صوفی تھے یا عالم، محدث تھے یا مجذوب یا کوئی پہنچے ہوئے بزرگ، ہر وقت اپنے کمرے ہی میں رہتے۔ باہر نکلتے تو نظریں جھکا کر چلتے، یوں کہ کسی پر نظر نہ پڑے۔ جو بھی کام ہوتا، درس و تدریس کا یا مریدوں، عقیدت مندوں سے ملنے کا، انجام دیتے، اور نظریں جھکا کر چلتے ہوئے پھر اپنے حجرے میں واپس! ایک طویل عرصہ یوں ہی گزرا۔ آخر کار کسی پیروکار نے پوچھ ہی لیا کہ حضرت! کسی کی طرف دیکھتے نہیں! ملتے ملاتے بھی کم ہیں، بہت ہی کم! حجرے میں عبادت اور مطالعہ کے لیے اتنا زیادہ وقت! آخر اس کنارہ کشی میں کیا حکمت ہے اور کون سی مصلحت ہے؟ حضرت نے کچھ تامل فرمایا‘ پھر کہا کہ میں کیا کروں؟ چہروں پر نظر پڑے تو کوئی بندر نظر آتا ہے، کوئی بھیڑیا، کوئی خُوک اور کوئی سگ! اس صورت حال سے بچنے کے لیے صرف اُس وقت ہی باہر نکلتا ہوں جب ناگزیر ہو اور نکلتا بھی ہوں تو اس طرح کہ کسی چہرے پر نظر نہ پڑے!
یہ حکایت یا روایت، جو بھی ہے، ہم نے بزرگوں سے سنی! دوسرے لوگوں نے بھی سنی ہو گی! معلوم نہیں کتنا اس میں سچ ہے اور کتنا مبالغہ! مگر اس سے ذہن قرآن پاک میں بیان کردہ اُس واقعہ کی طرف ضرور جاتا ہے‘ جس میں ایک نافرمان گروہ کو حکم دیا گیا کہ تم ذلیل بندر ہو جاؤ۔ اس کی تشریح میں کچھ کی رائے ہے کہ جسمانی طور پر بندر بنا دیے گئے۔ کچھ کا خیال ہے کہ ان کی عادات بندروں جیسی کر دی گئیں۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ ان بد بختوں کو اپنی شکل آئینے میں انسانوں جیسی دکھائی دیتی تھی مگر لوگوں کو وہ جانور نظر آتے تھے۔ اس سے دو نتیجے صاف نکلتے ہیں۔ ایک یہ کہ انسان، اپنی انسانی شکل رکھتے ہوئے بھی، عادات و خصائل میں، اخلاق اور رویے میں جانور کے مشابہ ہو سکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ کسی ولی اللہ کو، کسی صاحبِ کشف و کرامت کو، قدرت کی طرف سے کچھ افراد کے چہرے جانوروں کی شکل میں دکھائے جا سکتے ہیں! دست قدرت کیا کیا کر سکتا ہے، اس کی کوئی حد ہے نہ نہایت! قدرت جب چاہے کسی کو غیر معمولی ملکہ عطا کر سکتی ہے!
مگر اصل مسئلہ اور ہے! وہ جو شاعر نے کہا تھا کہ ع
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
اور یہ فقرہ جو بچوں کو بھی معلوم ہے کہ مین از اے سوشل اینیمل تو یہ حیوان جسے ہم آدمی کہتے ہیں، کیا انسان بن پاتا ہے؟ اپنے ارد گرد دیکھیے! کیا یہ سب انسان ہیں؟ کیا ہم سب انسان ہیں؟ سچ یہ ہے کہ ہم سانپوں کی طرح وحشت میں پھنکارتے ہیں اور اپنے کسی بھائی کو سانپ ہی کی طرح ڈس بھی جاتے ہیں۔ اونٹ کی طرح سینے میں کینہ پال لیتے ہیں! انسان پر بربریت سوار ہو جائے تو آخر اس میں اور بھیڑیے میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟ باہر سے وہ انسان دکھائی دے تو اس سے کیا ہوتا ہے! اندر ایک خونخوار بھیڑیا بیٹھا ہوتا ہے۔ لوگ اس سے اسی طرح خائف ہوتے ہیں جیسے بھیڑیے سے! کچھ لوگ اندر سے لومڑی ہوتے ہیں۔ ان کی چالاکی کا کوئی توڑ نہیں ہوتا۔ کچھ عظیم الجثہ افراد، دیکھنے میں طاقتور لگتے ہیں مگر اصل میں بکری ہوتے ہیں۔ ڈرپوک اور چُھپ جانے والے۔ فرض کیجیے قدرت ایسا نظام وجود میں لاتی کہ اس قسم کے افراد، دیکھنے والوں کو سانپ، بھیڑیا، لومڑی اور بکری نظر آتے تو کتنی آسانی ہوتی! لوگ ان سے بچتے۔ ان کے ساتھ کوئی معاملہ نہ کرتے۔ مگر قدرت نے یہ جانور ان کے اندر بٹھائے اور باہر سے انہیں انسان بنا دیا۔ کیوں؟ تاکہ فہم و فراست استعمال کر کے خلقِ خدا انہیں خود جانچے، ان سے اعراض کرے اور دوسروں کو متنبہ کرے کہ یہ انسان نہیں جانور ہیں، ان سے بچو! ایک وجہ ان جانوروں کو انسانی شکل عطا کرنے کی یہ بھی ہو سکتی ہے کہ قدرت ساری سزا اسی دنیا میں نہیں دینا چاہتی ہو گی۔ جس طرح شیطان کو اجازت دے دی گئی کہ وہ انسانوں کو گمراہ کرنے کی اپنی سی کوشش کرتا رہے اسی طرح ان جانوروں کو بھی کُھلا چھوڑ دیا گیا ۔ جس طرح شیطان کچھ لوگوں کو گمراہ کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے‘ اسی طرح یہ انسان نما جانور بھی کچھ لوگوں کو ڈسنے، کاٹنے، بھنبھوڑنے اور دھوکہ دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
بد ترین گالی ہمارے ہاں، کسی کو کتے سے تشبیہ دینا ہے۔ یہ اور بات کہ انسانی خون ارزاں ہوا تو ایک کتے نے دوسرے کتے کو تنبیہ کی کہ... بھاگ ورنہ آدمی کی موت مارا جائے گا!
اس نُکتے پر بھی غور فرمائیے کہ نافرمان گروہ کو بندر بن جانے کا حکم دیا گیا مگر یہ نہیں کہا گیا کہ کتے بن جاؤ۔ مالک کے ساتھ وفاداری میں کتا ضرب المثل ہے‘ مگر جب بھونکتا ہے، کاٹنے کو دوڑتا ہے، لالچ کرتا ہے تو ارذل الخلائق بن جاتا ہے۔ کتے کی بد قسمتی یہ ہے کہ بے مثال وفاداری اور مالک کی خاطر جان لڑا دینے کے باوجود دشنام کے حوالے سے کتا ہی سر فہرست ہے۔ فرنگی زبان میں بھی بُرے اور قابل نفرت شخص کو سَن آف بِچ ہی کہا جاتا ہے۔ لالچی شخص کو بھی دنیا کا کتا کہتے ہیں۔ عرفی نے رقیبوں کو کتوں سے تشبیہ دی۔
عرفی تو میندیش ز غوغائی رقیبان
آواز سگان کم نہ کند رزقِ گدا را
کہ رقیبوں کے شور و غوغا کی پروا نہ کرو اس لیے کہ کتوں کے بھونکنے سے گداگر کا رزق کم نہیں ہوتا۔
کتے کے بعد، دوسرے نمبر پر گدھا ہے جس سے نا انصافی ہو رہی ہے۔ ساری زندگی ڈنڈے کھاتا ہے، دولتی مارتا بھی ہے تو تنگ آ کر، خاموشی سے مالک کا بوجھ ڈھوتا ہے یہاں تک کہ بوڑھا ہو جاتا ہے، مگر ہر بے وقوف اور احمق کوگدھا کہا جاتا ہے۔ ہاں کچھ بد بخت ایسے ہوتے ہیں کہ انہیں گدھا کہہ کر گدھے سے معذرت کرنا پڑتی ہے۔ مثلا؎
ترا خر خواہم و گشتم پشیمان
کہ آن بیچارہ را بد نام کردم
تجھے گدھا کہہ کر پچھتا رہا ہوں کہ بیچارے گدھے کو مفت میں بد نام کیا۔ ایک زمانے میں یہ کہاوت بھی عام تھی: خراسانی! خرِ ثانی! نگیرد خوئے انسانی! بہ آسانی! کہ خراسانی، دوسرا گدھا ہے جو آسانی سے انسانی خُو نہیں پکڑتا! شیخ سعدی جیسے نیک بزرگ نے بھی گدھے کے ساتھ نا انصافی کی اور کتے کی طرف داری کی۔ ایک طرف کہتے ہیں:؎
خرِ عیسیٰ اگر بمکہ روَد/ چون بیاید ہنوز خر باشد
کہ عیسیٰ علیہ السلام کا گدھا اگر مکہ سے بھی ہو آئے تو گدھے کا گدھا ہی رہے گا۔ مگر دوسری طرف کہتے ہیں:؎
سَگ اَصْحابِ کَہْف روزے چَنْد
پئے نیکاں گِرِفْت و مُرْدَُم شُد
کہ اصحاب کہف کا کتا چند روز نیکو کاروں کے پیچھے چلا تو گویا آدمی ہو گیا۔ مقصد تو شیخ سعدی کا اچھی صحبت کی تلقین ہے مگر اس سارے چکر میں معصوم اور بے ضرر گدھے کے ساتھ زیادتی ہو گئی۔
جانور ہمیں گوشت، اون اور کھالیں تو مہیا کرتے ہیں، دودھ مکھن اور گھی تو ان کی بدولت ملتا ہے، سواری اور باربرداری کے کام تو آتے ہیں، چڑیا گھروں میں رونق کا باعث تو بنتے ہیں مگر یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے مزاج اور اخلاق و عادات کے حوالے سے بھی خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ کاش ہم سمجھ جائیں کہ ہمیں انسان بنایا گیا ہے تو انسان ہی رہنا چاہیے، سانپ، سگ، بھیڑیا، بچھو، لومڑی، اونٹ اور طوطا نہیں بننا چاہیے۔ یہ بھی دھیان رہے کہ کوئی اللہ والا ہمارے چہرے پر کوئی اور چہرہ نہ دیکھ لے۔