نیا سال! کون سا نیا سال؟؟

برہمن نے جھوٹ بولا۔ غالب سادہ دل تھے جھانسے میں آ گئے:
دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے
اور وہ جو ہاتھ دکھانے والے نے خواہش کی تھی وہ بھی حسرت میں تبدیل ہو گئی:
مرا ہاتھ دیکھ برہمنا! مرا یار مجھ سے ملے گا کب
ترے منہ سے نکلے خدا کرے اسی سال میں اسی ماہ میں
برہمن کے منہ سے نکلا بھی تو کیا! یہی کہ یار کو بھول جاؤ۔ جدائیاں ہیں اور لمبی! ہائے قمر جلالوی یاد آ گئے۔ انہیں دیکھا نہیں‘ سنا ہے۔ کس درد سے پڑھتے تھے۔ ہمارے لیے ہی تو کہا تھا:
یہ دردِ ہجر اور اس پر سحر نہیں ہوتی
کہیں اِدھر کی تو دنیا اُدھر نہیں ہوتی
کون سا نیا سال؟ ہمارے استاد ظہیر فتحپوری نے کہا تھا:
جگ میلا، جیون نوٹنکی، سُکھ جھولا
سب دھوکا ہے لیکن جو ہمیں جانا ہو
ہو گا نیا سال خوشیوں کا ایلچی دوسروں کے لیے! ہمارے لیے نہیں! جو سال بیتا ہے اس نے کون سے گھی کے چراغ جلائے ہمارے گھروں کی منڈیروں پر؟ کورونا تو عالمی آفت تھی۔ پوری دنیا پر آئی۔ ہم پر بھی۔ مگر کورونا نہ آتا تو تب ہم نے کون سا سنگا پور یا کوریا یا تھائی لینڈ بن جانا تھا۔
آہ! جو سال گزرا ہے اسے نعمتوں سے بہرہ ور کرنے کے لیے ہم نے کیا نہیں کیا۔ وعدے کرنے والوں کی حمایت کی اور سال ہا سال کی۔ کبھی جیالوں کی رنجش مول لی۔ کبھی متوالوں کا غضب جھیلا۔ دھرنے میں بیٹھنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو طنز کرنے والوں نے ممی، ڈیڈی، برگر کے القابات سے نوازا تو ان کا دفاع کیا۔ مخالفین کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ سب کو بھگت چکے ہیں تو خان صاحب کو بھی آزما لیجیے۔ ٹیلی ویژن پر مناظرے کیے۔ مگر یہ سال جو ہماری ہنسی اُڑاتا گزرا ہے، ویسا ہی رہا جیسے گزرے ہوئے سارے سال تھے‘ بلکہ بد تر! اب کے تو ہم احمقوں کو منہ کی کھانی پڑی۔ پرانے سال تو صرف منہ چڑا کر غروب ہوتے تھے‘ مگر یہ سال جو، اب افق پار اُترا ہے، منہ چڑانے کے ساتھ چپت بھی رسید کر گیا ہے۔ دھوکہ ہی دھوکہ۔ فریب ہی فریب ! دروغ گوئی میں یہ گزرا سال تاریخ کے سارے ریکارڈ توڑ گیا۔ سب کچھ وہی تھا۔ بوتل وہی تھی۔ دوا بھی اس میں وہی زائد از میعاد تھی‘ لیکن لیبل کا کیا کہنا! پُر کشش اور دیدہ زیب! اس گزرے سال کے ماتھے پر تبدیلی کا نام کھُدا تھا مگر ہر چیز فرسودہ تھی۔ وہی عشرت حسین صاحب! وہی عمر ایوب صاحب! وہی خسرو صاحب! وہی پندرہ بار آزمائے ہوئے شیخ صاحب۔ وہی آئی ایم ایف والے دوسرے شیخ صاحب! وہی جانے پہچانے چوہدری صاحب! وہی اپنے سواتی صاحب جو بقول ان کے اپنے، کئی سال جے یو آئی کی مالی ضروریات پوری کرتے رہے۔ وہی فروغ صاحب۔ وہی دیکھے بھالے فواد صاحب۔ وہی فہمیدہ صاحبہ! وہی زبیدہ بی بی! وہی ہماری اعوان برادری کے چشم و چراغ بابر صاحب! سب وہی تھے۔ ان سب کے ساتھ وہی تبدیلی آئی جو پہلے بھی ان کے ساتھ آتی ہی رہی۔ دوسری طرف، بچھڑنے والے سال کے دوران ہم بھی وہی تھے۔ پرانے والے! ہمیشہ والے! وہی افتادگان خاک! وہی کوچہ گرد مجبور بندے! وہی گرانی میں پستے، سفوف ہوتے صارف! وہی تھانوں کچہریوں میں دھول چاٹتے، اہلکاروں کی جیبوں میں پیسے ٹھونستے داد خواہ! وہی نوکر شاہی کی غلط انگریزی کے ڈسے ہوئے سرخ فیتے کے شکار سائل! وہی مقتل نما ہسپتالوں میں دھکے کھاتے رُلتے مریض! کاٹن تک نہیں ہوتی! دوا ہے تو ڈاکٹر غائب! ڈاکٹر ہے تو بیڈ ندارد! ہم دیہاتیوں نے تحصیل کی سطح کے ہسپتال بھگتے ہیں۔ پروردگار کی سوگند! قتل گاہیں ان سے بہتر ہوں گی۔ یہ ہسپتال نہیں، موت کی گھاٹیاں ہیں۔ اس سال بھی یہ اسی طرح وحشت بانٹتی رہیں! وہی شاہراہوں پر مرتے لوگ! وہی کچلتی، دھاڑتی ٹرالیاں، ٹریکٹر اور ڈمپر جن کے سٹیئرنگ کے پیچھے کھوپڑیوں کے مینار بنانے والے تاتاری بیٹھے ہوتے ہیں۔ تبدیلی کے ڈھنڈورچی ٹریفک تک نہ درست کر سکے۔ تھانہ کچہری ہسپتال تو دور کی بات ہے!
اس سال بھی کابینہ نصف سنچری سے اوپر ہی رہی! وعدہ سترہ ارکان کا تھا! اس سال بھی ہم، پی ٹی وی نہ دیکھنے والے ہر ماہ پینتیس روپے کا جگا ٹیکس، ہر بجلی کے بل کے ساتھ، انہیں دیتے رہے جن کے چہرے ڈھاٹوں سے ڈھکے ہوئے تھے۔ سارا سال یہ جملے، یہ للکارتے دھمکیاں دیتے جملے، کانوں میں گونجتے رہے... ''پی ٹی ہمارے پیسے پر چلتا ہے۔ آپ کو پتہ ہے پاکستانیو! ہر مہینے آپ کے بل سے پی ٹی وی کے لیے 35 روپے کٹتے ہیں اور ہر سال دس ارب روپے پی ٹی وی کو آپ دیتے ہیں۔ ہم دیتے ہیں! تو میں پی ٹی وی سے پوچھتا ہوں اور پی ٹی وی کا جو ایم ڈی ہے اس سے پوچھتا ہوں کہ آپ کو شرم نہیں آتی کہ آپ نون لیگ اور نواز شریف کے پتلے بنے ہوئے ہیں۔ ان کو پروجیکٹ کر رہے ہیں‘‘۔ یہ سال جو منہ چھپا کر، چلا گیا ہے، یہ سال بھی ہم سے ہر ماہ پینتیس روپے لیتا رہا۔ جاتے وقت اس کی جیب میں ہمارے دس ارب روپے تھے۔ گویا اس سال بھی پی ٹی وی کا ایم ڈی کسی نہ کسی کی پروجیکشن کرتا ہی رہا!
نئے سال کی مبارکباد سن سن کر ہنسی آتی ہے۔ کون سا نیا سال! خدا کے بندو! یہ اُسی سال کی توسیع ہے جو گزر گیا۔ اور جو گزر گیا، وہ اس سے پہلے والے سال کی توسیع تھا۔ ایک ہی سال ہے جو کئی سال سے ہمارے دن رات پر، ہمارے گھروں پر، ہماری قسمتوں پر محیط ہے! دلاور فگار کا لافانی مصرع ہے: حالاتِ حاضرہ کو کئی سال ہو گئے! ایک ہی رات ہے جو ہم پر محیط ہے! ایک افق سے دوسرے افق تک! ہماری پیدائشوں سے لے کر ہماری اموات تک! نئے سال کی خوشیاں تو ان کے لیے ہیں جو ہر حکومت میں، ہر کابینہ میں، سریر آرا ہوتے ہیں! ہر موسم میں ان کے سروں پر تاج ہوتے ہیں ! وزیر اعظم آفس کے بغلی کمروں میں بیٹھ کر اپنے ہی جیسے بیوروکریٹس کی لگامیں اپنی مرضی سے کھینچتے ہیں۔ انہیں حق حاصل ہے ایک دوسرے کو سالِ نو کی مبارک دینے کا! نیو ایئر نائٹ منانے کا! جشن برپا کرنے کا! رہے ہم! تو ہمارے لیے دسمبر کی آخری شام اور جنوری کی پہلی صبح میں کیا فرق ہے؟ وہی ٹھنڈے ٹھار گھروندے! وہی ٹھٹھرتے در و دیوار! گیس اور بجلی کے وہی روز افزوں نرخ! گھروں کو گرم کریں تو کیسے؟ نیا سال تو ان کا ہے جن کے کنالوں اور ایکڑوں پر محیط محلات میں گیس اور بجلی کے ہیٹر چوبیس گھنٹے چلتے ہیں۔ جن کے گھروں سے برقی رَو کبھی غائب نہیں ہوتی۔ جن کے لیے بجلی، گیس کے بل، کاغذ کے بے بضاعت پرزوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ جن کے سمندروں میں ان بلوں کی رقوم معمولی سا ارتعاش بھی نہیں پیدا کرتیں۔ جن کے لیے پٹرول اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں اضافہ ایک لطیفے سے زیادہ کچھ نہیں! انہیں نیا سال مبارک ہو! ہم ان پر قربان!
جو جانتا ہے، سو، جانتا ہے! جو نہیں جانتا وہ جان لے کہ اس دیار میں تقویمیں دو ہیں ! کیلنڈر دو قسم کے رائج ہیں! جنتریاں دو الگ الگ چل رہی ہیں! ایک میں سال، ہر سال، نیا پیرہن زیب تن کرتا ہے! زرق برق پیرہن! دوسرے میں سال، وہی رہتا ہے! پھٹا پرانا سال ! چیتھڑے اوڑھے ہوئے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں