دہلی سے لاہور تک

''ابھی ہم ڈیوڑھی میں کھڑے مولانا کا کمرہ دیکھ ہی رہے تھے کہ چبوترے سے ایک خاتون بی بی کی آواز آئی۔ میاں کچھ کام ہے؟ ہم نے عرض کیا‘ بی بی! ہم مولانا محمد حسین آزاد کا گھر دیکھنے آئے ہیں‘ وہم نہ کیجیے‘ دیکھ کر چلے جائیں گے۔ اللہ بھلا کرے اس بی بی کا۔ کہنے لگی‘ میاں چائے پیو گے؟ ہم نے کہا‘ کیوں نہ پئیں گے! لیجیے صاحبو! تھوڑی دیر میں ایک نیک دل آدمی تین کپ چائے لے کر زینوں سے اتر آئے۔ واللہ! ہم نے وہ چائے مولانا آزاد کی طرف سے سمجھ کے پی! دیکھیے کیسے مولانا نے تواضع کی۔‘‘
یہ اقتباس علی اکبر ناطق کی تازہ تصنیف 'فقیر بستی میں تھا‘ سے ہے۔ ناطق نے فکشن بھی لکھا ہے‘ شاعری کے مجموعے بھی اُس کے کریڈٹ پر ہیں مگر اس کالم نگار کی رائے میں معرکے کا کام اس کا یہی ہے۔ اس لیے کہ اردو کے بہت بڑے محسن، مولانا محمد حسین آزاد کو ہم بُھلا بیٹھے ہیں۔ نئی نسل تو ان کے نام اور کارناموں سے یکسر بے خبر ہے۔ ہم عصر ادیبوں اور محققین نے بھی ان کی طرف توجہ نہیں کی سوائے جناب اکرام چغتائی کے جن کا مجموعۂ مقالات مطالعۂ آزاد کے عنوان سے 2010 میں شائع ہوا۔ یہ آزاد کے حوالے سے تحقیقی مضامین پر مشتمل ہے۔ اس کی بھی مارکیٹنگ اس طرح نہیں ہوئی کہ یہ ہر متلاشی تک پہنچتا۔ علی اکبر ناطق کی تصنیف ایک مختلف انداز کی ہے۔ اسے ناول اور سوانح کا آمیزہ کہا جا سکتا ہے۔ ایک کمال ناطق نے اس میں یہ دکھایا ہے کہ آزاد کے رنگ ہی میں نثر لکھنے کی کوشش کی۔ یوں تو آزاد کے انداز میں کون لکھ سکتا ہے! ایک نمونہ اس سٹائل کا دیکھیے جو ناطق نے قلم بند کیا ہے:
محل کے دائیں جانب جمنا کی طرف سنگ مرمر کی جالیاں اور جھروکے تھے جن کے اوپر شہزادوں کے سفید کبوتر محل کے جھروکوں سے جمنا اور جمنا سے جھروکوں تک پھریریاں لے کر اڈاریاں بھرتے اور ہم مزاجوں کو سبز باغوں کے سفید پھول دکھاتے۔ انہی جھروکوں سے جمنا کی ہوائیں چھن چھن کر اندر آتیں۔ جاڑے کے دنوں میں نہر بہشت بند کر دی جاتی اور اس میں پانی کی جگہ پارے کے بڑے بڑے طشت رکھے جاتے تھے۔ خواب گاہ کے ساتھ ایک بڑا مسقف دالان تھا... اسی نہر والے محل میں ہی جہاں پناہ خاص خاص لوگوں سے اور شہزادوں سے ملاقات فرماتے تھے۔ جیسے میرزا فخرو، حکیم احسن اللہ خان، یا استاد ذوق اور مولوی محمد باقر۔ بعد میں کچھ دنوں کے لیے میرزا نوشہ نے بھی یہاں کی حاضری دی اور بادشاہ کی اقبال مندی کا قصیدہ کہا۔
محمد حسین آزاد مجموعۂ کمالات تھے۔ کوئی ایک میدان نہ تھا! ان کی شخصیت اور فن کے کتنے ہی پہلو ہیں اور ہر پہلو دوسرے سے بڑھ کر ہے۔ جدید تنقید، جدید شاعری، نثر نگاری کا اچھوتا اسلوب، پھر ادبی تحقیق، خاکہ نگاری، الفاظ کی اصل اور نسل کے لیے بے پناہ محنت، ان سب سے بڑھ کر صرف ایک کتاب ہی ان کے نام کو زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔ اور وہ ہے دربارِ اکبری! کتنی ہی راتوں کو انہوں نے اپنی آنکھوں کے چراغ اس کتاب کی تصنیف کے لیے جلائے، جگر کا خون دیا، روکھی سوکھی کھائی، عیش و آرام تج دیا اور ایک ایسا شہکار تصنیف کیا جو مغلوں کی تاریخ کے طالب علموں کے لیے ایک بیش قیمت خزانے سے کم نہیں‘ اور ہر محقق کے لیے بہترین ریفرنس بُک ہے! نو سو صفحات کی یہ کتاب تاریخ، ثقافت، ادب، شاعری، تحقیق اور تنقید کا ایک ایسا گل دستہ ہے جس میں رنگوں کی قوس قزح اور خوشبوؤں کے جھکورے آزاد کی عظمت کو دوام بخشتے ہیں۔
مولانا محمد حسین آزاد کی ساری زندگی، آلام، کرب، فقر، درویشی اور مشقت سے عبارت ہے۔ آغاز اتنا درد ناک کہ لڑکپن میں والد کو گولیوں کا نشانہ بنتے دیکھا۔ انجام ایسا تکلیف دہ کہ عمر عزیز کے آخری بیس سال عالم وارفتگی میں گزارے۔ اپنا ہوش تھا نہ علائق و متعلقین کا۔ یہ اور بات کہ اس عالم میں بھی تصنیف و تالیف کا فرض، جو قدرت نے ایک عالی شان دماغ دے کر سونپا تھا، سرانجام دیتے رہے۔ 1857 کی جنگِ آزادی کے بعد مسلمانوں پر قیامت ٹوٹی۔ آزاد کے والد مولوی محمد باقر کو گولی مار دی گئی تھی۔ آخری ملاقات باپ بیٹے کی علی اکبر ناطق کی زبانی سنیے... آزاد سائیس کا لباس پہنے جرنیل سنگھ کے گھوڑے کے ساتھ ساتھ چلے اور آخر اس مقام تک پہنچے جہاں باغی قیدی زندگی کی آخری سانسیں گن رہے تھے۔ کوئی بھوک پیاس سے رو رہا تھا۔ کسی کو موت اور بربادی کا الم نیم جان کیے تھا۔ انہی میں ایک طرف ایک مرد خدا خلوصِ دل میں عبادت میں مصروف تھا، یہ آزاد کے والد مولوی محمد باقر تھے۔ بہت دیر کے بعد نظر اٹھائی تو تھوڑے فاصلے پر اپنا پیارا لاڈوں کا پالا جگر گوشہ سائیس کے لباس میں کھڑا نظر آیا۔ ایک دم چہرے پر پریشانی کے آثار ظاہر ہوئے اور آنکھوں سے آنسو گرنے لگے۔ ادھر یہی حالت بیٹے پر گزری۔ جب نظر نے یاوری کی تو دیکھا کہ ہاتھ کے اشارے سے مولوی محمد باقر اپنے بیٹے آزاد سے کہہ رہے ہیں کہ بس آخری ملاقات ہو گئی اب رخصت ہو اور دیر نہ کرو۔
اس درد ناک ملاقات کا اثر زندگی بھر آزاد کی طبیعت پر رہا۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ اسی پُر ہول یاد کا شاخسانہ تھا کہ آخری بیس سال ناگفتنی حالت میں گزرے۔ باپ کے گولیوں کا نشانہ بننے کے بعد ایک طویل عرصہ انگریزوں کی نظر سے بچتے رہے۔ ایک پُر خطر زندگی گزاری۔ پنجاب یونیورسٹی اور گورنمنٹ کالج لاہور میں پروفیسر لگے تو ڈاکٹر جی ڈبلیو لائیٹنر، جو بظاہر مربّی تھا، بلیک میل کرتا رہا اور استحصال بھی۔ جو حضرات آزاد کے وسط ایشیا کے سفر پر جاسوسی کا لیبل لگا کر اعتراض کرتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ آزاد ایسا نہ کرتے تو مار دیے جاتے۔
اور پھر ایران کا سفر! اللہ اللہ! افلاس، زاد راہ کی کمی اور ساتھ ہی کتابیں خریدنے کا بے انتہا شوق جسے خبط ہی کہنا چاہیے! کبھی کتابیں بیل گاڑی پر لادیں اور کپڑا بچھا کر خود اوپر بیٹھ گئے۔ علی اکبر ناطق کے بقول قندھار سے کوئٹہ کا سفر صرف پانچ روز کا تھا لیکن آزاد نے یہ راستہ گیارہ روز میں طے کیا۔ ہر جگہ کتابیں ان کی جان کے ساتھ تھیں۔ ایک مقام پر بہت زور کی بارش ہوئی۔ زمین ایسی خراب تھی کہ اونٹ پھسلنے لگے۔ قافلہ ایک میدان میں اتر پڑا۔ آزاد نے سب سے پہلے کتابوں کو بچایا۔ ان پر موٹے موٹے گدیلے ڈال دیے اور خود توکل بخدا بیٹھ گئے۔
آزاد کی وفات کے بعد ان کی عظیم الشان نجی لائبریری پر کیا گزری یہ ایک اور طویل داستان ہے۔ اس داستان میں آنسوئوں کے سیلاب ہیں اور آہوں کے طوفان! کئی جانکاہ مراحل، اور ایک طویل خط و کتابت کے بعد، بچی کھچی، زخموں سے چور، یہ لائبریری پنجاب یونیورسٹی لائبریری کو منتقل کر دی گئی۔
دہلی دروازے کے اندر، آزاد کا اکبری منڈی والا مکان دیکھا ہے۔ کیا کوچے تھے جن میں یہ نابغہ چلتا ہو گا۔ گورنمنٹ کالج میں پڑھانے آتے تو گھوڑے پر سوار ہوتے۔ ارد گرد شاگرد کتابیں کھولے چل رہے ہوتے اور تدریس کا سلسلہ جاری رہتا۔ دہلی کا یہ سپوت لاہور کی خاک میں پیوند ہوا۔ ان کی وفات کو حالی نے اردو ادب کا خاتمہ قرار دیا۔ کربلا گامے شاہ میں محوِ استراحت ہیں۔ علی اکبر ناطق نے اچھا کیا کہ آزاد کی یاد تازہ کی اور یوں اپنا نام آزاد کے عشّاق میں لکھوا لیا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں