کیا آپ نے اُس پارک کی کہانی سنی ہے جو رو پڑتا تھا؟
یہ سرما کا ذکر ہے۔ ہمارے ہاں اس موسم میں دھوپ بہت بڑی نعمت ہوتی ہے۔ جیسے ہی دن کے دس گیارہ بجتے، پارک میں لوگ جوق در جوق آنا شروع کر دیتے۔ پارک کیا تھا، ایک جہان تھا۔ کہیں درختوں کے جھنڈ تھے جن پر ہر رنگ کے طائر بیٹھے ہوئے ہوتے۔ کہیں دور دور تک سبزہ تھا جس کے اوپر دھوپ قالین کی طرح بچھ جاتی۔ کہیں بنچ تھے جن پر لوگ باگ بیٹھ جاتے۔ کہیں واک کرنے کے لیے ٹریک تھے جن پر پیدل چلنے کے شوقین، کانوں میں ہیڈ فون لگائے، سیر کرتے۔ میلے کا سماں ہوتا۔ بچے کھیلتے بھاگتے، ایک دوسرے کو پکڑنے کی کوشش کرتے۔ سبزے پر دستر خوان بچھ جاتے۔ کھانے کھائے جاتے۔ معمر حضرات چائے پیتے ہوئے سگریٹ کے کش لگاتے، نوجوان آئس کریم اُڑاتے۔ اسی سنہری دھوپ میں نماز ادا کی جاتی۔ پارک ایک رونق بھرے شہر کی طرح لگتا۔ زندگی اپنے پورے جوبن پر ہوتی۔ پھر جیسے جیسے سورج مغرب کی گھاٹی میں اترتا، رونق گھٹنا شروع ہو جاتی۔ لوگ پکنک کا سامان سمیٹنے لگتے۔ سیر کرنے والے گھروں کا رخ کرتے۔ روِشوں اور کُنجوں سے بچوں کو واپس بلایا جاتا۔ سورج غروب ہو رہا ہوتا تو ویرانی وحشت میں بدل جاتی۔ اب سردی ایک عفریت کے مانند پارک کی وسعتوں کو اپنی ہیبت میں جکڑ لیتی۔ تیز یخ بستہ ہوائیں درختوں سے ٹکراتیں تو شاخوں سے نوحوں کی آوازیں آتیں۔ پھر جیسے جیسے تاریکی بڑھتی، پارک کی تنہائی اور وحشت میں اضافہ ہوتا جاتا۔ رات کس طرح کٹتی، پارک ہی جانتا تھا یا اس کا خدا! کیاریوں میں بہتا پانی منجمد ہو جاتا۔ درجۂ حرارت صفر سے نیچے گر جاتا۔ پارک یہ سب کچھ برداشت کرتا اور صبر کرتا۔ مگر آہ! صبح کاذب کے وقت اس کے صبر کا پیمانہ چھلک اٹھتا۔ پارک، بوڑھا پارک، تنہا پارک، رو پڑتا۔ وہ وحشت اور ویرانی تو برداشت کر سکتا تھا مگر اُن لوگوں کی سنگ دلی اس سے برداشت نہ ہوتی جنہوں نے دن بھر اس کی آغوش میں مزے لوٹے تھے‘ اور پھر چھوڑ کر چل دیے تھے۔ اس کے ضبط کے سارے بندھن ایک اک کر کے ٹوٹ جاتے۔ پارک کے کونوں کھدروں سے سسکیوں کی آوازیں آتیں۔ صر صر کے تھپیڑے سہتے درخت چیخ اٹھتے۔ پارک ماتم کدہ بن جاتا۔ بنچ سینہ کوبی کرتے۔ سخت جان پارک پو پھٹنے تک نشان عبرت بن جاتا۔
خدا کے بندو! آج ہر ریٹائرڈ سرکاری ملازم، اس پارک کی مثال ہے۔ مسیں بھیگنے کو تھیں کہ سرکار کی نوکری میں آ گیا۔ اپنا شباب ریاست کو دیا۔ ساری توانائیاں ملازمت پر صرف کیں۔ بیمار بچے یا بیوی کو ہسپتال لے گیا تو چند گھنٹوں کی چھٹی لی اور پھر بھاگم بھاگ واپس دفتر پہنچا۔ ماں مری تو ابھی تعزیت کے لیے لوگ آ رہے تھے کہ واپس دفتر حاضر ہو گیا۔ بجلی کا بل ٹھیک کرانا تھا تو ایک سانس اوپر، اور ایک نیچے، آدھا کام ہوا اور آدھا رہتا تھا کہ سمری ڈرافٹ کرنے کے لیے ہانپتا ہوا سیٹ پر پہنچ گیا۔ پھر وہ ادھیڑ عمر ہو گیا۔ قویٰ مضمحل ہونے لگے۔ بلڈ پریشر بڑھنے لگا۔ جیسے تیسے کر کے بچوں کو پڑھا تو لیا‘ اب ان کی شادیوں کی فکر دماغ پر ہتھوڑے برسانے لگی۔ ریٹائرمنٹ قریب آتے دیکھ کر راتوں کی نیند اُڑ جاتی کہ سر چھپانے کی جگہ تو بنی نہیں۔ اگر ایک آدھ پلاٹ سرکار کی طرف سے ملا بھی تو بیچ کر قرضہ اتارا اور شادیوں کا بندوبست کیا۔ پھر ایک دن اسے ریٹائرڈ کر کے گھر بھیج دیا گیا۔ جس ریاست کو اس نے شباب دیا، زندگی کی توانائیاں اس کی نذر کیں، اس ریاست نے یہ کیا کہ اس کے گزارے کے لیے پنشن جاری کی۔
اس ہفتوں یا مہینوں کے حساب سے نہیں، گھنٹوں کے حساب سے بڑھنے والی گرانی میں اس کی واحد امید وہ اضافہ ہوتا ہے جو اس کی پنشن میں ہر سال کیا جاتا ہے تاکہ وہ سفاک افراط زر کا تھوڑا بہت مقابلہ کر سکے۔ یہ اضافہ ریاست کی مہربانی یا بخشش نہیں ہے۔ یہ اس پنشنر کا حق ہے جس نے چار عشرے ریاست کی خدمت کی۔ ہڈیوں کے اندر جو گودا ہے اس سے لے کر اس گوشت تک جو ہڈیوں کے اوپر ہے، سب کچھ ریاست کی خدمت پر نچھاور کر دیا۔ پہلی بار موجودہ حکومت نے پنشن میں اضافہ نہ کر کے نہ صرف ایک غیر منصفانہ اقدام کیا ہے بلکہ ایک طرح سے بے رحمی کا ثبوت دیا ہے۔ گریڈ انیس تک کے سرکاری ملازموں کی تنخواہیں بڑھائی گئی ہیں تو سوال یہ ہے کہ کیا پنشنر اسی بازار سے سودا سلف نہیں خریدتے جہاں حاضر سروس ملازمین جاتے ہیں؟ کیا پنشنروں کو ضروریات زندگی مغل عہد کی قیمتوں پر مل رہی ہیں؟ کیا گرانی ان کے سروں پر ہتھوڑے کی طرح نہیں برس رہی؟ کوئی ہے جو اس سوال کا جواب دے؟ اس حکومت نے کئی ایسے اقدامات کیے ہیں جن کی وجہ سے عوام بلبلا اٹھے ہیں۔ آٹا، چینی، ادویات، پٹرول، بجلی، سب کچھ مہنگا کیا۔ مگر یہ جو کارنامہ سرانجام دیا ہے کہ تنخواہیں بڑھاتے وقت پنشنروں کا ذکر تک نہیں کیا، یہ یقینا سیہ ترین اقدام ہے۔ پنشنر اور ان کے متعلقین جھولیاں اٹھا اٹھا کر، آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں، بد دعائیں دے رہے ہیں اور منصفِ حقیقی سے انصاف مانگ رہے ہیں۔ اور جس دن منصف حقیقی نے انصاف کا ترازو ہاتھ میں پکڑا تو حکمرانوں کو آئی ایم ایف بچا پائے گا نہ اس کا کوئی زلہ خوار!
اور یہ جو آئے دن رونا رویا جاتا ہے کہ پنشن پر سالانہ اتنی رقم خرچ ہو جاتی ہے تو جو خطیر رقمیں دوسری مدّوں پر خرچ ہو رہی ہیں ان کا ذکر کیوں نہیں کیا جاتا؟ ہر ماہ عوامی نمائندوں کے الاؤنسز اور مراعات پر خزانے کا کتنا حصہ صرف ہو رہا ہے؟ ایوان صدر، وزیر اعظم آفس اور ہاؤس پر روزانہ لاکھوں لگائے جا رہے ہیں۔ دعویٰ یہ تھا کہ کابینہ سترہ افراد پر مشتمل ہو گی۔ اب پچاس سے زیادہ افراد ہیں۔ کیا ان پر ہر مہینے کچھ نہیں خرچ ہو رہا؟ صوبے کے وزیر اعلیٰ کا ماہانہ ہیلی کاپٹر ہی کا خرچ قوم کو بتا دیا جائے۔ اونٹ نگلے جا رہے ہیں اور مچھر چھانے جا رہے ہیں۔ اربوں کھربوں کے بجٹ میں صرف پنشن کا حصہ آنکھوں میں چُبھتا ہے! کچھ حلقوں کا ماننا ہے کہ بعض قرض دھندوں کا اصل مقصد ہمارے جیسے ملکوں میں عدم استحکام لانا ہے‘ اور اس کا آسان طریقہ ہے عوام کو زچ کر دینا۔ بجلی مہنگی کرو اور آئے دن کرو۔ پٹرول کی قیمت بڑھاؤ۔ ٹیکس زیادہ کرو۔ تنخواہیں نہ بڑھاؤ، پنشن ختم کرانے کی صورت پیدا کرو۔ یہاں تک کہ ان سب اقدامات سے تنگ آ کر لوگ سڑکوں پر نکل آئیں اور معاشی استعمار کے ساتھ سیاسی استعمار کا پنجہ بھی مضبوط ہو جائے۔
صرف گریڈ انیس تک کی تنخواہیں بڑھانے کا فیصلہ بھی دور کی نظر کمزور ہونے کا اشارہ ہے۔ کیا انیس سے اوپر کے ملازم انسان نہیں؟ یا کیا سب چور ہیں؟ کیا اس امتیازی سلوک کا ردِّ عمل نہیں ہو گا؟ کیا نا امیدی، احساس محرومی اور غصہ، ان ملازمین کی کارکردگی کو خراب نہیں کرے گا؟ کیا ان کی قوتِ فیصلہ متاثر نہیں ہو گی؟ کیا مہنگائی کا اطلاق ان کی خریداری پر نہیں ہوتا؟ حکومت اپنی دانست میں جو پیسہ بچا رہی ہے، اصل میں اس سے کئی گنا زیادہ نقصان اٹھائے گی۔
Penny wise, Pound foolish
یعنی اشرفیاں لُٹیں اور کوئلوں پر مُہر!
یہ غریب پنشنر عالمی اقتصادی اداروں کی نگاہ میں کانٹے کی طرح کھٹکتے ہیں‘ تو پھر پنشنروں سے جان ہی کیوں نہ چھُڑا لی جائے؟ انہیں اٹھا کر سمندر میں پھینک دیجیے۔ انہیں زندہ رہنے کا حق ہی کہاں ہے!