معروف ازبک ادیب اور صحافی، دادا خان نوری، اس کالم نگار کے مہمان تھے۔ صبح اٹھا تو سیر کے لیے جا چکے تھے۔ واپس آئے تو سخت برہم۔ دادا خان اردو میں کام چلا لیتے ہیں۔ تاشقند یونیورسٹی میں ہندی زبان کا بہت بڑا شعبہ ہے۔ وہیں ہندی سیکھی۔ اس لحاظ سے اردو بھی بول لیتے ہیں، اگرچہ اردو لکھ پڑھ نہیں سکتے! کہنے لگے ''آپ پاکستانی عجیب ہیں! ہر گھر کے سامنے، پیچھے، دائیں، بائیں زمین ہے اور بیکار پڑی ہے۔ ثمر دار پودے نظر آئے نہ سبزیاں۔ ساری زمین بیکار جا رہی ہے۔ آپ کیسے لوگ ہیں؟‘‘ ان کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور! ہم ایسے ہی ہیں‘ اور ہماری اس ''صفت‘‘ کا ذکر آپ کے ہم وطن ظہیرالدین بابر صاحب بھی کرتے تھے۔
دادا خان کو اچنبھا ہونا ہی تھا۔ غصہ بھی ان کا بجا تھا۔ ان کے ہاں، بلکہ ساری وسط ایشیائی ریاستوں میں، تقریباً ہر گھر پھلوں میں خود کفیل ہے۔ گھر کے درمیان واقع صحن درختوں اور پودوں سے بھرا ہوتا ہے، جسے حَولی کہتے ہیں۔ اخروٹ، سیب، آڑو، خوبانی کے درخت لازم ہیں۔ سیب اور اخروٹ، عام طور پر، ناشتے کا جزو ہیں۔ ہماری نالائقی اس حوالے سے ڈھکی چھپی نہیں۔ یہاں ہم ٹوٹل فروٹ پروڈکشن کی بات نہیں کر رہے، نہ کمرشل پیداوار کی اور نہ ہی کنو، مالٹے اور آم کی، جس کے لیے پاکستان معروف ہے۔ نالائقی اور کم ہمتی کی بات گھروں کے ضمن میں کی جا رہی ہے۔ خال خال ایسے مکان ہیں جن کے مالک، یا مالکنیں، گھروں میں سبزیاں اور پھل اگا رہی ہیں۔ جن کو شوق ہے اور سرگرم و سخت کوش ہیں وہ پانچ مرلے کے مکان میں بھی یہ کام بخوبی کر رہے ہیں اور جو اس میدان میں کورے ہیں یا غافل اور بے نیاز وہ کنال کنال اور دو دو کنال کے گھروں میں بھی کچھ نہیں اگا رہے۔ کورڈ (covered) ایریا کی بڑھتی ہوئی بھوک بھی اپنا منفی کردار ادا کر رہی ہے مثلاً وفاقی دارالحکومت کے ابتدائی چند عشروں میں یہ پابندی تھی کہ کورڈ ایریا، پلاٹ کے کل ایریا کے ستر فی صد سے زیادہ نہ ہو۔ یوں دس اور بارہ مرلے کے مکان میں لان (بیرونی صحن) کے لیے اچھی خاصی وسیع جگہ مل جاتی تھی جو سبزیوں اور پھلوں کی گھریلو ڈیمانڈ پورا کرنے کے لیے مناسب تھی۔ بعد میں رُول یہ بنا دیا گیا کہ کورڈ ایریا نوّے فی صد تک ہو سکتا ہے۔ اس طرح اب پانچ سو مربع گز کے گھر میں بھی لان کی جگہ بہت کم رہ جاتی ہے۔ بہر طور جو مکین، شہری ذمہ داریوں کا احساس رکھتے ہیں وہ گھر کے سائز سے قطع نظر، سبزیاں اور پھل اگا رہے ہیں۔ چھتوں کو بھی اس مقصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے‘ مگر یہ تعداد بہت کم ہے۔ مہنگائی کا رونا رونے کے بجائے، اگر گھروں میں اپنی ضرورت کی سبزیاں اور پھل اگا لیے جائیں تو معاشی بوجھ ہلکا کیا جا سکتا ہے۔ اب انگور کی بیل لگانے کے لیے تو رقبہ بھی نہیں درکار۔ چھت تو ہر گھر کو میسر ہے۔ ولایتی کھاد کے نقصان کا جو اندیشہ ہم نے، بجا طور پر، یا غلط طور پر، پالا ہوا ہے اس سے بھی نجات مل سکتی ہے کیونکہ جو سبزیاں گھروں میں اگائی جائیں گی وہ دیسی (آرگینک) ہوں گی۔ جاپانیوں نے دوسرے شعبوں کی طرح اس میدان میں بھی حیران کُن کارنامے انجام دیے ہیں۔ ثمر دار پودے گملوں میں لگا رہے ہیں۔ کئی قسم کی نئی تکنیکیں متعارف کرا رہے ہیں۔ بڑے درخت کی شاخ، گملے میں یوں لگاتے ہیں کہ گملے والے چھوٹے پودے کی پیداوار، عمر کے لحاظ سے، بڑے درخت کے برابر ہوتی ہے۔ یہ درست ہے کہ شوق اور ذوق اس معاملے میں اہم ہے مگر گرانی کی جو رفتار، خطرے کی طرح، ہمارے سروں پر منڈلا رہی ہے اور بڑھتی ہوئی آبادی کا عفریت جس طرح دہانہ کھولے، چنگھاڑ رہا ہے، اس کے پیش نظر یہ کام، اب شوق کا نہیں مجبوری کا ہے۔ میسّر اعداد و شمار کے مطابق ملک میں رہائشی یونٹس، یعنی گھروں کی تعداد 32.21 ملین ہے۔ اگر ہر، رہائشی یونٹ، اس حوالے سے مستعد ہو جائے تو مجموعی طور پر لاکھوں ایکڑ رقبہ بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ آبادی کے بہت کم حصے کو پھل میسر ہیں۔ یوں یہ تعداد بھی بڑھائی جا سکے گی۔
اور یہ جو پانی کی قلت خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہے اور بجائے جا رہی ہے، تو کیا اس سلسلے میں ہمارے ہاں فرد اپنی شہری ذمہ داریاں پوری کر رہا ہے؟ نہیں! بالکل نہیں! سب سے پہلے بارش کے پانی کو لیجیے۔ جرمنی، آسٹریلیا اور دوسرے ترقی یافتہ ملکوں میں بارش کا پانی ٹینکیوں میں جمع کر لیا جاتا ہے۔ اس کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ ہم بھی کر سکتے ہیں مگر اس کے لیے سائنس اور تکنیک سے زیادہ دھیان اور وژن کی ضرورت ہے۔ چھتوں سے پانی براہ راست انڈر گراؤنڈ ٹینکی میں اکٹھا کیا جا سکتا ہے۔ اندازہ لگائیے اس وقت کتنا پانی فلش کی ٹینکیوں کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ بارش کا پانی اس کا متبادل ہے۔ گاڑیاں اور موٹر سائیکل دھونے کے لیے اور گھاس اور پودے سینچنے کے لیے بھی بارش کا پانی استعمال کیا جانا چاہیے۔ پالتو جانوروں کو اس سے نہلایا جا سکتا ہے۔ پورچ اور فرش دھونے کے بھی کام آ سکتا ہے۔ جس طرح ملکی سطح پر ہم نے ڈیم نہیں بنائے اور مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کیا ہے بالکل اسی طرح، انفرادی سطح پر بھی ہم پانی کے ہولناک ضیاع کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ایک بار پھر وفاقی دارالحکومت کی مثال لیجیے۔ بارہ مرلے کا پلاٹ بھی کروڑوں کی قیمت کا ہے۔ تعمیر پر مزید کروڑوں کا خرچ! ترقیاتی ادارہ اس مکان پر ٹیکس لے گا مگر پانی فراہم نہیں کرے گا۔ مسلسل بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے کر بھی نہیں سکتا! ٹینکر مافیا الگ غارت گری کر رہا ہے۔ بور کر کر کے دھرتی کا سینہ زخمی کیا جا رہا ہے مگر زیر زمین پانی کی سطح تحت الثریٰ کی طرف جا رہی ہے! ایسے میں بارش کا پانی مسئلے کا جزوی حل ہے اور بہت ہی مناسب حل! مسلمان ملکوں کو تو وضو کے پانی کا بھی کچھ کرنا چاہیے۔ جو پانی وضو کے لیے استعمال ہو چکا ہے، کیا وہ گلیاں دھونے کے لیے اور پودوں کی آبیاری کے لیے دوبارہ استعمال نہیں ہو سکتا؟ اس پر غور ہونا چاہیے۔ مساجد کی تعداد کا اندازہ لگائیے۔ پھر اس پانی کا جو پانچ وقت وضو کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ نماز کا پابند شخص، عمومی طور پر صاف ستھرا ہوتا ہے۔ جس پانی سے اس نے چہرا، ہاتھ، بازو اور پاؤں دھوئے ہیں وہ پانی، جمع کر کے، کئی مقاصد کے لیے دوبارہ استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ کئی ممالک تو سیورج کا پانی ری سائیکل کر کے دوبارہ کار آمد کر رہے ہیں۔ پارکوں، گولف کے میدانوں، مِلوں‘ فیکٹریوں اور تعمیراتی سرگرمیوں کو یہی پانی دیا جا رہا ہے۔ ہمارے ہاں پانی جس بے دردی سے ضائع کیا جا رہا ہے، اس کی مثال دنیا میں کم ہی ملے گی! بہت کچھ کیا جا سکتا ہے جو ہم نہیں کر رہے یا کرنا نہیں چاہتے! حکومت کی طرف سے ترغیب ہے نہ تعلیم نہ تربیت نہ فکر نہ ہی دلچسپی! اس کی ترجیحات اور ہیں! اس کی نظر عوام پر نہیں، کہیں اور ہے۔ اور یہ بھی نہیں معلوم نظر، صحت مند ہے یا اس میں کم فہمی، یا حماقت کا موتیا اترا ہوا ہے۔ رہے ہم عوام! تو ہماری کیا بات ہے! ہم حکومت سے بھی دو قدم آگے ہیں۔ صرف دور کی نہیں ہماری تو نزدیک کی نظر بھی کمزور ہے۔ بس بیٹھے ہیں اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہیں !