یہ سولہویں صدی عیسوی تھی۔ جنوبی امریکہ کے ملک پیرو میں ایک کسان کو بخار تھا۔ تیز بخار! کسی کھیت کے کنارے‘ جنگلی‘ خود رو پودوں کے درمیان پڑا کراہ رہا تھا۔ نیم خوابیدہ! کبھی غنودگی چھا جاتی‘ کبھی آنکھیں کھول لیتا! بھوک محسوس ہو رہی تھی۔ اسے قریب کے ایک پودے کے ساتھ کچھ لگا ہوا نظر آیا۔ پتا نہیں کون سا پھل تھا؟ کیا نام تھا؟ بھوک اور نیند کے سامنے انسان بے بس ہو جاتا ہے۔ تپتے‘ سلگتے بدن کو اس نے گھسیٹا اور جھاڑی سے پھل توڑ توڑ کر کھانے لگا۔ بد ذائقہ ! تلخ ! پھر غنودگی کی ایک اور لہر آئی۔ کتنے ہی پہر گزرے۔ اسے ہوش آیا تو بدن ہلکا محسوس ہوا۔ اس نے ہاتھ لگایا تو پیشانی جو پہلے تپ رہی تھی‘ اب نارمل لگ رہی تھی۔ وہ حیران ہوا اور پھر ایک خیال بجلی کی طرح اس کے ذہن میں کوندا۔ ہو نہ ہو یہ اسی جنگلی پودے کے بے نام پھل کا اثر ہے! یہ تھا وہ حادثہ جس کے نتیجے میں کونین دریافت ہوئی اور سینکڑوں برس سے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والے ملیریا کو کنٹرول کیا جانے لگا۔
اب ہم جنوبی امریکہ کو وہیں چھوڑ کر بحر اوقیانوس پار کرتے ہیں اور برطانیہ کے ساحل پر اترتے ہیں۔ 1666ء کا زمانہ تھا۔ طاعون نے برطانیہ کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا۔ سرکاری عمارتیں بند کی جا رہی تھیں۔ اجلاس وغیرہ سب ملتوی کئے جا رہے تھے۔ پروفیسر نے سامان اٹھایا اور کیمبرج سے نکل کر لنکا شائر کا رخ کیا جہاں اس کا آبائی مکان تھا۔ یہ خوش گوار حادثہ وہیں پیش آیا۔ وہ اس دن اپنی والدہ کے ساتھ باغ میں بیٹھا ہوا تھا اور اُس پروجیکٹ کے بارے میں سوچ رہا تھا جس پر وہ کیمبرج یونیورسٹی میں کام کر رہا تھا۔ اس کے سامنے ایک پیڑ سے سیب گرا اور سیدھا‘ منہ کے بل‘ زمین پر آ گرا۔ اس نے سوچا یہ سیب نیچے آنے کے بجائے اوپر کیوں نہیں گیا‘ اور دائیں بائیں مڑنے کے بجائے‘ سیدھا کیوں گرا؟ یہ نیوٹن تھا اور یہ تھا وہ حادثہ جس نے کششِ ثقل کے حوالے سے نیوٹن کی سوچ کو مہمیز کیا اور اس نے اپنی شہرہ آفاق تھیوری پیش کی۔
اب ہم برطانیہ سے رخصت ہوتے ہیں اور ایک بار پھر اٹلانٹک‘ یعنی‘ بحر اوقیانوس کو پار کرتے ہیں مگر اس بار جنوبی امریکہ نہیں‘ شمالی امریکہ کا رُخ کرتے ہیں جہاں ریاست ہائے متحدہ امریکہ واقع ہے۔ یہ امریکہ کا ایک ہسپتال ہے۔ ایک معروف پاکستانی اداکارہ‘ جس کی وجہ شہرت‘ اور چیزوں کے علاوہ‘ انگریزی زبان کی ''اصلاح‘‘ بھی ہے‘ مبینہ طور پر‘ ڈاکٹر سے بحث کر رہی ہے۔ اس کا مطالبہ ہے کہ اسے وی آئی پی درجہ دے کر شایانِ شان پروٹوکول دیا جائے۔ اس پروٹوکول کے لیے وہ دو دلیلیں پیش کرتی ہے۔ پہلی یہ کہ اس کے اپنے ملک میں وزیر اعظم صاحب خود اسے پروٹوکول دیتے ہیں۔ دوسری یہ کہ موجودہ حکومتی پارٹی نے اسے سینیٹ کی ممبر شپ کی پیشکش کی ہے۔ اداکارہ کا اصرار جب پروٹوکول کے لیے بڑھا تو ڈاکٹر نے اسے پاگل قرار دیتے ہوئے دماغی امراض کے ہسپتال میں بھیج دیا جسے عرفِ عام میں پاگل خانہ کہتے ہیں۔ یہ ایک اور عظیم طِبّی دریافت (میڈیکل ڈسکَوری) ہے‘ جو اس حادثے کے نتیجے میں ہوئی ہے اور وہ یہ کہ پروٹوکول کی خواہش رکھنے والے اور اس پر اصرار کرنے والے لوگ ذہنی مریض ہوتے ہیں۔
یہاں دو ضمنی پہلو غور طلب ہیں۔ اگر اداکارہ کے دونوں دعوے درست ہیں تو ایک تو یہ کہ پاکستانی عوام کے لیے یہ خبر بہت دلچسپ اور معنی خیز ہونی چاہیے کہ ان کی حکومت کا سربراہ اس اداکارہ کو پروٹوکول دیتا ہے۔ دوسرے یہ کہ کم از کم سینیٹ کے حکومتی ارکان کو اپنی پارٹی سے ضرور پوچھنا چاہیے کہ کیا اب سینیٹ کا لیول‘ معیار اور وقار یہ رہ گیا ہے؟ اگر اداکارہ کے یہ دونوں دعوے جھوٹے ہیں تو اس سے باقاعدہ پوچھ گچھ ہونی چاہیے کہ اس نے وزیر اعظم پر پروٹوکول دینے کی تہمت کیوں لگائی اور پاکستانی سینیٹ کی‘ ملک سے باہر کھڑے ہو کر‘ بے توقیری کیوں کی؟ مگر اس وقت‘ شرمسار کرنے والے یہ دونوں پہلو ہمارا دردِ سر نہیں! جن کا یہ مسئلہ ہے‘ ان کے جسموں میں اگر ریڑھ کی ہڈیاں موجود ہیں تو خود نمٹ لیں گے!
خدا کے بندو! غور کرو! سوچو! یہ کتنی بڑی دریافت ہے! حیرت انگیز دریافت! کہ پروٹوکول کے خواہش مند‘ فاتر العقل ہوتے ہیں۔ امریکی ڈاکٹر کو مشرقی زبانوں سے آگاہی ہوتی تو ایسے بیماروں کو مراقی کہتا یا مالیخولیا کے مریض! دوبارہ غور کرو! دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ چاند کے بعد اب دور تر سیاروں پر کمندیں پھینکنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ کمپیوٹر نے انسانی دماغ کو پیچھے چھوڑ دیا۔ انٹرنیٹ نے کرۂ ارض کو مٹھی میں بند کر دیا ہے۔ طیارے آواز کا بیریئر توڑ چکے۔ مگر اس ساری‘ حیران کُن ترقی کے باوجود‘ پروٹوکول کے مرض کی تشخیص نہیں ہو رہی تھی۔ کوئی اسے دل کی بیماری بتاتا‘ کوئی سوء ہضم کا شاخسانہ قرار دیتا۔ کوئی اسے اندر کے اندھے پن کا نام دیتا۔ آفرین ہے اس امریکی ڈاکٹر پر جس نے بالآخر دریافت کر لیا کہ پروٹوکول کی خواہش کا براہ راست تعلق دماغی مرض سے ہے۔ ہمارے ملک کا نام بھی میڈیکل ہسٹری میں ہمیشہ تابندہ رہے گا کہ جس مریضہ کی بدولت یہ عظیم الشان دریافت ہوئی‘ اس کا تعلق ہمارے ملک سے تھا! یہ بھی عجیب درد ناک اتفاق ہے کہ پروٹوکول کی بیماری ہمارے جیسے ملکوں ہی میں ہے۔ سالہا سال جمہوری (اصلی جمہوری) ملکوں میں رہنے والوں نے کبھی ہٹو بچو کا غوغا یا سڑکوں پر روٹ لگتے نہیں دیکھا۔ ان ملکوں کے سربراہ‘ گورنر‘ چیف منسٹرز‘ اور دیگر اہم شخصیات تزک و احتشام‘ شان و شوکت‘ جاہ و جلال اور طمطراق سے بے نیاز ہوتی ہیں۔ منسٹر اپنی گاڑیاں‘ اکثر و بیشتر‘ خود ڈرائیو کرتے ہیں۔ (ہاں سکیورٹی ایک الگ ایشو ہے۔ اس کا پروٹوکول یا رعب داب سے کوئی تعلق نہیں)۔ ٹرین میں کھڑے ہو کر سفر کرنا یا سائیکل پر سوار ہو کر دفتر پہنچنا عام ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ کسی پیغمبر‘ کسی صحابی‘ کسی امام‘ کسی خلیفہ راشد‘ کسی ولی اللہ نے پروٹوکول چاہا نہ برداشت کیا نہ اس کی اجازت ہی دی۔
پروٹوکول کی خواہش‘ اصلاً احساسِ کمتری کا نتیجہ ہے جو ایک خطرناک نفسیاتی مرض ہے اور ضروری نہیں کہ یہ مرض صرف حکمرانوں میں ہو۔ اب تو ایسے ایسے عالم دیکھنے میں آ رہے ہیں کہ خود اپنے نام کے ساتھ مولانا لکھتے ہیں جیسے یہ ان کے نام کا حصہ ہو۔ قیمتی گاڑی رکھنا کوئی برائی نہیں۔ ہر صاحبِ استطاعت کا حق ہے‘ مگر زرِ کثیر خرچ کر کے خصوصی نمبر پلیٹ لگوانا‘ خود نمائی کے سوا کیا ہے؟ اگر ایسا کام کوئی شاگرد یا عقیدت مند بھی کرے تو لازم ہے کہ اسے سختی سے منع کیا جائے اور ایسی حرکت کالعدم کرائی جائے۔ نادان دوستوں کی طرح نادان مرید بھی ضرر رساں ہوتے ہیں۔
پروٹوکول اور عقیدت کے رد عمل میں فرقہ ملامتیہ وجود میں آیا۔ یہ حضرات آؤ بھگت اور ہٹو بچو سے بیزار تھے۔ ایسی حرکتوں سے انہیں شدید کوفت ہوتی تھی۔ اس کا علاج انہوں نے یہ کیا کہ اپنی عبادات‘ کرامات اور کمالات پوشیدہ رکھے اور ظاہر میں اپنے آپ کو گنہگار بنا کر پیش کیا۔ یہ دوسری انتہا تھی مگر رد عمل ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ ایک صحیح الدماغ انسان‘ مرد ہو یا عورت‘ پروٹو کول لے کر‘ نظروں کا محور بننا کبھی پسند نہیں کرتا۔ لوگوں کا دست بستہ کھڑا رہنا‘ ہاتھ چومنا‘ پاؤں چھونا ‘ خوشامد کرنا اسے برا لگتا ہے۔ جسے اپنے اوپر اعتماد ہو وہ پروٹوکول کا سہارا نہیں لیتا۔ حکمران ہو یا کوئی اور!