دنیا کی امامت ہمارے کاندھوں پر ہے

پہلے بھارت کی بات کرتے ہیں۔
تکبر کے آسمان سے نیچے اُترنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ پورے بھارت کو ہندو بنا کر چھوڑنا ہے۔ جو نہیں بنے گا اسے رہنے کا حق نہیں۔ کینسر کا علاج گئو موتر سے کرنا ہے۔ گائے پر ہاتھ پھیرنے سے بلڈ پریشر نارمل رہتا ہے۔ گائے ذبح کرنا تو دور کی بات ہے بکرے کا گوشت بھی جس گھر میں پایا گیا اسے جلا کر راکھ کر دیا۔گجرات میں مسلمانوں کا جینا حرام کر دیا۔ آسام میں ہزاروں کو شہریت ہی سے بے دخل کر دیا۔ تکبر مآب جناب ادتیا ناتھ یو پی کے چیف منسٹر بنے تو قیامت برپا کر کے رکھ دی۔صدیوں سے جو نام شہروں کے چلے آرہے تھے‘ مسلم دشمنی میں انہیں تبدیل کرنا شروع ہو گئے۔ مدرسوں کو حکم دیا کہ ترنگا لہرائیں اور ثقافتی آمیزش کی طرف قدم بڑھائیں۔ امیت شاہ اپنے آپ کو بھارت کا نہیں‘ پوری دنیا کا وزیر داخلہ سمجھنے لگے۔دہلی میں فسادات ہوئے۔ مسلمانوں کو چن چن کر مارا گیا۔ مودی ڈھاکہ گئے تو بڑ ہانکی کہ بنگلہ دیش بنانے میں ان کا بھی کردار تھا۔ کامیابی کے سو باپ ہوتے ہیں۔ ہر کوئی دعویدار بن جاتا ہے۔ پہلے کانگرس نے اور پھر بی جے پی نے ایک ایک بھارتی کے دل میں پاکستان دشمنی کا زہر اُتارا۔ ایک واقعہ یاد آگیا۔ دیارِ غیر میں بھارتی نوجوان پہنچا تو اتفاق سے اسے پاکستانی تارکینِ وطن سے واسطہ پڑا۔ انہوں نے اسے رہائش دی۔ ملازمت ڈھونڈنے میں مدد کی۔ وہ ساری رہنمائی کی جس کی ایک نووارد کو ضرورت ہوتی ہے۔ کئی ماہ گزر گئے۔ ایک دن بھارتی نوجوان نے اپنا سینہ کھول دیا کہ میں جب آرہا تھا تو ماں باپ نے نصیحت کی تھی کہ کسی پاکستانی سے میل جول نہ رکھنا۔ اعتماد نہ کرنا۔مگر یہاں تو صورتحال ہی اور ہے۔
اب ذرا اپنے گریبان میں جھانکتے ہیں۔ پوری دنیا ہماری نگاہوں میں حقیر ہے۔ لال قلعے سے لے کر وائٹ ہاؤس تک ہر جگہ ہم نے اپنا پرچم لہرانا ہے۔ اندلس کی حکمرانی ہمارے ذہن سے نکل نہیں رہی۔ کرۂ ارض ہماری ہی تو جاگیر ہے۔ کوئی ہمارے مشاغل ذرا آکر دیکھے۔ ایک یوٹیوبر مولانا فخر سے کہتے ہیں کہ میں تو بات ہی اختلافی مسائل پر کرتا ہوں۔ ہاتھ باندھنے اور ہاتھ چھوڑنے پر‘ ہاتھ اُٹھانے اور نہ اُٹھانے پر‘ فلاں لفظ بلند آواز میں کہنے اور دل میں کہنے پر‘ پاؤں کھول کر رکھنے اور نہ رکھنے پر‘ ہاتھ سینے پر باندھنے اور ناف پر باندھنے پر‘ آج بھی مناظرے‘ مجادلے اور مقاطعے ہو رہے ہیں۔ چودہ سال میں جو جھگڑے طے نہیں ہوئے ‘ وہ آج طے کرنے کیلئے مزید جھگڑے کھڑے کیے جا رہے ہیں۔ کافر کو مسلمان کرنا مشکل ہے مگر مسلمانوں کو کافر قرار دینا آسان ہے ‘سو یہی سہی! بازاروں میں کھوے سے کھوا چھِل رہا ہے۔ ہوش ہے نہ پروا !
دونوں ملک ‘ ایک دوسرے کو للکار رہے ہیں۔ میزائلوں کی دوڑ ہے کہ ختم نہیں ہو رہی۔ مقابلہ اس میں ہے کہ کس کا جوان ٹانگ اپنے سر سے کتنی اونچی لے جا کر ایڑی زمین پر کتنے زور سے مارتا ہے۔ حالت یہ ہے کہ ایک کے پاس ویکسین نہیں تو دوسرے کے پاس آکسیجن نہیں۔ ایک وینٹی لیٹرز کو ترس رہا ہے تو دوسرے کے شمشان گھاٹوں پر لکڑیاں تک نہیں مل رہیں۔
ایٹم بم بنانے میں پیش پیش یہ دونوں ملک اپنے عوام کو تعلیم سے‘ شعور سے‘ عقل سے‘ کامن سینس سے‘ توازن سے اور قوتِ برداشت سے آشنا نہیں کر سکے۔ ایک کے ہاں کنبھ میلہ چل رہا ہے۔ لاکھوں یاتری گنگا میں ڈبکیاں لگا رہے ہیں اور کورونا کا تحفہ اپنے اپنے شہر لے جا رہے ہیں۔ دوسرے کے ہاں ابھی یہی نہیں طے ہو رہا کہ کورونا اصل میں کوئی شے ہے یا محض ایک سازش ہے۔ جن کے پیغمبر نے ڈیڑھ ہزار سال پہلے ہدایت کی تھی کہ وبا پھوٹے تو وہاں سے نکل کر باہر نہ جاؤ اور باہر سے وہاں جانے کی کوشش نہ کرو‘ وہ لوگوں کو یہ بتا رہے ہیں کہ چھوت سے کچھ نہیں ہوتا! ہاتھ ملانے سے کچھ نہیں ہوتا۔ معانقہ کرنے سے کچھ نہیں ہوتا !
انسان ورطۂ حیرت میں گم ہو جاتا ہے جب یہ سوچتا ہے کہ وہ قوم جو دنیا بھر کی پابندیوں ‘ رکاوٹوں اور ناقابلِ بیان مشکلات کے باوجود ایٹم بم بنا ڈالتی ہے‘ ویکسین نہیں بنا سکی ! جو ملک وزیروں اور افسروں کی موٹی تنخواہیں ‘ دورے‘ اور عوامی نمائندوں کی مراعات پوری کرنے کیلئے دنیا بھر کے مالی اداروں سے قرض پر قرض لے سکتا ہے وہ ویکسین خریدنے کیلئے کیوں نہ قرض لے سکا؟ خیراتی ویکسین کیلئے کیوں جھولی پھیلا ئے ہوئے ہے؟ عقل اس کا جواب دینے سے قاصر ہے کہ جو قوم فخر سے دعویٰ کرتی ہے کہ صدقات اور عطیات دینے میں ٹاپ پر ہے‘خیراتی طعام گاہیں کھولنے میں جس کا جواب نہیں‘ فلاحی کاموں میں جو دل کھول کر خرچ کرتی ہے اس کا مالدار طبقہ ایک ایسی تنظیم کیوں نہیں بنا سکا جو ویکسین خرید کر حکومت کو دے یا اپنے طور پر عوام کو لگانے کا بند و بست کر دے۔یہ چنیوٹی‘ یہ سیالکوٹی‘ یہ لاکھانی‘ یہ میمن‘ یہ شیخ‘ یہ برانڈرتھ روڈ کے سیٹھ‘ یہ جوڑیا بازار کے کروڑوں اربوں میں کھیلنے والے بیوپاری‘ یہ افغان بارڈر کے پار سینکڑوں کے حساب سے ٹرک بھیجنے اور منگوانے والے بڑے بڑے خان‘ یہ کارخانوں کے مالک‘ یہ جاگیردار‘ یہ سب مل کر ویکسین درآمد نہیں کر سکے ؟ تُف ہے ایسے مال پر جو مشکل میں دوسروں کے کام نہ آئے۔
رہی حکومت تو اس کا کیا ہی کہنا ! اس کی ترجیحات واضح ہیں۔ اس کی سوئی ایک ہی خاندان پر اٹکی ہوئی ہے اور یہ اس حکومت کا کمال ہے کہ ایک ہی خاندان کی مسلسل‘ شب و روز‘ کردار کُشی اس قدر کی کہ اس خاندان کے کٹر ناقد بھی اب اس کیلئے دل میں ہمدردی لانے پر مجبور ہو گئے۔ لوگ مر رہے ہیں اور وزیر اعظم عوام کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جسے وزیر اعلیٰ لگایا ہے وہ بہتر انتخاب ہے!
ویکسین بنانی بھی نہیں ! خریدنی بھی نہیں ! کورونا فنڈ قائم کیا گیا تھا‘ اس کا بھی کچھ نہیں بتانا! جس شرح سے ویکسین لگائی جا رہی ہے‘ اس حساب سے پچیس کروڑ کی آبادی کو لگانے کے لیے عمر ِنوح درکار ہے! ادھر ملک کے حکمران کی نیندیں اس فکر میں حرام ہو رہی ہیں کہ فلاں کو وزیر کیوں بنایا اور فلاں کو وزیر کیوں نہیں بنایا ؟ پچپن مسلمان ممالک میں سے کوئی ایک بھی اس قابل نہیں کہ ویکسین بنا سکے۔ دوسروں کو مہیا کرنا تو دور کی بات ہے ‘ اپنے عوام کی ضروریات ہی پوری کر لے۔ کفار کی کارکردگی ملاحظہ فرمائیے۔ تین مارچ 2021ء تک کے اعدادو شمار کی رُو سے چین‘ ویکسین کی ایک سو اکتالیس اعشاریہ چھ ملین خوراکیں تیار کر چکا ہے۔ امریکہ ایک سو تین ملین‘جرمنی اور بلجیم مل کر ستر اعشاریہ پانچ ملین‘بھارت بیالیس ملین ‘برطانیہ بارہ ملین‘نیدر لینڈ اور بلجیم مل کر ساڑھے دس ملین‘روس ساڑھے دس ملین ‘سوئٹزر لینڈ ساڑھے پانچ ملین‘جنوبی کوریا ڈیڑھ ملین ‘برازیل دو لاکھ اور جنوبی افریقہ ایک لاکھ ساٹھ ہزار خوارکیں تیار کر چکا ہے۔
مگر گھبرانے کی بات نہیں۔ ہم سے دنیا کی امامت کا کام لیا جائے گا۔ یہ اور بات کہ ہم ابھی حروفِ تہجی سیکھنے کے مرحلے میں ہیں کہ بقول غالب ؔ ؎
لیتا ہوں مکتبِ غمِ دل سے سبق ہنوز
لیکن یہی کہ رفت گیا اور بود تھا

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں