ٹرمپ چلا گیا۔ جو بائیڈن آگیا۔ سنا ہے جو بائیڈن کے بہت سے مشیر بھارتی نژاد ہیں۔ دیکھئے پاکستان کے ساتھ نئی امریکی حکومت کیا سلوک کرتی ہے۔ بھارت کو ترجیح دے گی یا پاکستان کو ؟ افغان پالیسی اس نئی حکومت کی کیا ہوگی؟ ایران کے ساتھ کیسا رویہ رکھے گی؟ مشرق وسطیٰ میں اس کا جھکاؤ کس طرف ہو گا؟ لیکن ان میں سے کوئی مسئلہ بھی میرا مسئلہ نہیں !
سعودی عرب میں شہزادہ محمد بن سلمان(ایم بی ایس ) نے بہت سی نئی پالیسیاں متعارف کرائی ہیں۔ قوانین بدلے ہیں۔ ملک ایک خاص دائرے میں مقید تھا۔ شہزادہ اسے اس قید سے باہر نکالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ دیکھئے آنے والے دنوں میں کیا ہوتا ہے۔ یمن میں بہت گڑ بڑ ہے۔ عرب اور عجم خم ٹھونک کر ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہیں۔ ترکی کا فیکٹر بھی ہے۔ اسرائیل کو تسلیم کئے جانے‘ یا نہ کئے جانے کا رپھڑ الگ ہے۔ لیکن ان میں سے کوئی مسئلہ میرا نہیں !
نواز شریف لندن سے آتے ہیں یا نہیں؟ آتے ہیں تو کب ؟ نہیں آتے تو ملکی سیاست پر کیا اثرات پڑیں گے ؟ پی ڈی ایم کا کیا مستقبل ہے ؟ پیپلزپارٹی کون سا پینترابدلے گی ؟ مسلم لیگ نون کے ارکان ثابت قدم رہتے ہیں یا باد ِصر صر کے تھپیڑوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیں گے؟ مولانا نے بہت سے سابقہ داغ دھو ڈالے ہیں مگر ان کی چلائی ہوئی تحریک کامیاب ہوتی ہے یا نہیں‘ کچھ نہیں کہا جا سکتا!سندھ میں جی ڈی اے کا اور پنجاب میں قاف لیگ کا مستقبل کیا ہو گا ؟ ایم کیو ایم کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ؟ فاروق ستار اور دوسرے لیڈر کہاں ہیں ؟ مصطفی کمال کی تمنائیں پوری ہوتی ہیں یا نہیں ؟ کیا کوئی ایسا لیڈر اس ملک کے نصیب میں ہے جو بلوچستان کا صدیوں پرانا قبائلی نظام بدل دے ؟ لیکن ان میں سے بھی کوئی مسئلہ میرا مسئلہ نہیں۔
تحریک انصاف ایک سونامی کی طرح آئی تھی۔ جھاگ کی طرح بیٹھتی جا رہی ہے۔حالیہ ضمنی انتخابات ہوا کا رُخ بتا رہے ہیں۔
کوئی وعدہ پورا ہوا نہ کوئی دعویٰ سچ ثابت ہوا۔ جن طبقات نے اس پارٹی کے ساتھ امیدیں وابستہ کی تھیں‘ یوسفِ بے کارواں ہو کر اکیلے پھر رہے ہیں۔ توقعات کا محل ریت کی دیوار ثابت ہوا۔ گرانی کا عفریت سانپ کی طرح پھنکار رہا ہے۔روپیہ ڈالر کے مقابلے میں دن بدن نیچے گر رہا ہے۔ موجودہ حکومت ہر وہ کام کر رہی ہے جو گزشتہ حکومتیں کرتی رہی ہیں۔وہی دوست نوازی‘ وہی اقربا پروری ! وہی چہرے جو ہر حکومت کی ویگن میں سوار ہو جاتے ہیں اس حکومت میں بھی شامل ہیں۔ نوکریاں ملیں نہ مکان بنے۔ ہاں بہت سوں کو بے روزگار ضرور کیا گیا۔ کوئی نئی انڈسٹری نہیں لگ رہی۔زراعت جہاں پہلے تھی اب وہاں سے بھی پیچھے ہے۔تجارت میں کوئی بہتری نہیں آئی۔ بیوروکریسی اُسی ڈھرّے پر چل رہی ہے جس پر ستر سال سے چلتی آئی ہے۔کسی تازہ ہوا کا جھونکا نہیں آیا۔ اس تاریک کمرے میں کوئی کرن نہیں اُتری۔وہی عوام کی قسمت جو دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے رو رہی ہے۔ وزیر اعظم بدلا مگر باقی سب کچھ وہی ہے جو تھا اور وہی ہیں جو تھے!وہی سسکتے بلکتے سرکاری سکول۔ چھتیں نہ دیواریں! فرنیچر نہ استاد! وہی ضلع اور تحصیل سطح کے ہسپتال جن میں ڈاکٹر ہیں نہ آلات نہ ادویات اور جن میں زیادہ تر ڈیتھ سرٹیفکیٹ بنتے ہیں۔ وہی قاتل ٹریفک! وہی تیس اور چالیس ہزار کے درمیان سڑکوں پر ہونے والی سالانہ اموات! وہی بے مہار ڈمپر‘ ٹرالیاں اور چھکڑے! وہی اعلیٰ کے لیے پروٹوکول اور وہی ادنیٰ کے لیے زبوں حالی مگر اس سب سے مجھے کوئی سروکار نہیں۔میرا مسئلہ اور ہے۔
ارے بھائی ! میرا مسئلہ تو وہاں ہے جہاں میں رہتا ہوں۔ میں امریکہ‘ عرب‘ ایران کی کیا بات کروں! میں وزیر اعظم کے دفتر یا پارلیمنٹ یا وزیروں کی کیا شکایت کروں! میں پی ٹی آئی یا نون یا قاف یا ایم کیو ایم کا کیوں رونا روؤں ؟ میرا مسئلہ ان میں سے کسی کا پیدا کردہ نہیں ! میں دارالحکومت کی جس بستی میں رہ رہا ہوں وہاں پچانوے فیصد باشندے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ اس بستی میں خواندگی کا تناسب‘ اگر سروے کیا جائے تو‘ کسی صورت بھی نوے پچانوے فیصد سے کم نہ ہو گا۔ کوئی گھر ایسا نہیں جس کے پورچ میں گاڑی نہ کھڑی ہو۔ چھتوں پر سولر پینل قطار اندر قطار لگے ہیں۔ ہر گیٹ کے دائیں بائیں پھولوں کے پودے اور سبزے کی رَوِشیں ہیں۔ میری قیامگاہ کے قریب ایک پارک ہے‘ بے حد خوبصورت اور دیدہ زیب ! بستی کی انتظامیہ نے شدید محنت کر کے اسے ہر ممکن سہولت سے آراستہ کیا ہے۔ٹاپ کلاس ریستوران اور فاسٹ فوڈ مراکز قائم کیے ہیں۔ سیر کرنے کے لیے ٹریک بنایا ہے۔ گاڑیوں کے لیے وسیع پارکنگ ایریا ہے۔دوسری منزل پر خوبصورت مصنوعی گھاس لگائی گئی ہے۔ بچوں کے لیے مور‘ کبوتر‘ بطخیں‘ سارس اور ہرن منگوائے ہیں اور ان کی دیکھ بھال کے لیے ملازم رکھے ہیں۔ مگر میں جب بھی اس پارک میں جاتا ہوں‘ میرا خون کھولنے لگتا ہے‘ میں ہائی بلڈ پریشر کے لیے دوا لیتا ہوں اور مجھے پارک جا کر یوں لگتاہے کہ کسی دن معاملہ دوا کے قابو سے باہر ہو جائے گا۔ میں جھنجھلا اٹھتا ہوں۔ اپنے آپ کو بے بس پاتا ہوں۔آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کالم نگار سنکی ہے اور سڑیل! کہ ان سہولیات پر خوش ہونے کے بجائے سلگ رہا ہے۔ آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ یہ خوبصورت پارک‘ ہر شام کوڑے کا ایک بڑا ڈھیر بنا ہو تا ہے۔ ہر طرف سگریٹ کے ٹکڑے‘ جوس کے خالی ڈبے‘ چپس کے خالی پیکٹ‘ دیا سلائیاں اور کاغذ کے ٹکڑے بکھرے ہوئے ملتے ہیں۔ آپ ٹریک پر واک کر رہے ہوں تو اوپر‘ منڈیر سے‘ کبھی کوئی خالی ڈبہ پھینکتا ہے اور کبھی سگریٹ کا ٹکڑا۔ یقین کیجیے اس پارک میں‘ اور اس میں بنے ہوئے ریستورانوں میں لوئر کلاس کا کوئی شخص‘ کوئی لڑکا‘ کوئی لڑکی نہیں آتی۔سب قیمتی گاڑیوں میں آتے ہیں۔ سب بظاہر پڑھے لکھے ہیں مگر ان میں اتنی تمیز نہیں کہ کوڑا‘ جا بجا پڑے ہوئے کوڑے دانوں کے اندر ڈالیں! اب آپ انصاف کیجیے کہ جب گھر سے دس منٹ کے پیدل فاصلے پر جہالت‘ وحشت‘ گندگی‘ اوچھے پن اور ابتذال کا دور دورہ ہو تو کیا حق پہنچتا ہے کہ میں امریکہ‘ ایران‘ عرب کی بات کروں‘ سیاسی جماعتوں پر تنقید کروں اور موجودہ اور گزشتہ حکومتوں کو برا بھلا کہوں ؟
ہم کس مٹی سے بنے ہوئے لوگ ہیں ؟ صفائی تو انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ نومولود بچہ صرف بھوک کی وجہ سے نہیں روتا۔ اس وقت بھی روتا ہے جب اس کا لباس گیلا ہو جائے۔ ہزار ہزار روپے کا بر گر‘ چھ چھ سو روپے کی کون‘ دو دو سو روپے کا کولڈ ڈرنک پی جانے والے اور بڑی نزاکت کے ساتھ '' لاتے کافی‘‘ چڑھانے والے ان مڈل کلاس اور اپر کلاس کے انسان نما جانوروں کو جانور کہنا بھی جانور وں کی توہین ہے۔ بزرگ کہا کرتے تھے کہ سگِ آوارہ بھی بیٹھنے سے پہلے اپنی دُم سے جگہ صاف کر کے بیٹھتا ہے۔ مگر ان پڑھے لکھے‘ مراعات یافتہ اور بہتر ین لباسوں میں ملبوس انسانوں کو کوڑا فرش پر‘ اور سبزے پر‘ اور راستوں پر پھینکتے ہوئے شرم نہیں آتی۔ انتظامیہ نے محنت کی‘ زرِ کثیر صرف کیا‘ سہولیات مہیا کیں‘ مگر افسوس! بازار سے تمیز نہیں ملتی ورنہ وہ بھی مفت تقسیم کرتی! اور یاد رہے یہ وہ طبقہ ہے جو ان پڑھوں‘ مزدوروں‘ چوکیداروں اور ٹھیلے والوں کو حقارت سے دیکھتا ہے۔