چار دن پہلے متحدہ عرب امارات سے عزیزم طاہر علی بندیشہ نے ٹیلیفون پر اطلاع دی کہ ڈاکٹر احمد مصطفی کامل اپنے پروردگار کے حضور پیش ہو گئے ہیں۔ بعد میں ایران کی معروف '' انٹرنیشنل قرآن نیوز ایجنسی‘‘نے بھی اس خبر کی تصدیق کی۔ بے شک ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور اسی کے حضور لَوٹ کر جانے والے ہیں!
احمد مصطفی کامل کون تھے ؟ یہ جاننے کے لیے مصطفی اسماعیل کا تذکرہ ضروری ہے۔ قاہرہ کے شمال میں طنطا کا مشہور شہر واقع ہے۔ ( یہاں سے تعلق رکھنے والے طنطاوی کہلاتے ہیں ) مصطفی اسماعیل طنطا کے ایک نواحی گاؤں میں پیدا ہوئے۔ یہ 1905ء کا زمانہ تھا۔دس سال کی عمر میں قرآن حفظ کرنے کے بعد مصطفی اسماعیل ارد گرد کے علاقوں میں تلاوت کی شیرینی کے لیے معروف ہو چکے تھے۔کچھ عرصہ کے بعد تقدیر نے عجیب کام کیا۔ جو قاری صاحب مصری ریڈیو پر قرآن پاک کی تلاوت کرتے تھے بیمار پڑ گئے۔یاد رہے کہ اُس دور میں ابلاغ کا سب سے بڑا ذریعہ ریڈیو ہی تھا۔ مصطفی اسماعیل کو کہا گیا کہ یہ کام وہ سنبھال لیں۔ ریڈیو پر ان کی تلاوت اُس وقت کے حکمران شاہ فاروق نے بھی سنی۔ مصری عوام ہوں یا خواص‘ تلاوت سننے کا شوق و ذوق رکھنے میں منفرد ہیں اور قاری کو ہر آیت پر داد‘ اسی زوروشور سے دیتے ہیں جیسے برصغیر کے مشاعروں میں شاعر کو ہر شعر پر ملتی ہے۔ ( شاید یہی وجہ ہے کہ مشہور قُرا کی بھاری اکثریت مصر سے تعلق رکھتی ہے۔ عالمِ عرب سے باہر‘ انڈونیشیا کے قاری مشہور ہیں ) شاہ فاروق بھی اس معاملے میں دوسرے مصریوں سے مختلف نہ تھا۔ ریڈیو پر اس نے نئے قاری کی تلاوت سنی تو مسحور ہو گیا۔ قاری کو بلایا اور فرمائش کی کہ ماہِ رمضان کے دوران محل میں تلاوت کیا کریں۔اب وہ شاہی قاری کے منصب پر فائز ہو گئے۔
1940ء تک مصطفی اسماعیل نہ صرف مصر میں بلکہ سارے عالمِ عرب میں مشہور ہو چکے تھے۔ مصر میں میلاد النبی کے موقع پر جو تلاوت ہوتی ہے وہ ایک بہت بڑا‘ ایونٹ ہوتا ہے۔ مصطفی اسماعیل نے یہاں تلاوت کی تو شہرت میں مزید اضافہ ہو گیا۔ اب وہ مصر سے باہر بھی ہاتھوں ہاتھ لیے جانے لگے۔
1969ء میں ترکی کے دورے پر گئے تو انقرہ کا خوابیدہ اور سوز و گداز سے عاری ماحول انہیں پسند نہ آیا اور اس شہر میں قیام مختصر کر کے استنبول چلے گئے۔ وہاں اور ہی عالم تھا۔ جہاں جاتے سماعت کے لیے جمِ غفیر حاضر ہوتا۔مسجدوں کے اندر اور باہر ہر جگہ فرمائشیں ہوتیں اور وہ کبھی بھی انکار نہ کرتے۔ شروع میں انہوں نے محسوس کیا کہ عربوں کے برعکس ‘ ترکوں میں زور و شور سے داد دینے کا کلچر نہیں ہے۔ سامعین مکمل سکوت میں سنتے۔ ایسا سکوت کہ سوئی گرنے کی آواز آجائے۔پھر جب تلاوت کے دوران ہر اجتماع میں ہچکیوں کی آوازیں سنیں تو ان کی رائے بدل گئی۔انہیں ترکی میں ایک خاص طمانیت اور سکونِ قلب حاصل ہوا اور طے شدہ پروگرام کے بر عکس پورا رمضان یہیں گزارا۔ کہا کرتے کہ جس احترام سے ترک قرآن پاک سنتے ہیں اس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ ترکی کے صدر نے انہیں کلام الٰہی کا ایک خاص نسخہ پیش کیا جس میں الفاظ سونے سے لکھے ہوئے تھے۔ الازہر کا قاری مقرر ہونا ایک اعلیٰ تعیناتی ہے۔ یہ اعزاز بھی حاصل کیا۔مسجد اقصیٰ میں بھی تلاوت کی۔ تلاوت کرتے ہوئے مختلف مقاماتِ قرآن کو جس طرح سنبھالتے ‘انہی کا خاصہ تھا۔جب چاہتے مجمع پر حُزن و الم کی چادر تان دیتے اور جب چاہتے سکون اور امید طاری کر دیتے۔ہر آیت کا اختتام ایک نئے اور غیر متوقع انداز سے کرتے اور فنِ قرأت کے بڑے بڑے ماہرین کو دم بخود کر دیتے چالیس کی دہائی سے ایک اور کہانی شروع ہوئی۔ ایک صاحب مصطفی کامل ‘ ہر جمعہ کے دن الازہر جاتے۔ ان کا چھوٹا سا بیٹا احمد مصطفی ان کے ساتھ ہوتا۔ ہر جمعہ کو وہاں تلاوت ہوتی۔ بچہ مسحور ہو جاتا۔ باپ سے ہر بار پوچھتا کہ کون سا سورہ ہے؟ ہر بار ایک ہی جواب ملتا کہ سورہ کہف ہے۔ پندرہ جمعے گزر گئے اور ہر بار یہی سوال جواب دہرایا گیا۔ بچہ حیران تھا کہ وہی سورہ ہر بار مختلف انداز میں پڑھا جاتا اور یوں لگتا جیسے وہ پہلی بار سُن رہا ہے۔ یہ آواز مصطفی اسماعیل کی تھی۔ یہ اُس طویل اور عجیب و غریب عشق کی ابتدا تھی جو احمد مصطفی کامل کو مصطفی اسماعیل کی آواز اور تلاوت سے ہوا اور ان کی وفات‘ یعنی‘ چار دن پہلے تک رمق بھر کم نہ ہوا۔
احمد‘ اپنے آئیڈیل مصطفی اسماعیل کی ہر تقریب اٹینڈ کرنے لگے۔ اور ساتھ ہی ان کی تلاوت کی کیسٹیں جمع کرنے لگ گئے‘ یہاں تک کہ وہ ایک عظیم الشان ذخیرے کے مالک ہو گئے۔ ایک اور صاحب ابراہیم قاسم بھی مصطفی اسماعیل ہی کی کیسٹوں کے کولیکٹر تھے۔ان کی وفات کے بعد ان کا ذخیرہ بھی احمد کے پاس آگیا یوں ان کے پاس دو ہزار دو سو کیسٹیں جمع ہو گئیں۔ ان سے پوچھا گیا کہ صرف قاری مصطفی اسماعیل ہی کیوں ؟ ان کا جواب تھا کہ ان کی آواز ایک معجزہ تھی اور وہ موسیقی کے اسرارو رموز سے اتنے آشنا تھے کہ اُمِ کلثوم سمیت کئی سنگر اور موسیقار انہیں ملتے اور ان کا تتبع کرتے۔ احمد مصطفی کے پاس اُم کلثوم کے گیتوں کی کیسٹوں کا ذخیرہ بھی تھا۔وہ بتاتے کہ اُم کلثوم نے فلاں فلاں گیت میں فلاں فلاں ‘‘ مقامات ‘‘ کی نقل کی ہے !
پھر ایک معجزہ ہوا۔ اپنے پسندیدہ قاری کی کیسٹوں کو سُن سُن کر احمد نے قرأت کرنا شروع کر دی۔ مشق کرتے رہے۔ دھن کے پکے تھے۔ رحمتِ خداوندی ساتھ تھی۔اب وہ بڑے بڑے مجمعوں میں تلاوت کے لیے بلائے جانے لگے۔ ریڈیو اور ٹی وی پر تلاوت کرتے۔ مگر اصل کام جو قرآن بھیجنے والے نے ان سے لینا تھا ‘ اور تھا۔انہوں نے اکیڈیمی قائم کی ‘ ایک معروف چینل کے ساتھ مل کر نئے ٹیلنٹ کو دریافت کرنا شروع کیا اور تربیت دینے لگے۔ان کے سکھانے کا انداز مسحور کُن تھا۔ جب شاگرد تلاوت کر رہا ہوتا تو وہ اپنے ہاتھوں کو کبھی اوپر اور کبھی نیچے کر کے شاگرد کی آواز کو کنٹرول کرتے۔ یوں لگتا کہ ان کے ہاتھ میں ریموٹ کنٹرول ہے۔ کبھی وہ آیت کا ایک ٹکڑا تلاوت کرتے ‘ دوسرا ٹکڑا شاگرد تلاوت کرتا تیسرا پھر وہ خود کرتے۔ کبھی ایک آیت ہر بار مختلف انداز میں پڑھتے اور پڑھواتے۔ ایک عجیب سماں ہوتا۔ یہ منظر دیکھنے اور سننے کے لیے لوگ آ کر ارد گرد بیٹھ جاتے اور گھنٹوں بیٹھے رہتے۔ شاگرد کو قبول کرتے وقت وہ باقاعدہ چَیک کرتے کہ اس میں صبر‘ شوق اور جہدِ مسلسل کا مادہ ہے یا نہیں اوریہ بھی کہ وہ مصطفی اسماعیل کا سامع ہے یا نہیں۔ قرأت سیکھنے کے شائقین ان کی طرف کھنچے چلے آتے۔ان کے تربیت یافتہ قُرا ہزاروں کی تعداد میں دنیا بھر میں موجود ہیں جن میں بڑے بڑے مشہور قاری شامل ہیں۔ ملائیشیا کی حکومت نے انہیں اپنے ہاں منتقل ہونے کی درخواست کی اور کہا کہ انہیں ایک محل دیا جائے گا جہاں وہ تربیت دیں گے مگر احمد مصطفی نے انکار کر دیا کہ وہ اپنے پوتوں سے دور نہیں جا سکتے۔ کلین شیوڈ تھے۔ اکثر سوٹ اور نکٹائی میں ملبوس ہوتے۔ حسرت تھی کہ یہ کالم نگار مصر جائے اور ان کی زیارت کرے۔ مگر حسرت حسرت ہی رہی۔ نہ صرف اپنے پوتوں کو بلکہ پورے کُرۂ ارض پر بکھرے ہوئے اپنے شیدائیوں کو سوگوار چھوڑ گئے۔