مولانا صاحب کے کاروبار شروع کرنے والا مسئلہ ٹاک آف دی ٹاؤن بن چکا ہے جیسا کہ ہمیشہ ہوتا ہے، کچھ تبصرے موافقت میں تو کچھ مخالفت میں آ رہے ہیں۔
سیاست کی طرح کاروبار میں بھی مذہب کا استعمال اس معاشرے کے لیے کوئی انوکھی چیز نہیں۔ صرف ایک مثال لے لیجیے۔ دنیا میں آج تک کوئی غیر اسلامی یا مسیحی یا یہودی یا ہندو شہد نہیں دیکھا گیا۔ ایسی اصطلاحات شاید ہی کسی اور ملک میں ہوں؛ تاہم ہمارے ہاں ''اسلامی شہد‘‘ بیچا جاتا ہے۔ اور بھی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں مگر
افسوس بے شمار سخن ہائے گفتنی
خوفِ فسادِ خلق سے نا گفتہ رہ گئے
کیا مولانا صاحب کا تجارتی برانڈ بھی اسی قبیل کا کاروبار ہے؟ کیا یہ بھی مذہب کو بزنس کے فروغ کے لیے استعمال کرنے کی کوشش ہے؟ سچ پوچھیے تو ہے تو سہی۔ مولانا کے لاکھوں عقیدت مند والہانہ طور پر اس برانڈ کی طرف لپکیں گے‘ مگر مولانا کو شک کا فائدہ دینا پڑے گا‘ اس لیے کہ وہ اسے اپنی ذات یا اپنے خاندان کے لیے نہیں لانچ کر رہے۔ ان کا تعلق، ماشااللہ، ایک خوشحال گھرانے سے ہے۔ ارادہ ان کا نیک ہے۔ وہ مدارس کو زکوٰۃ اور چندے کی بیساکھی سے ہٹا کر اپنے پَیروں پر کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ اس کاروبار سے حاصل شدہ آمدنی کو وہ مدارس پر خرچ کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ یہ نہ صرف ایک لائق تحسین بلکہ انقلابی کاوش ہے۔ خدا کرے‘ ایسا وقت آئے کہ اسلامی مدارس مخیّر حضرات کے محتاج نہ رہیں۔
مگر مولانا صاحب کے حوالے سے جو سوال ایک متفکر پاکستانی کو درپیش ہے وہ اور ہے۔ خاص طور پر وہ لوگ جو مولانا کے طرزِ تقریر اور اندازِ تبلیغ کو پسند کرتے ہیں وہ ایک دوراہے پر کھڑے ہیں اور گومگو کی کیفیت میں ہیں؛ تاہم اس بات کا امکان موجود ہے کہ وہ زیادہ دیر انتظار نہ کریں! موجودہ وزیر اعظم نے جب ملک کو ریاست مدینہ کے خطوط پر چلانے کا اعلان کیا تو مولانا نے اپنا پورا وزن وزیر اعظم کے پلڑے میں ڈال دیا تھا۔ یہ بنیادی طور پر ایک سیاسی اقدام تھا۔ یہ ایک خطرناک فیصلہ بھی تھا۔ جو لوگ مولانا کے شیدائی تھے ان کا تعلق کسی ایک سیاسی پارٹی سے نہ تھا۔ وہ پی پی پی سے بھی ہو سکتے تھے، مسلم لیگ سے بھی اور تحریک انصاف سے بھی‘ کیونکہ مولانا سے وابستگی کی وجہ مولانا کا سیاسی میلان نہ تھا بلکہ ان کی دینی خدمات تھیں۔ پھر وہ موڑ آ گیا جب مولانا ایک مخصوص سیاسی پارٹی کی حمایت میں واضح طور پر، کسی ابہام کے بغیر، میدان میں اتر آئے۔ اب ان کے شیدائی ( فَین) دو گروہوں میں بٹ گئے۔ ایک گروہ نے ان کے اس جھکاؤ کو سراہا اور دوسرے نے نا پسند کیا۔ یقیناً ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے صرف مولانا صاحب کی اتباع میں وزیر اعظم سے امیدیں وابستہ کر لیں! یہ آخری طبقہ اخلاقی لحاظ سے مولانا کی ذمہ داری (liability) بن گیا‘ یعنی اب وہ مولانا صاحب سے یہ پوچھ سکتا ہے کہ آپ نے ریاست مدینہ کے جس اعلان کی وجہ سے وزیر اعظم کی حمایت کی تھی اور پھر آپ کی اتباع میں ہم نے بھی حمایت کی، کیا اُس اعلان کے تقاضوں پر وزیر اعظم پورے اتر رہے ہیں؟ کیا مولانا اس حوالے سے مطمئن ہیں؟ اگر مطمئن ہیں تو ہمیں بھی اس اطمینان کا سبب بتائیں! اور اگر مولانا مطمئن نہیں تو وہ اس عدم اطمینان کا اظہار کیوں نہیں کر رہے؟
مولانا نے دانستہ یا نا دانستہ ایک بھاری ذمہ داری اپنے سر لے لی! ان کے وابستگان پوچھتے ہیں کہ وزیر اعظم نے پنجاب کی حکمرانی کے لیے جن صاحب کو چنا، کیا مولانا اس سے مطمئن ہیں؟ شاید ہی ملک کا کوئی طبقہ ہو جس نے اس انتخاب پر مایوسی کا اظہار نہ کیا ہو۔ خود تحریک انصاف کے لوگ اس کا دفاع نہیں کرتے‘ نہ کر سکتے ہیں۔ مولانا کا کیا خیال ہے کہ وزیر اعظم نے اس ضمن میں ''اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمَانَاتِ اِلٰٓی اَہْلِھا‘‘ کا خدائی تقاضا پورا کیا ہے؟ اس آیت کی تفسیر میں مفتی محمد شفیع صاحب مرحوم نے ''جمع الفوائد‘‘ کے حوالے سے جو حدیث بیان کی ہے، اسے مولانا صاحب نے ضرور دیکھا ہو گا۔ یہ جسم پر کپکپی طاری کر دینے والی حدیث ہے! مفتی صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ ''جس شخص نے کوئی عہدہ کسی شخص کے سپرد کیا حالانکہ اس کے علم میں تھا کہ دوسرا آدمی اس عہدہ کے لیے اس سے زیادہ قابل اور اہل ہے تو اس نے اللہ کی خیانت کی اور رسول کی اور سب مسلمانوں کی!‘‘
ریاست مدینہ کی بنیاد تو اس ارشاد نبوی پر قائم تھی کہ ''لَا دِیْنَ لِمَنْ لَّا عَھْدَ لَہ‘‘ تو کیا بلند ترین سطح پر کیے گئے وعدے پورے کیے جا رہے ہیں؟ اس وعدے کا کیا ہوا کہ کابینہ کے ارکان کی تعداد سترہ سے زیادہ نہ ہو گی؟ اس وعدے کا کیا بنا کہ پٹرول سستا کیا جائے گا؟ اس وعدے کا کیا ہوا کہ عوام کی جیبوں سے ہر سال جو دس ارب پی ٹی وی کے لیے نچوڑا جاتا ہے وہ نہیں لیا جائے گا؟ سرکاری رہائش گاہوں میں تعلیمی ادارے قائم کرنے کا وعدہ کہاں گیا؟ ذاتی دوستوں کو، جو پاکستان میں پیدا ہوئے نہ یہاں ان کا بزنس ہے نہ کچھ اور، بڑے بڑے طاقت ور مناصب کس حساب سے دیے گئے؟ کیا ریاست مدینہ میں جنہیں ڈاکو کا خطاب دیا جاتا تھا، انہیں بعد میں بڑے بڑے عہدے دیے جاتے تھے؟ جنہیں چپڑاسی رکھے جانے کے قابل بھی نہیں قرار دیا جاتا تھا، کیا بعد میں انہیں حساس نوعیت کی وزارتیں دے دی جاتی تھیں؟ اگر یہ سب کچھ غلط ہے ، اور یقیناً غلط ہے تو ان تمام معاملات پر مولانا صاحب کی خاموشی ان کے وابستگان کے لیے شدید صدمے کا باعث ہے۔ امر بالمعروف کے ساتھ، دوسرا جزو، نہی عن المنکر بھی ضروری ہے۔ اور مولانا صاحب سے بہتر کون جانتا ہے کہ
اگر بینم کہ نابینا و چاہ است
اگر خاموش بنشینم گناہ است
اگر نابینا کے راستے میں کنواں ہے تو خاموش رہنا گناہ ہے۔ اور اگر کوئی آنکھیں رکھتے ہوئے بھی کنویں کی طرف جا رہا ہے تو روکنے کی ذمہ داری دوچند ہو جاتی ہے۔
مولانا کی خدمات دینی اور معاشرتی سلسلے میں کسی تعارف یا تعریف کی محتاج نہیں۔ انہوں نے فرقہ واریت کم کرنے کے لیے بھی بہت کوشش کی ہے۔ ہر مکتبِ فکر کے علم برداروں میں ان کا نام عزت اور محبت سے لیا جاتا ہے۔ تبلیغی جماعت کے نظام میں حقوق العباد کا حصہ کمزور ہے، اسے مولانا نے مسلسل اپنے بیانات کا موضوع بنایا اور کمی ایک حد تک دور کی۔ اہل بیت عظامؓ پر ان کی حالیہ تالیف بھی ایک بڑا کارنامہ ہے۔ انہوں نے ہمیشہ محبت اور برداشت کا درس دیا ہے مگر خوگرِ حمد سے یہ شکوہ بھی سماعت فرمائیں کہ وزیر اعظم صاحب کی برملا حمایت کر کے جو ذمہ داری انہوں نے اپنے اوپر لی ہے اسے از راہ لطف و عنایت پورا بھی کریں۔ وزیر اعظم آپ کا احترام کرتے ہیں۔ آپ کو بھی ان پر مان ہے۔ انہیں بتائیے کہ پانی سر سے اونچا ہونے کو ہے۔ عہد و پیمان کی کیاریاں پھولوں کے بجائے جھاڑ جھنکاڑ سے اٹتی جا رہی ہیں۔ جن شاخوں پر زرق برق طائر بٹھانے کا وعدہ تھا وہاں زاغ و زغن براجمان ہیں۔ یوں نہ ہو کل باغ کی لمبی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر قسمت رو رہی ہو، ہر طرف خشک پتوں کا راج ہو اور سبزے پر شبنم کی جگہ ماتھے پر پچھتاوے کے قطرے ہوں!
ایسا نہ ہو کل کا مورخ مولانا صاحب کا نام بھی خزاں کے باب میں لکھ رہا ہو۔