سنتا جا شرماتا جا!

یہ جو قانون ہے ''بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کو کھا جاتی ہیں‘‘ اس کا درست ترین نفاذ اگر دیکھنا ہے تو پاکستان میں دیکھیے۔
کوئٹہ میں ایک بڑی مچھلی، فُل سپیڈ پر پجارو چلاتی ہوئی آئی۔ آگے بڑا چوک تھا۔ چوک کے درمیان ٹریفک کا سپاہی کھڑا، ڈیوٹی دے رہا تھا۔ پجارو تیر کی طرح آئی اور اس چھوٹی مچھلی کو روندتی ہوئی گزر گئی۔ اب یہ معاملہ ایسا تھا کہ اس میں مدعی ریاست تھی کیونکہ چھوٹی مچھلی ریاست کی طرف سے اپنے فرائض سرانجام دے رہی تھی‘ گویا ریاست کی نمائندہ تھی‘ مگر مسئلہ سائز کا تھا‘ یعنی حجم کا۔ جب قانون یہ ہے کہ بڑی مچھلی نے چھوٹی مچھلی کو کھانا ہے تو کون سی حکومت ؟ کہاں کی ریاست؟ بڑی مچھلی کو کچھ دن کے لیے محبوس رکھا گیا۔ اس کے بعد پھر وہی کچھ ہوا جو ہوتا آیا ہے!
اس کے بعد وہی مچھلی جو کوئٹہ میں چھوٹی تھی، وفاقی دارالحکومت میں بڑی مچھلی بن کر ظاہر ہوئی۔ پولیس کے چار اہلکاروں نے ایک چھوٹی مچھلی کو درجنوں گولیوں سے بھون ڈالا۔ کچھ دن میڈیا میں اس قتلِ عمد کا چرچا رہا۔ اب سناٹا ہے۔ زیادہ امکان یہ ہے کہ سناٹا ہی رہے گا۔ چھوٹی مچھلی کا ذکر تک غائب ہو جائے گا۔ کسی نے اقوام متحدہ کے حوالے سے زبردست فارمولا ایجاد کیا ہے۔ اگر معاملہ یعنی ایشو دو چھوٹے ملکوں کے درمیان ہو تو ایشو غائب ہو جاتا ہے۔ اگر جھگڑا دو بڑے ملکوں کے درمیان ہو تو اقوام متحدہ خود غائب ہو جاتی ہے۔ اور اگر جھگڑا بڑے ملک اور چھوٹے ملک کے درمیان ہو تو چھوٹا ملک غائب ہو جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح یہاں چھوٹی مچھلی، جو بھی ہو، غائب ہو جاتی ہے۔ ہاں! دارالحکومت والے واقعہ میں ایک نئی بات یہ ہوئی کہ جناب وزیر اعظم نے غائب ہونے والی چھوٹی مچھلی کے والد کو اپنے حضور طلب کیا۔ سامنے بٹھایا اور تعزیت کی۔ نہ جانے شاعر کون ہے مگر شعر خوب کہہ گیا ہے:
وہ شہریار بہت نرم دل تھا میرے لیے
چبھو کے نیزہ زمیں سے اٹھا لیا مجھ کو
پھر ایک اور بڑی مچھلی کی پروٹوکول گاڑیوں کے قافلے نے چار چھوٹی مچھلیوں کو کھا لیا۔ یہ چاروں چھوٹی مچھلیاں ایبٹ آباد سے نوکری کے لیے انٹرویو دینے آئی تھیں۔ چونکہ مچھلی بڑی تھی اس لیے دھول اتنی اڑائی گئی کہ کسی کو صاف معلوم نہ ہو سکے کہ گاڑی ڈرائیور چلا رہا تھا یا صاحبزادہ یا کوئی اور۔ ضمانت قبل از گرفتاری البتہ فوراً ہو گئی۔ شاہ زیب خان، نقیب اللہ سب چھوٹی مچھلیاں تھیں۔ کون کہتا ہے کہ یہاں قانون کی حکومت نہیں۔ خدا کے بندو! قانون ہی کی تو حکومت ہے۔ قانون یہ ہے کہ بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھائے گی۔ اس پر پوری طرح عمل ہو رہا ہے۔
تعداد طرفین میں سے کسی کی بھی کم یا زیادہ ہو سکتی ہے۔ چار بڑی مچھلیاں ایک چھوٹی مچھلی کو، یا ایک بڑی مچھلی چار چھوٹی مچھلیوں کو کھا سکتی ہے۔ مگر حال ہی میں ایک بڑی مچھلی چھ سو چھوٹی مچھلیوں کو چٹ کر گئی۔ یہ دلچسپ شکار اس اتھارٹی میں ہوا، جو ایئر لائنوں اور ہوائی جہازوں کو کنٹرول کرتی ہے۔ اس اتھارٹی کے سربراہ کی اسامی پُر کرنے کے لیے اشتہار دیا گیا۔ چھ سو امیدواروں نے درخواستیں دیں۔ ان میں سے آٹھ بہترین اور کوالی فائیڈ امیدواروں کے انٹرویو ہوئے۔ پھر ایک بڑی مچھلی نے انگڑائی لی اور ان چھ سو درخواست دہندگان کو ہڑپ کر کے خود سربراہ بن گئی۔ بڑی مچھلی نے درخواست دی تھی نہ انٹرویو دیا تھا۔ یہ امیدواروں میں شامل ہی نہیں تھی۔ کچھ عرصہ پہلے چند بڑی مچھلیوں نے ایک ہسپتال پر دھاوا بول دیا اور تین چھوٹی مچھلیوں کو، جو دل کی مریض تھیں اور ہسپتال میں زیر علاج تھیں‘ کھا گئیں! یہ ان کا حق تھا۔ اسی لیے کوئی بڑی مچھلی اس واقعہ میں پکڑی نہ گئی۔ سزا یا قصاص کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ جس طرح پاسپورٹ کی رینکنگ ہے، جس طرح سروے کر کے بتاتے ہیں کہ کون سے شہر دنیا میں بہترین ہیں اور کون سے غلیظ ترین، یا کون سا ملک اہل صحافت کے لیے خطرناک ترین ہے اور کون کون سے ملک محفوظ ہیں، بالکل اسی طرح یہ سروے بھی کیے جاتے ہیں کہ انصاف کی فراہمی کس کس ملک میں اول درجے کی ہے اور کون کون سے ممالک اس ضمن میں شرمناک ریکارڈ رکھتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ آپ کو اس سروے کے نتائج اور انکشافات سے آگاہ کیا جائے، مندرجہ ذیل حقائق ذہن میں ضرور رکھیے۔ اوّل‘ ہمارا ملک ہمارے مسلمان ہونے کی بنیاد پر وجود میں آیا‘ اور ہمارے ہادی و رہنما صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر ان کی صاحبزادی چوری کرتیں تو ان کا بھی ہاتھ کاٹ دیا جاتا‘ اور یہ بھی فرمایا کہ پہلی قومیں اس لیے ہلاک ہوئیں کہ کمزور کو سزا دیتیں اور طاقت ور کو چھوڑ دیتی تھیں۔ دوم‘ ہمارے ملک میں دینی مدارس کی تعداد کسی بھی دوسرے مسلم ملک سے زیادہ ہے۔ ان میں سے بعض معیار کے اعتبار سے، اعلیٰ ترین درجے کے ہیں یہاں تک کہ عرب دنیا میں بھی ان کی ٹکر کا کوئی مدرسہ نہیں۔ سوم‘ دنیا بھر میں تبلیغ کا کام کرنے والی جماعت کا مرکز اسی ملک میں ہے۔ اس میں شک نہیں کہ تبلیغی جماعت کا آغاز شمالی ہند سے ہوا مگر تقسیم کے بعد، بالخصوص لمحہ موجود میں، اس کا اصل سنٹر یہیں ہے۔ چہارم‘ اس وقت پاکستان میں جو جماعت حکومت کر رہی ہے اس کا نام ہی تحریک انصاف ہے!
یہ سروے ‘‘ ورلڈ جسٹس پروجیکٹ‘‘ نامی نجی ادارہ کرتا ہے۔ اس کی تازہ ترین رپورٹ حالیہ نومبر میں شائع ہوئی۔ اس کی رُو سے انصاف کی فراہمی میں ٹاپ کے پندرہ ملکوں میں ڈنمارک، ناروے، فن لینڈ، سویڈن، نیدرلینڈز، جرمنی، نیوزی لینڈ، آسٹریا، کینیڈا، ایسٹونیا، آسٹریلیا، سنگا پور‘ برطانیہ، بیلجیم اور جاپان ہیں۔ سروے کی بنیاد چار عوامل پر ہے۔ اول کسی ملک میں حکومت کی طاقت کو لگام دی جا رہی ہے یا نہیں؟ یعنی مقننہ، عدلیہ اور آڈٹ، حکومت کا محاسبہ کرنے کی پوزیشن میں ہیں یا نہیں؟ سرکاری ملازموں کو سزائیں دی جاتی ہیں یا نہیں؟ اور انتقالِ اقتدار، قانون کے مطابق ہوتا ہے یا نہیں؟ دوم‘ کرپشن! یعنی انتظامیہ، مقننہ اور پولیس میں کام کرنے والے افراد، اپنی سرکاری حیثیت کو ذاتی مفادات کے لیے تو استعمال نہیں کر رہے؟ سوم‘ حکومت کے بارے میں اطلاعات اور اعداد و شمار میسر آتے ہیں یا نہیں؟ شکایات سننے اور مداوا کرنے کا طریقِ کار کیا ہے؟ چہارم‘ بنیادی حقوق کے حوالے سے کیا صورت حال ہے؟ اس کی تفصیلات ادارے کی ویب سائٹ پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ آپ کو پاکستان کی پوزیشن جاننے کی بے تابی ہو گی۔ پاکستان کی پوزیشن ایک سو اٹھائیس ملکوں میں ایک سو بیس ہے۔ گزشتہ سال ایک سو سترہ تھی۔ اس سال بد تر ہو گئی ہے۔ جنوبی ایشیا میں ہم صرف افغانستان سے بہتر ہیں۔ بنگلہ دیش‘ نیپال‘ انڈیا‘ سری لنکا ہم سے اوپر ہیں۔
سُن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا
ہو سکتا ہے ذہن میں یہ سوال اٹھے کہ پاکستان ایک مسلم ملک ہے اس لیے اس کی پوزیشن عمداً نیچے رکھی جاتی ہے۔ ایسی بات بالکل نہیں۔ یو اے ای کی پوزیشن تیس ہے۔ ملائیشیا کی سینتالیس، اردن کی پچاس، تیونس کی چھپن اور انڈونیشیا کی اُنسٹھ ہے۔ ہم چونکہ اکثر حالتِ انکار میں رہنا پسند کرتے ہیں اس لیے اگر ہم اس سروے کو بھی رد کر دیں تو اچنبھے کی کوئی بات نہ ہو گی! پھر یہ بھی ہے کہ دنیا، سارے کی ساری، ہمارے خلاف سازشوں میں لگی رہتی ہے۔ اصل میں مغربی طاقتیں ہماری سائنسی اور اقتصادی ترقی سے خائف ہیں۔ وہ ہم سے حسد کرتی ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں