ارے بھئی! ہمیں ان معاملات میں کیوں گھسیٹتے ہو۔ہمارا آخر حکومت سے یا سیاست سے کیا تعلق ہے ! ہمیں اس سے کیا غرض کہ ایف آئی اے کا سابق سربراہ کیا کہتا ہے اور کیوں کہتا ہے۔ سچ کہتا ہے یا بے پر کی اُڑاتا ہے۔ ہمیں اس میں کیا دلچسپی ہو سکتی ہے کہ مشیر اور وزیر کیا موقف رکھتے ہیں۔ ہم تو گاؤں کے سیدھے سادے لوگ ہیں۔ اپنے کھیتوں اور مویشیوں ہی سے فراغت نہیں۔ گندم کی کٹائی ہو رہی ہے۔ ایک پل کی فرصت نہیں۔ اوپر سے بھوری گائے بیمار ہے۔ دو دن سے اس نے اپنے لاڈلے بچھڑے کی طرف بھی نہیں دیکھا۔ بھوسے کا پچھلا سٹاک ختم ہو رہا ہے۔ دیکھیے آگے کیا صورت حال بنتی ہے اور گندم کا کیا نرخ لگتا ہے۔ گرانی اتنی ہے کہ بھینس رکھنا ہاتھی رکھنے کے برابر ہو گیا ہے۔ چارے کی قیمت آسمان تک جا پہنچی ہے۔ اب تو ہمارا اصلی نسلی کتا' کلائیو ‘ بھی ریوڑ کے پیچھے چلتا ہے تو منہ جھکا کر‘ سیکنڈ ہینڈ انداز میں ‘ بُجھا بُجھا سا ! جیسے مہنگائی کے متعلق ہی سوچ رہا ہو! وہ بھی زمانے تھے جب اس کڑکتی دھوپ میں محبوب یاد آتا تھا اور فضا میں ماہیا گونج اٹھتا تھا ۔
حُقے دیاں نڑیاں نیں
پھُلا وے گلاب دیا
دھُپاں ڈاڈیاں چڑھیاں نیں
مگر اب افراتفری کا دور ہے۔ ہر ایک کو اپنی پڑی ہے۔ کون سا محبوب اور کہاں کی محبت ؟محبوب کو دھوپ لگتی ہے تو عاشق کی بلا سے ! اس گرمی میں جو سکون میٹھی ٹھنڈی لسی کے ایک گلاس یا ادھ رڑکے کے ایک پیالے سے ملتا ہے وہ وصالِ یار میں کہاں! ستو بھی ایسے میں بہت بڑی نعمت لگتے ہیں۔ سعدی نے تو قحط کا رونا رویا تھا ؎
چنان قحط سالی شد اندر دمشق
کہ یاران فراموش کردند عشق
مگر یہاں تو قحط پڑا ہی نہیں اور یاروں نے عشق فراموش کر دیا۔ مہنگائی قحط کی بھی ماں ہے۔ شے سامنے پڑی ہے مگر خریدنے کی استطاعت نہیں۔ فراق گورکھپوری نے ہمارے لیے ہی کہا تھا ؎
اپنی خریداری بازارِ جہاں میں ہے سو‘ اتنی ہے
جیسے دکاں سے مفلس کوئی چیز اُٹھائے ‘ پھر رکھ دے
ہمیں سیاسی معاملات میں نہ گھسیٹو! تم شہر والے تو بہت کچھ جانتے ہو‘ فرائڈ کی نفسیات‘ کانٹ اور روسو کا فلسفہ‘ ایڈم سمتھ کی معاشیات مگر ہم گاؤں کے لوگ ان چکروں میں نہیں پڑتے۔ ہمیں تو بس یہ معلوم ہے کہ پٹاخہ ایک نہ ایک دن ضرور بجتا ہے۔ ایف آئی اے والا ہو یا کوئی اور‘ حاکم ہو یا محکوم‘ اقتدار میں ہو یا اختلاف میں ‘ جتنا بھی زور آور ہو‘ جتنا بھی گردن بلند ہو ‘ پٹاخہ ضرور بجتا ہے۔ اور ایسا کہ آواز دور تک سنائی دیتی ہے۔
ہم تو گاؤں کے بھولے بھالے سادہ لوح لوگ ہیں۔ ہم تو صرف یہ جانتے ہیں کہ جُوں کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ جُوں اور مرغ دوست تھے۔ کلغی والا سفید براق رنگ کا مرغ! اذان دیتا تو سماں باندھ دیتا۔دوستی میں پکا تھا۔ یاروں پر جان نثار کرنے والا۔ جُوں کے ساتھ مل کر سفر کا پلان بنایا۔ دونوں نے اپنے اپنے گھر سے سات سات روٹیاں پکوائیں اور زادِ راہ کے طور پر پوٹلی میں باندھ کر ساتھ لے لیں۔ پروگرام یہ تھا کہ دن بھر سفر کریں گے اور شام کو جہاں پڑاؤ کریں گے وہاں آدھی آدھی روٹی کھا کر باقی روٹیاں آنے والے دنوں کے لیے رکھیں گے۔مگر شام ابھی دور تھی۔ مشکل سے سہ پہر ہوئی تھی۔ جُوں کہنے لگی یار مرغ ! مجھے تو بھوک لگی ہے۔ مرغ نے کہا کہ اپنے حصے کی روٹیوں میں سے کچھ کھا لو۔ جوں نے اپنی ایک روٹی کھا لی۔ مگر معلوم نہیں جوں کو معدے کی کوئی بیماری تھی یا کچھ اور‘ تھوڑی دیر میں پھر بھوک لگ گئی۔ دوسرے دن دوپہر تک جوں اپنی سات روٹیاں کھا چکی تھی۔ تھوڑی دیر بعد پھر بھوک لگی۔ مرغ دوستی اور مروت کا مارا ہوا۔ اس نے اپنے حصے میں سے ایک روٹی پیش کر دی۔ شام تک جوں مرغ کی ساتوں روٹیاں کھا بیٹھی تھی۔
دھاندلی کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ پھر جب ڈھٹائی بھی دھاندلی کے ساتھ مل جائے تو بالکل ہی کوئی حد نہیں ہوتی۔ جوں کو جلد ہی پھر بھوک لگ گئی۔ مرغ وضعدار ‘ آنکھ میں شرم رکھنے والا ! اپنی ٹانگ پیش کر دی۔ پھر دوسری! پھر باقی ماندہ مرغ بھی جوں کے معدے میں پہنچ گیا۔ دوسرے دن جوں کو راستے میں بھیڑ نظر آئی۔ اسے اپنے پاس بلایا اور وارننگ دی کہ تیار ہو جاؤ ‘ میں تمہیں تناول کرنے لگی ہوں۔ بھیڑ ہنسی اور کہا کہ اپنا اور میرا سائز دیکھو ‘ تمہارا دماغ یقیناً چل گیا ہے۔ جوں نے اس پر گانا گایا۔ ''سات اپنی کھائیں‘ سات مرغ کی کھائیں‘ بانگیا (اذان دینے والا) مرغ کھایا۔ اب تمہیں کھاؤں گی۔ اور پھر چشمِ فلک نے دیکھا کہ جوں بھیڑ کو کھا گئی۔اسی طرح ‘ باری باری ‘ بکری کو‘ گائے کو‘ بھینس کو‘ گھوڑے کو اور پھر اونٹ کو کھا گئی۔ہر بار گانا بھی گایا۔ اتنا کچھ کھانے کے بعد پیاس تو لگنی تھی۔ دریا کے پاس پہنچی اور اسے مخاطب کر کے گویا ہوئی '' بہت جی لیے تم ! مگر اور نہیں! آج میں تمہیں‘ سارے کے سارے کو‘ نوش کرنے لگی ہو ں تم خشک ہو جاؤ گے ‘‘۔ دریا ہنسا اورکہا کہ میرا پانی تو گھوڑے‘ بیل‘ اونٹ اور مگر مچھ نہیں ختم کر سکے ! تمہاری کیا حیثیت ہے! جوں نے دریا کے کنارے کھڑے ہو کر نغمہ گایا:سات اپنی کھائیں‘ سات مرغ کی کھائیں‘بانگیا مرغ کھایا‘ ممیاتی بھیڑ کھائی‘کُرکُری بکری کھائی‘ڈکراتی بھینس کھائی‘ خوش ذائقہ گائے کھائی‘ ہنہناتا گھوڑا کھایا‘ بلبلاتا اونٹ کھایا‘ اب تمہیں پینے لگی ہوں۔ جُوں غٹ غٹ کر کے دریا کو پی گئی۔جہاں کچھ دیر پہلے پانی تھا وہاں اب کیچڑ کے سوا کچھ نہ تھا۔ اتنا پانی پینے کے بعد اب چلنا دوبھر تھا۔ پیٹ مٹکا بن چکا تھا۔ پاس ہی شیشم کا درخت تھا۔ جوں رینگتی ‘ ہانپتی‘ درخت کے نیچے پہنچی اور تنے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔ اس کا پروگرام کچھ گھنٹے سونے کا تھا مگر تقدیر کا ارادہ مختلف تھا۔ اوپر سے شیشم کا پتہ ٹوٹا اور سیدھا جوں کے پیٹ پر گرا۔ زور کا پٹاخا بجا۔ جنگل لرز اٹھا۔ جوں کا پیٹ پھٹ چکا تھا۔
بھئی! ہم تو دیہاتی لوگ ہیں۔ زیادہ باتیں اور فلسفے اور مثالیں نہیں جانتے۔ ہمارے لوک ادب نے اور ہمارے بزرگوں نے ہمیں یہی سمجھایا اور سکھایا ہے کہ جو مرضی کر لو۔ طاقت پر جتنا اِترا سکتے ہو اِتراؤ۔ جتنا ہڑپ کر سکتے ہو ‘ کرو۔ جتنا اور جتنوں سے انتقام لے سکتے ہو ‘ لو۔ زور‘ زر‘دھونس ‘ دھاندلی‘ وعدہ خلافی‘ظلم‘ سب کچھ آزما لو‘ آخر میں پٹاخہ ضرور بجے گا۔ اس پٹاخے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ اس پٹاخے سے آج تک کوئی نہیں بچ پایا۔گردن بلندی کے زمانے میں سب کچھ ہیچ نظر آتا ہے۔گھوڑے اور اونٹ جیسے عظیم الجثہ جانور نقطے کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔ٹھاٹھیں مارتا دریا پانی کا بلبلہ لگتا ہے۔ مگر جب پٹاخہ بجنے پر آتا ہے تو شیشم کا ایک حقیر سا پتہ ‘ وزن میں ہلکا‘ حجم میں بے مایہ‘ پیٹ پھاڑ کر رکھ دیتا ہے۔ ہے کوئی جو عبرت پکڑے؟ ہے کوئی جو ہم گاؤں کے نیم خواندہ کسانوں اور کھردرے ہاتھو ں والے چرواہوں سے سبق سیکھے ! زندگی کا سبق !
یوں بھی ہوتا ہے کہ آندھی کے مقابل چڑیا
اپنے پر تولتی ہے!
اک بھڑکتے ہوئے شعلے پہ ٹپک جائے اگر
بوند بھی بولتی ہے !