس کیا۔ بنگالیوں سے بھی قریبی تعلقات تھے اور بہاریوں میں بھی گہرے دوست تھے۔ مستقبل کا نقشہ صاف نظر آتا تھا!
ایک گرم شام تھی جب میں ڈھاکہ یونیورسٹی لائبریری میں بیٹھا ایم اے کے ایک پرچے کی تیاری کر رہا تھا۔ ایک بنگالی کلاس فیلو بھی ساتھ تھا۔ باہر خلیج بنگال کی تیز ہوا چل رہی تھی۔ املی اور لیچی کے درخت جھوم رہے تھے اور ان کے ناچتے پتوں کا عکس، لائبریری کی کھڑکیوں کے شیشوں پر پڑ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد بعد ہم چائے پینے کینٹین میں چلے گئے۔ باتوں باتوں میں وہ کہنے لگا: یار مجھے یہ بتاؤ کہ ایوب خان کے بعد تو جنرل یحییٰ آ گیا ہے‘ اگر یہی سلسلہ رہا تو کوئی بنگالی کس طرح عہدۂ صدارت پر پہنچ سکتا ہے؟ میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہ تھا۔ بنگالیوں کا کیا قصور تھا؟ یہی کہ وہ آئین اور قانون کی بات کرتے تھے۔ وسائل میں حصہ اپنی آبادی کے مطابق مانگتے تھے۔ پارلیمنٹ میں نمائندگی آبادی کے لحاظ سے چاہتے تھے۔ چاہتے تھے کہ الیکشن کے بعد، اسمبلی کا اجلاس بلایا جائے اور جیتنے والی پارٹی کو حکومت بنانے دی جائے۔ چاہتے تھے کہ پارلیمنٹ ہی طاقت کا مرکز ہو۔ قانون بھی یہی کہتا تھا۔ آئین کا بھی یہی تقاضا تھا ! حفیظ جالندھری یاد آ گئے 
میری چپ رہنے کی عادت جس کارن بدنام ہوئی
اب وہ حکایت عام ہوئی ہے، سنتا جا شرماتا جا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں