چانکیہ کوٹلیہ ٹیکسلا میں پیدا ہوا۔ یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے تین ساڑھے تین سو سال پہلے کی بات ہے۔ اس زمانے میں ٹیکسلا کی یونیورسٹی کرۂ ارض کی چند بڑی یونیورسٹیوں میں سے ایک تھی۔ بڑے بڑے فاضل اساتذہ اور اپنے عہد کے مانے ہوئے سکالر یہاں پڑھاتے تھے۔ چانکیہ نے بھی یہاں پڑھایا۔ پھر وہ اس زمانے کے عظیم بادشاہ چندر گپت موریہ کا مشیر اور وزیر اعظم رہا۔ کہا جاتا ہے کہ موریہ سلطنت کے قیام اور عظمت کی پشت پر چانکیہ ہی کی دانش و فراست تھی۔
چانکیہ کی شہرت کی اصل وجہ اس کی شہرۂ آفاق تصنیف ''ارتھ شاستر‘‘ ہے۔ یہ کتاب کیا ہے ایک انسائیکلو پیڈیا ہے۔ قانون‘ سیاست، فنِ حکمرانی ، سفارت کاری، سب کچھ اس میں موجود ہے۔ چانکیہ کی بد قسمتی کہ اس کی مجموعی شہرت ایک چالاک اور زمانہ ساز دانشور کی ہے۔ اس کا نام آتے ہی ذہن فریب کاری، عیاری اور حیلہ گری کی طرف چلا جاتا ہے۔ مثلاً خارجہ امور کے حوالے سے اس کا نظریہ یہ ہے کہ پڑوسی ملکوں کو دشمن سمجھو‘ اور پڑوسی ملکوں کے پڑوسیوں کو دوست جانو یعنی دشمن کا دشمن تمہارا ساتھی ہونا چاہیے۔
چانکیہ کو وہیں چھوڑ کر ہم زمانی جست بھرتے ہیں اور پندرہویں صدی عیسوی کے بہت بڑے دانشور میکیاولی سے آ ملتے ہیں۔ میکیاولی اٹلی کا تھا۔ اس کا زمانہ 1469ء سے 1527ء تک کا ہے۔ اس زمانے کا اٹلی مختلف شہری ریاستوں (City States) میں بٹا ہوا تھا۔ ان میں فلارنس کی ریاست ممتاز ترین تھی۔ تحریک احیائے علوم کا آغاز وہیں سے ہوا۔ یوں فلارنس یورپ کا تہذیبی مرکز بن گیا۔ میکیاولی نے فلارنس کے لیے کئی سفارتی اور عسکری خدمات سرانجام دیں۔ وہ بہت بڑا عہدیدار تھا؛ تاہم اس کی شہرت کی اصل وجہ یہ نہیں۔ بنیادی طور پر وہ ادیب اور مصنف تھا۔ یہ اس کی عہد ساز تصنیف ''دی پرنس‘‘ ہے جس نے اسے آج تک زندہ رکھا ہوا ہے۔ اقتدار کو دوام بخشنے کی تراکیب سے لے کر عوام اور دشمن کو کنٹرول کرنے تک، ہر حکمت عملی اس میں موجود ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ذاتی اور پبلک اخلاقیات میں فرق ہونا چاہیے۔ حکمران سے عوام محبت کریں یا نہ کریں، ڈریں ضرور! اقتدار قائم رکھنے کے لیے ہر ممکن اقدام کرنا چاہیے۔ مثلاً طاقت کا بے مہار استعمال! فریب کاری! خاندانوں کے خاندان بھی اجاڑنے پڑیں تو اجاڑ دینے چاہئیں! سیاسی حریفوں کو ہر حال میں ختم کر دینا چاہیے۔ عوام مدافعت کریں تو ان کو بھی تہس نہس کرنا ہوگا۔ ہر اس شخص کو ختم کرنا لازم ہے جو حکومت کو چیلنج کر سکتا ہے۔ دروغ گوئی، مکاری، چالاکی، دغا بازی، منافقت، جہاں بھی ضرورت پڑے، جب بھی پڑے، بلا جھجک استعمال کر دینا چاہیے۔ بڑے بڑے بادشاہ، صدر، وزرائے اعظم اس کتاب کو اپنے تکیوں کے نیچے رکھتے رہے اور اس سے ''رہنمائی‘‘ لیتے رہے ہیں۔
حافظ شیرازی نے کہا تھا:؎
غمِ غریبی و غربت چو بر نمی تابم
بشہرِ خود روَم و شہریارِ خود باشم
بے وطنی اور مسافرت سے تنگ آجاؤں تو اپنے شہر کا رخ کرتا ہوں اور اپنا مالک خود بنتا ہوں۔
میرا بھی دل گھبراتا ہے تو ٹیکسلا کے کھنڈرات کا رخ کرتا ہوں۔ کیسی کیسی بستیاں تھیں اور شہر! کیسے کیسے لوگ تھے، ذہین، فطین، خوبصورت، خلّاق! نقاشی، سنگ تراشی، شاعری، فلسفہ اور سیاسیات کے میدانوں میں انمٹ نقوش چھوڑنے والے۔ کھنڈر کھنڈر ٹیکسلا میں پھرتا تھا اور یہی سوچتا تھا! اس دن اتفاق ایسا تھا کہ کوئی اور سیاح وہاں نہیں تھا۔ ایک سٹوپا کے پاس سے گزرا تو یوں لگا جیسے کسی نے سسکی بھری ہو! دوسری بار یہ سسکی واضح طور پر سنائی دی۔ آواز سٹوپا کی پچھلی طرف سے آرہی تھی۔ تجسس درپے ہوا۔ پچھلی طرف گیا تو مٹی کا ایک بڑا ٹیلہ تھا جیسے کہ اس لینڈ سکیپ میں ہوتے ہیں۔ ٹیلے کے دامن میں، دو بڑے پتھر پڑے تھے، ہموار سلوں جیسے! انہیں ہموار سلوں پر، دو افراد، ایک دوسرے سے بغل گیر، روتے تھے، بلکتے تھے اور سسکیاں لیتے تھے۔ حیرت اور خوف کے ملے جلے جذبات سے میرے پاؤں جہاں تھے، وہیں جم گئے۔ کوئی پانچ منٹ اسی عالم میں گزرے ہوں گے، پھر یوں لگا جیسے ان دو، ایک دوسرے سے بغل گیر، آدمیوں کو احساس ہوا کہ یہاں کوئی تیسرا بھی ہے، تو وہ ایک دوسرے سے الگ ہوئے۔ ان میں سے ایک کا سر مُنڈا ہوا تھا اور بالوں کی لمبی لٹ گردن سے ہوتی، بازو اور سینے کے درمیان لٹک رہی تھی۔ گیروے رنگ کا لمبا سا کرتا اس نے پہنا ہوا تھا۔ پاؤں میں لکڑی کی کھڑاؤں تھی۔ ایک بجلی سی میرے ذہن میں کوندی اور ایک ثانیے میں اُسے میں نے پہچان لیا۔ یا وحشت! یہ چانکیہ تھا! چانکیہ کوٹلیہ! ارتھ شاستر کا مصنف!
میں نے ادب اور عقیدت سے اس کے گھٹنے چھوئے اور پوچھا کہ اے عظیم فلاسفر! اے چالاکیوں اور حیلہ سازیوں کے ماہر! مانا کہ یہ ٹیکسلا تمہاری جنم بھومی ہے اور یہیں تم نے پڑھایا مگر یہ آہ و بکا کیسی؟ یہ دو جہاں میں کون سا غم کھا گیا تمہیں؟ اور یہ تمہارے ساتھ، صدیوں قدیم اسلوب کا فرنگی لباس پہنے کون ہے جو تمہاری ہی طرح نالہ و زاری کر رہا ہے۔ چانکیہ نے بتایا کہ یہ اس کا پرانا ہم نفس اور ہم سخن میکیاولی ہے! میں اس کے بھی گھٹنوں کو چھو کر ملا۔ پھر میں نے ان دونوں عبقریوں کی خدمت میں ادب سے کہا کہ ساتھ ہی، ان ٹیلوں سے نیچے اتر کر، چائے کا ایک چھپر ریستوران ہے‘ وہاں نہ بیٹھ جائیں؟ چانکیہ نے میکیاولی کی طرف استفہامیہ نظروں سے دیکھا۔ اس نے اثبات میں سر ہلایا اور ہم تینوں اس ڈھابے پر جا بیٹھے۔ چائے کے ساتھ میں نے کیک رس منگائے‘ مگر چانکیہ نے کہا کہ برخوردار! تم نے ہماری سسکیاں تو سُنی ہی ہیں، ہم نے کیا کھانا ہے! بھوک ختم ہو چکی ہے! نیند کو ترس گئے ہیں! ناکامی اور ذلت کا احساس ہر وقت کچوکے دیتا ہے۔ پھر وہ دونوں چائے کے گھونٹ بھرنے لگے اور دور افق کی جانب خلا میں دیکھنے لگے۔ تھوڑی دیر بعد میکیاولی مجھ سے مخاطب ہوا! ''میرے بچے! صدیوں سے چالاکی، حیلہ گری، فریب کاری اور دروغ گوئی پر ہماری اجارہ داری تھی۔ ہر حکمران ان مقاصد کے لیے ہماری شاگردی اختیار کرتا تھا، مگر اِس زمانے میں ایک ایسا بادشاہ تخت نشین ہوا ہے کہ ہماری ہوشیاری اس کے مقابلے میں ہیچ ہے! اس نے ایسا دامِ تزویر بچھایا ہے کہ مرد و زن اس میں پھنس کر رہ گئے ہیں! کوئی وعدہ پورا نہیں کرتا مگر دعویٰ مسلسل یہی کرتا ہے کہ سب کچھ کر رہا ہے! جھوٹ صدقِ دل سے بولتا ہے۔ یو ٹرن رات دن لیتا ہے۔ عوام تڑپ رہے ہیں، گرانی انہیں ہڑپ کرنے کو ہے! مگر بادشاہ صرف دربار لگاتا ہے اور اپنے حاشیہ نشینوں اور کاسہ لیسوں سے لچھے دار خطاب کرتا ہے! ہر ناکامی کو دوسروں کے سر ڈالنے میں ایسا یدِ طْولیٰ رکھتا ہے کہ ہم دونوں سر پیٹتے رہ جاتے ہیں! دشمن کی مذمت اس تواتر سے کرتا ہے کہ اور کچھ اسے سوجھتا ہی نہیں! جس فن پر صدیوں سے ہماری اجارہ داری تھی، اس میں ہم طفلانِ مکتب ہو کر رہ گئے ہیں! اب تو ایک ہی کسر باقی ہے کہ وہ ایک کتاب بھی تصنیف کر ڈالے جس کے سامنے ہماری 'ارتھ شاستر‘ اور 'دی پرنس‘ الف بے پے والے قاعدے سے بھی کمتر لگیں ‘‘۔
میکیاولی نے یہ کہہ کر چائے کا خالی کپ لکڑی کی کھردری میز پر رکھا اور کھنڈرات کی طرف چل پڑا۔ چانکیہ نے اس کی پیروی کی! میں بوجھل قدموں سے ڈھابے والے کی طرف بڑھا کہ چائے کے دام ادا کروں! چانکیہ اور میکیاولی یقیناً ٹرمپ کا ذکر کر رہے تھے۔ انہیں معلوم ہی نہ تھا کہ وہ اب بادشاہ نہیں رہا!