گفتگوکے لحاظ سے لوگوں کی تین اقسام ہیں:پہلی قسم وہ ہے جن سے بات چیت کرنے کے لیے کچوکے دینے پڑتے ہیں۔ مشکل سے کسی بات کا جواب دیتے ہیں جو اکثر و بیشتر نامکمل ہوتا ہے۔ اگر پوچھیں کہ ملازمت کہاں کر رہے ہیں؟ تو جواب دیں گے دفتر میں۔ علاج کس سے کرا رہے ہیں ؟ ڈاکٹر سے۔بیٹے کی شادی کہاں کی ہے؟ لڑکی والوں کے ہاں۔ کئی ضمنی سوال کرنے پڑتے ہیں تب جا کر مطلوبہ انفارمیشن ہاتھ آتی ہے۔ ایسی کفایت شعار گفتگو کا عارضہ بعض نامعقول بچوں کو بھی ہوتا ہے۔ آج سکول میں کیسا دن گزرا ؟ ٹھیک گزرا۔ تمہارے دوست کی برتھ ڈے پارٹی کیسی رہی ؟ اچھی رہی۔ کبھی نہیں بتائیں گے کہ کتنے دوست نہیں آسکے‘ کھانے میں کیا کیا تھا‘ کس نے گیت گایا یاکیا کیا کھیل تماشا ہوا۔ ماں باپ منہ کی کھا کر چپ ہو رہتے ہیں اور دوسرے بچے سے بات چیت شروع کر دیتے ہیں جو ایک ایک بات تفصیل سے بتاتا ہے یا بتاتی ہے !
دوسری قسم اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہے‘ بلکہ اذیت رساں! یہ وہ حضرات ہیں جو اپنی آواز سننے کے شائق ہوتے ہیں! بہت زیادہ شائق! یہ مونو لاگ کرتے ہیں یعنی خود کلامی ! ان سے بات شروع کرنا اوکھلی میں سر دینے کے برابر ہوتا ہے۔ مسلسل بولتے جاتے ہیں۔ موضوع سے موضوع نکلتا جاتا ہے۔ انہیں کچھ بتانا یا کوئی ضروری اطلاع دینا آسان نہیں۔بات کاٹنا تقریباًناممکن ! یک طرفہ گفتگو کے دوران اتنا وقفہ بھی نہیں دیتے کہ آپ درمیان میں کود پڑیں ! ایک بات خاص طور پر نوٹ کیجیے‘ مونو لاگ کرنے والے ایسے افراد اپنا ذکر‘ اپنی تعریف‘ بہت کرتے ہیں ! سبب یہ ہے کہ ان کی معلومات حد درجہ کم ہوتی ہیں۔ بہت سی چیزوں کا‘ بہت سے حالات و واقعات کا انہیں علم ہی نہیں ہوتا۔ دوسرے کی بات سنیں گے تو کچھ جانیں گے۔ سب سے زیادہ علم ایسے لوگ اپنی ذات کے بارے میں رکھتے ہیں اسی لیے اپنی ذات ہی کوموضوع بناتے ہیں۔ موت ہو یا شادی‘ ایسے حضرات سامعین کو مالِ غنیمت گردانتے ہیں اور ان پر پل پڑتے ہیں۔انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ لوگوں کو ان کی ذات میں کوئی دلچسپی ہے‘ نہ ہوسکتی ہے۔ چند دن پہلے ہی ایک غم زدہ گھر میں بیٹھے تھے۔ مرحومہ کے بارے میں باتیں ہو رہی تھیں۔سوئے اتفاق سے ایک صاحب جو خود کلامی کے مریض تھے‘ وہاں موجود تھے۔ آغاز اپنے مونو لاگ کا انہوں نے مرحومہ کے ذکر سے کیا مگر چند جملوں کے بعد اصل موضوع پر آگئے۔ اپنی ذہانت‘اپنی امارت‘ اپنی فتوحات ! اپنی جرأت‘ اپنی اولاد! بے بس سامعین کے ناقص علم میں انہوں نے خاطر خواہ اضافہ کیا مثلاً یہ کہ وہ رات کو تہجد کے لیے اُٹھتے ہیں۔ یہ کہ ان کے زرعی فارم کا رقبہ اتنا ہے اور یہ کہ ان کے شہر والے مکان میں اتنی خواب گاہیں ہیں۔ان کے جانے کے بعد سامعین میں سے جو حضرات ان کے ماضی سے آگاہ تھے‘ انہوں نے ان کی خاندانی 'امارت‘ سے خوب خوب پردے اٹھائے! اگر وہ اپنی ذات کے بارے میں طویل لیکچر نہ دیتے تو یوں بے نقاب نہ ہوتے۔ ایک المیہ ایسے حضرات کے ساتھ یہ پیش آتا ہے کہ لوگ باگ ان سے کتراتے ہیں۔پوری کوشش ہوتی ہے کہ سابقہ پڑے نہ سامنا ہو‘ پھنس گئے تو آدھ گھنٹے کی سمع خراشی تو کہیں نہیں گئی۔ کچھ اپنی ذات کو تو موضوع نہیں بناتے مگر کسی واقعے کی جزئیات اس قدر تفصیل سے سناتے ہیں کہ سننے والوں کا صبر چھلکنے لگتا ہے۔ بہت عرصہ گزرا ہم کچھ رفقائے کار ایک سینئر کولیگ کے والد کی وفات پر تعزیت کے لیے گئے۔ انہوں نے رحلت کے سفر کا حال اتنی باریک تفصیلات کے ساتھ سنایا کہ پورا ایک گھنٹہ گزر گیا یہاں تک کہ واضح طور پر سب کو خجالت محسوس ہونے لگی۔
اب منطقی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس خود کلامی کی یا طولِ کلام کی وجہ کیا ہے؟ میر صاحب اپنے بارے میں تو بتا گئے ؎
عیبِ طولِ کلام مت کریو
کیا کروں میں سخن سے خوگر تھا
مگر مسئلہ تو اُن حضرات کا ہے جو سخن سے خوگر بھی نہیں اور طولِ کلام کا عیب بھی رکھتے ہیں۔ ایک وجہ تو نرگسیت ہے! یعنی خودپسندی‘ اپنے آپ سے محبت ! اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر گرداننا۔ اپنے آپ کو غیر معمولی سمجھنا۔ دو نمایاں خصوصیات اس نفسیاتی مرض کی یہ ہیں کہ ایک تو نرگسیت میں مبتلا انسان تپاک سے خالی ہوتا ہے۔ دو طرفہ تعلقات میں ہمیشہ سردمہر۔ دوسرے‘ وہ خود غرض بھی ہوتا ہے۔ نرگسیت کا انانیت سے کیا تعلق ہے ؟ اس پر ماہرین نفسیات نے کافی چاندماری کی ہے اور سر مارا ہے۔ نرگسیت پر کتابوں کی کتابیں تصنیف کی گئی ہیں۔ اصل مشکل یہ ہے کہ ایسے افراد اپنی اس بیماری سے ناآشنا ہوتے ہیں اور علاج کے لیے ماہر نفسیات کے پاس نہیں جاتے! کوئی توجہ دلانے کا خطرہ مول لے تب بھی قائل ہو جانا معجزہ ہی ہوتا ہے۔
مگر بہت زیادہ بولنے والے‘ جو نرگسیت کا شکار نہیں‘ ان کا کیا علاج ہے؟ مثلاًانہی صاحب کی مثال لے لیجیے جو اپنے والد کی رحلت کا حال ایک گھنٹہ بتاتے رہے! یہی کہا جا سکتا ہے کہ ایسے لوگ دوسروں کے جذبات سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ انہیں مطلق پروا نہیں کہ دوسرا بیزار ہو رہا ہے یا ممکن ہے اس نے کسی کام سے جانا ہو۔ انہیں ایک ہی دھُن ہے کہ وہ گفتگو کرتے رہیں۔ اپنی آواز انہیں سنائی دیتی رہے ! اب ایسا فرد نارمل تو نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے بھی نفسیات میں کوئی علاج ضرور ہونا چاہیے!
سو سوالوں کا ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر کوئی لیڈر ہی نرگسیت کا شکار ہو تو کیا وہ قوم یا ملک کی کشتی کنارے لگا سکتا ہے ؟ پھر اگر لیڈر ایسا ہو جو طولِ کلام کا بھی عادی ہو اور نرگسیت کا بھی مریض ہو تو اس دو آتشہ کا انجام کیا ہو گا ؟ اس کا اپنا انجام کیا ہو گا ؟ اور اُس ملک کا انجام کیا ہو گا جس کی وہ قیادت کر رہا ہے ؟ اگر وہ لمبی لمبی تقریریں کرتا رہے اور اپنے ہی کارنامے سناتا رہے تو کیا اُس کے پاس تعمیری منصوبہ بندی کا دماغ ہو گا ؟ قائد اعظم کی مثال لے لیجیے۔ جس جدو جہد سے انہوں نے پاکستان کا مطالبہ منوایا اور جن شدید مشکلات کا سامنا کیا‘ ان سے کون انکار کر سکتا تھا‘ مگر چودہ اگست 1947 ء سے لے کر زندگی کے آخری لمحے تک ایک بار بھی انہوں نے یہ نہیں کہا کہ میں نے اتنی عظیم کامیابی حاصل کی اور یہ کہ مجھے بہت زیادہ جدو جہد کرنا پڑی ! عصر ِحاضر کی کامیاب ترین حکمران‘ انگیلا میرکل‘ جو سولہ سال سے جرمنی کی سربراہ ہیں‘ بہت کم بولتی ہیں۔ وہ دوسروں کی بات زیادہ سنتی ہیں۔ یہ کالم نگار ہاورڈ گزٹ کا مطالعہ کر رہا تھا۔ انگیلا میرکل کے متعلق لکھا ہوا ایک فقرہ جیسے ذہن پر کندہ ہو گیا:She does everything possible not to talk about herself(وہ ہر ممکن کوشش کرتی ہے کہ اپنے بارے میں کوئی بات نہ کرے )۔
ماہرینِ نفسیات یہ بھی کہتے ہیں کہ نرگسیت زدہ لیڈر کو اُس وقت قیادت سنبھالنے کا موقعہ ملتا ہے جب لیڈرشپ کا فقدان ہو۔ اور ہاں ! تیسری قسم ایسے افراد پر مشتمل ہے جن سے گفتگو کر کے آپ کو مسرت حاصل ہوتی ہے۔ جو صرف سناتے نہیں‘ سُنتے بھی ہیں !
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں !