سید اسعد گیلانی مرحوم کی بہو تھیں اور سید فاروق گیلانی مرحوم کی بیگم! مگر اپنی الگ پہچان رکھتی تھیں۔ ایک مضبوط شخصیت! ایک مستقل حیثیت! کوئی مسئلہ ہوتا، سیاسی یا فقہی، سماجی یا کوئی اور، اپنی رائے رکھتیں اور اپنا موقف! دلیل کے ساتھ اور دلیل کا اظہار خندہ پیشانی اور خوش اخلاقی کے ساتھ!
پرسوں جب فرزانہ بھابی شوہر کی پائنتی دفن ہو رہی تھیں، جب ان کا فرزند اور داماد، انہیں لحد میں اتار رہے تھے، جب سلیں جوڑی جا رہی تھیں، جب مٹی ڈالی جا رہی تھی، جب پھول چڑھائے جا رہے تھے، جب دعا مانگی جا رہی تھی، تو کالم نگار مسلسل سوچ رہا تھاکہ فاروق گیلانی نے مسکرا کر بیگم کا استقبال کیا ہوگا! اور بیگم نے بتایا ہوگا کہ آپ کے آجانے کے بعد آپ کے جلائے ہوئے چراغوں میں سے کوئی چراغ میں نے بجھنے نہ دیا۔ دستر خوان اسی طرح وسیع رہا۔ ہنڈیا چولہے سے کبھی نہ اتری۔ مہمان نوازی اسی طرح جاری رہی، بندہ پروری میں کمی نہ آئی۔ نمازوں کی قندیل روشن رہی۔ بچوں کو، ان کے کنبوں کو، بکھرنے نہ دیا۔ سب کو آپس میں مربوط رکھا۔ ان کے سارے فرائض اسی طرح ادا کرتی رہی جیسے آپ کی موجودگی میں ادا ہوتے تھے۔
یہ ایک مثالی جوڑا تھا۔ ہر وقت ساتھ رہنے والا۔ کراچی یا لاہور کا ایک دن کا بھی دورہ ہوتا تو بیگم ساتھ ہوتیں۔ بیرون ملک جاتے تو ساتھ لے کر جاتے۔ کئی عشرے شام کو اسلام آباد کلب میں بیٹھنے کا معمول نبھایا۔ بھابی تھکی ہوئی ہوں، جماہیاں آرہی ہوں، مگر جب تک میاں بزم جمائے ہیں، بیٹھی ہیں۔ چھ برس کینسر سے لڑیں! وہ بھی شوہر کے کوچ کے بعد۔ ایسی بے مثال بہادری سے مقابلہ کیاکہ موذی مرض کو کئی بار پسپا ہونا پڑا۔ جب بھی ذرا سی ہمت پیدا ہوتی، اُٹھ بیٹھتیں اور زندگی کے معمولات شروع کر دیتیں۔ وہی بھرپور سوشل لائف! وہی ہفتے میں کئی روزے، تہجد تو خیر کبھی چھوٹی ہی نہ تھی۔ دو اڑھائی برس ہی تو ہوئے ہوں گے جب ترکی کے سفر میں ہمارے ساتھ تھیں۔ سعادت مند بیٹیوں اور بیٹے نے وِیل چیئر ساتھ رکھی مگر ایک بار بھی اس پر نہ بیٹھیں۔ سارے شہروں میں گئیں۔ سارے پروگرام اٹینڈ کیے۔ زبردست مدافعت تھی اور یہ سب قوتِ ارادی کا کمال تھا۔ پھر صحت کا گراف بتدریج گرنے لگا۔ فاطمہ نے ملازمت کو خیرباد کہہ دیا کہ تیمارداری میں رخنہ نہ پڑے۔ مریم نے طویل رخصت لے لی۔ عائشہ نے شب و روز چاکری کی۔ عمر اور اس کی نئی نویلی دلہن رات دن چوکس رہے مگر ہونی کو کون روکتا۔ رات کا آخری پہر تھا جب کھڑکی سے موت اندر داخل ہوئی اور سراپا عفت خاتون کو لے کر دروازے سے باہر نکل گئی۔ بے کنار پنہائیوں کی طرف! جہاں برزخ کی وسعتیں ہیں! اور موت بیچاری کرے بھی کیا! وہ تو خود مجبور ہے! مجبور اور بے بس! حکم کی غلام! وہ تو خود مخلوق ہے! الَّذِی خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاۃَ۔ فرائض سرانجام دے چکے گی تو روایت ہے کہ مینڈھے کی طرح ذبح کر دی جائے گی۔بیٹیاں، بیٹے اور ان کے کنبے اینٹوں کی مثال ہوتے ہیں اور ماں گارا! یہ گارا ان اینٹوں کو الگ الگ نہیں ہونے دیتا۔ جوڑ کر رکھتا ہے۔ اکثر و بیشتر یہ ماں ہے جو خاندان کو مجتمع رکھتی ہے۔ سب بچوں کو اپنے پروں کے نیچے! پھر جب رخصت ہوتی ہے تو قسمت کا کھیل شروع ہو جاتا ہے۔ قسمت اچھی ہو تو بچے اتفاق کو قائم رکھتے ہیں۔ اس ورثے کی حفاظت کرتے ہیں۔ سب سے بڑی بہن یا سب سے بڑے بھائی کو خاندان کا مرکز تسلیم کر لیتے ہیں اور گوند کی طرح جڑے رہتے ہیں۔ ایسا نہ ہو تو پھر وہی ہوتا ہے جو احمد مشتاق نے کہا تھا:
کیا زمانہ تھا کہ سب ساتھ رہا کرتے تھے
اور اب کوئی کہاں، کوئی کہاں رہتا ہے
ہم عجیب لوگ ہیں۔ آئے دن کاندھوں پر میتیں اٹھاتے ہیں۔ جنازے پڑھتے ہیں۔ اپنے ہاتھوں سے مٹھیاں بھر بھر مٹی ڈالتے ہیں۔ ہمارے سامنے۔ چلتے پھرتے لوگ، زندہ، ہنستے بستے کھیلتے لوگ، آن کی آن میں نظروں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غائب ہو جاتے ہیں۔ پھر وہ ایک لمحے کے ہزارویں حصے کے لیے بھی میسر نہیں آتے۔
کتنے تارے چمک چمک ڈوبے
کتنے بادل برس برس گزرے!
کتنی راتیں تڑپ تڑپ کاٹیں!
کس قدر دن ترس ترس گزرے
وہ نہ پھر لوٹے، مدتیں بیتیں
انہیں دیکھے ہوئے برس گزرے
اب تو یاد اُن کی دل میں آتی ہے
جیسے بجلی بہ نبضِ خس گزرے
ابدی خامشی کی آندھی میں
جیسے کوئی پرِ مگس گزرے
دور سے راہرو کے کانوں میں
جس طرح نالۂ جرس گزرے
اس سب کچھ کے باوجود ہم میں سے کم ہیں، بہت ہی کم، جو یہ سوچنے کے لیے تیار ہوں کہ کل کلاں یہ لِٹایا جانے والا میں بھی ہو سکتا ہوں۔ یہ سلیں مجھ پر بھی رکھی جائیں گی۔ یہ مٹی مجھ پر بھی ڈالی جائے گی۔ ہم اپنے رویوں میں اس حوالے سے کوئی تبدیلی نہیں لاتے۔ جن کے حقوق روندے ہیں، ان سے معافی نہیں مانگتے۔ دادوستد کے معاملات درست نہیں کرتے۔ رعونت کو خیرباد نہیں کہتے۔ نخوت سے پیچھا نہیں چھڑاتے۔ جُوع الارض اسی طرح ہمیں چمٹی رہتی ہے۔ ملبوسات، الیکٹرانکس، موبائلوں کے تازہ ترین شہکار، ٹیلی ویژن سیٹ، غیر ضروری فرنیچر، ضرورت سے کئی گنا بڑی دمکتی رہائش گاہیں، جہازی سائز کی گاڑیاں، اکل و شرب میں اسراف! یہاں تک کہ تبذیر کی حد بھی پھلانگ جاتے ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ شکر بھی نہیں ادا کرتے۔ شکر ادا کرنے کا ایک اسلوب یہ بھی ہے کہ محروموں کو حصہ دار بنایا جائے۔ مالی لحاظ سے کمتر اقربا کی دیکھ بھال کی جائے۔ یہی تو صلہ رحمی ہے۔ امیر اور مقتَدر اعزّہ کے آگے پیچھے تو سب پھرتے ہیں۔ دوسرا معافی مانگے تو انا کو گنّے کا رس ملتا ہے۔ ڈکار آتا ہے اور تعلقات بحال ہو جاتے ہیں۔ صلہ رحمی تو یہ ہے کہ خود قدم آگے بڑھایا جائے۔ اس طرح جینا چاہیے کہ کل جنازے کی خبر سن کر کسی کے دل میں کوئی غیر خوشگوار یاد نہ ابھرے۔
گورستان بھرتے جا رہے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت کا اولین شہرِ خاموشاں، جو زیرو پوائنٹ کی بغل میں واقع ہے، بھر گیا تو ایک اور وسیع و عریض میدان اس مقصد کے لیے مختص کیا گیا جو پولیس لائن اور اسلامی یونیورسٹی کے درمیان واقع ہے۔ یہاں بھی اس تیزی سے قبروں کی تعداد میں اضافہ ہوا کہ لگتا ہے بہت جلد اس بستی میں کوئی نیا مکین نہیں سما سکے گا۔ دوسری طرف ناجائز قبضوں کی خبروں سے اخبارات بھرے پڑے ہیں۔ ایک ایک مربع گز کے لیے جھگڑے ہو رہے ہیں۔ ایک ایک پگڈنڈی کی خاطر سالہا سال مقدمے بازیاں ہوتی ہیں۔ ہر نئی نسل ان مقدموں کو سنبھال لیتی ہے اور پوری دیانت کے ساتھ اگلی نسل کو پہنچاتی ہے۔ عدالتوں کے اندر قتل ہوتے ہیں۔ قبضے دلوانے کیلئے افسروں کے تبادلوں پر تبادلے صادر کیے جاتے ہیں۔ انجام کار اس بستی میں آنا پڑتا ہے جہاں 3x6 کے پلاٹ سے بڑا کوئی پلاٹ نہیں۔ کوئی نہیں کہتا کہ مجھے ایک سے زیادہ پلاٹ، یا کئی پلاٹ، یا بڑے سائز کا پلاٹ چاہیے۔ منظور شدہ نقشے میں بھی کوئی ہیر پھیر نہیں کرتا، وہی ازلی نقشہ! لحد! اس پر سلیں! سلوں پر گارا! اوپر مٹی! مٹی اور مزید مٹی! ظہیر کاشمیری کا پرانا شعر ہمیشہ نیا رہتا ہے:
لوحِ مزار دیکھ کے جی دنگ رہ گیا
ہر ایک سر کے ساتھ فقط سنگ رہ گیا