نقارہ بج رہا ہے!

موت کا پرندہ پر پھیلائے فضا میں منڈلا رہا ہے۔ جہاں جہاں اس کے پروں کا سایہ پڑ رہا ہے‘ صفِ ماتم بچھتی جا رہی ہے۔ شادیانوں کی آواز آہ و بکا میں تبدیل ہو رہی ہے۔
یہ ایک معمول کی صبح تھی۔ تازہ خبریں جاننے کیلئے آئی پیڈ کھولا‘ مگر جس اطلاع پر نظر پڑی نا قابلِ یقین تھی۔ سید آفتاب احمد شاہ کی وفات ہو گئی! ابھی تین چار دن پہلے ہماری طویل بات ہوئی تھی۔ اس نے اپنی تازہ نعت کے اشعار سنائے تھے۔ ایک سکتہ تھا جو مجھ پرطاری ہوگیا۔ پچپن برس کی دوستی! جس میں کبھی کوئی رخنہ نہیں پڑا۔ کبھی ہلکی سی کشیدگی نے بھی سر نہیں اٹھایا۔
آفتاب احمد شاہ بنیادی طور پر ایک فقیر تھا! ایک مجذوب! ہر حال میں فقیر رہا۔ طالب علم تھا تو فقیر۔ ڈپٹی کمشنر تھا تو فقیر۔ وزیر اعلیٰ اور پھر وزیر اعظم کا معاون رہا تو فقیر! ریٹائر ہوا تو ملازمت سے ریٹائرمنٹ ہوئی فقیری سے نہیں! افسری سے اس کا کبھی کوئی تعلق نہیں رہا۔ اس کے بزرگ بھی فقیر تھے۔ اس کے جدِ امجد کے پاس سائل آیا۔ پاس کچھ نہیں تھا تو قمیص اتار کر دے دی اور خود چٹائی لپیٹ لی۔ آفتاب ایسا ہی تھا! بالکل ایسا! جس حجرے میں آخری سال گزارے اس کا نام فقیر خانہ تھا۔ اپنی قبر کی جگہ خود متعین کر گیا۔ لوحِ تربت پر اپنا نام خود کَندہ کرا گیا۔
انیس‘ انیس برس کے تھے جب ہم دونوں شہرِ سبزہ و گُل‘ ڈھاکہ پہنچے۔ میں اس سے دس دن پہلے وہاں اُتر چکا تھا۔ پہلی رات وہ میرا مہمان رہا۔ یہ اکتوبر 1967ء کی بات ہے۔ دونوں اقتصادیات کے طالب علم تھے۔ ہاں اس نے ساتھ ساتھ ‘ ڈھاکہ ہی سے‘ وکالت کا امتحان بھی پاس کر لیا تھا۔ پوری زندگی میں جن تین چار افراد کی ذہانت نے ہمیشہ مبہوت رکھا‘ آفتاب ان میں پہلے نمبر پر تھا۔ آخری ایک ہفتہ پڑھتا اور ہر امتحان میں ٹاپ کرتا۔ اس نے مجھے کلاسیکی شاعری اور میں نے اسے ماڈرن شاعری کی طرف راغب کیا۔ پیسے کے حساب کتاب میں کوئی من و تو نہیں تھا۔ جس کو جتنے پیسے ضرورت پڑتے‘ دوسرے سے لے لیتا۔ یہ ایک غیر اعلانیہ مشترکہ کھاتا تھا جس میں سالہا سال بدمزگی کا شائبہ نہ پڑا‘ یہاں تک کہ زمانے کی گردش نے ہمیں اپنی اپنی ملازمتوں اور کنبوں کی ذمہ داریوں سے ڈھانپ دیا۔ ہم نے اکٹھے مشرقی پاکستان کے طول و عرض کو ماپا۔ میمن سنگھ کے گاؤں تھے یا سلہٹ کا نواح‘ جہاں سے اُس وقت کا آسام کا دارالحکومت‘ شیلانگ‘ صرف چالیس میل دور تھا‘ ہم نے کئی سفر کیے۔ بنگال کے چمن زاروں میں پرندوں کے گیت سنے۔ اُن تالابوں کے ٹھنڈے میٹھے کناروں پر بیٹھے جن میں اینٹوں سے بنی سیڑھیاں اترتی تھیں اور جن کے چاروں طرف آم کے گھنے درخت تھے! کنول کے پھولوں سے ڈھکی ہوئی جھیلوں میں کشتیاں چلائیں۔ مچھیروں کے گیت سنے۔ مرن چند کی شہرہ آفاق دکان سے مٹھائی کھائی۔ سبز ناریل کے پانی پیے۔ شاعری کی۔ راتوں کو جاگے۔ پھر امتحان پاس کیے اور ڈگریاں لیں۔ عجیب اتفاق تھا کہ ہمارے معاملات حیران کن حد تک یکساں رہے۔ بقول مجید امجد‘ جو ہم دونوں کا پسندیدہ شاعر رہا اور جس کا بیشتر کلام ہم دونوں کو حفظ تھا؎
جو تم ہو برقِ نشیمن تو میں نشیمنِ برق
الجھ گئے ہیں ہمارے نصیب! کیا کہنا!
ایک جیسے خانوادے! وہ سید زادہ تھا‘ ایک بڑی گدی کا وارث! میں علما کے خاندان کا بے علم فرد! اور سیدنا علی مرتضیؓ کی غیر فاطمی اولاد! ہم دونوں کے گریجوایشن میں نمبر ایک جیسے تھے۔ دونوں کو شاعری کی لت تھی۔ دونوں مٹھائی پر جان دیتے تھے۔ دونوں ٹھیٹھ پنجابی بولنے کے حق میں تھے! دونوں تہمد پوش! دونوں منہ پھٹ اور دونوں حماقت کی حد تک مصلحت کیشی سے نا آشنا! ڈھاکہ سے آ کر بھی یہ یکسانیت قائم رہی۔ دونوں نے اکٹھے بینک کی نوکری شروع کی۔ میں نے ایک ہفتہ بعد چھوڑی تو اس نے چند ماہ بعد۔ دونوں نے اکٹھے لیکچررشپ کے لیے انٹرویو دیا۔ اکنامکس کی تین اسامیاں تھیں۔ ایک سو سترہ امیدوار تھے۔ ہم دونوں منتخب ہوئے۔ اُس کی تعیناتی گورنمنٹ کالج جہلم ہوئی۔ میری گورنمنٹ کالج تلہ گنگ! اس نے کچھ عرصہ پڑھایا۔ میں نے جوائن ہی نہ کیا کہ اسلام آباد سے بندھا ہوا تھا۔ ہاں مقابلے کے امتحان میں‘ میں پہلے بیٹھا اور پاکستان آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس سروس کے لیے منتخب ہوا۔ اس نے ایک سال بعد امتحان دیا اور ضلعی انتظامیہ (ڈی ایم جی) کی سروس پائی۔
پرسوں‘ اس دنیا سے کوچ کرنے تک ہم‘ ہم نفس و ہمدم رہے۔ جب بھی تازہ شعر کہتا‘ فون کرتا اور کہتا اوئے مولوی! شعر سن! دل کی بات کہنا ہوتی تو سب سے پہلے مجھے بتاتا۔ اس کی ذاتی زندگی میں بہت سے المیے در آئے۔ ایک ایک بات شیئر کرتا۔ مشورہ کم ہی مانتا۔ اس کا اپنا مزاج تھا۔ میں اسے کہا کرتا کہ شہنشاہ ہمایوں کے بعد تم سے زیادہ متلوّن مزاج کوئی نہیں! اپنے دل کی طرح‘ ہر ایک کو مخلص گردانتا۔ لوگ فائدہ اٹھا کر دھوکہ دیتے مگر ہنستا اور کہا کرتا کہ زمانہ ہر ایک کو بے نقاب کر دیتا ہے۔ دھوکہ دینا‘ جھوٹ بولنا‘ حقیقت پر پردہ ڈالنا اس کیلئے مشکل ہی نہیں ناممکن تھا۔ جو اندر تھا‘ وہی کچھ باہر تھا‘ اس سے نقصانات بھی ہوئے۔ دوسروں کے نفاق کا ذکر کرتا تو یہ شعر ضرور پڑھتا ؎
چلنے والے نکل گئے ہیں
جو ٹھہرے ذرا کچل گئے ہیں
یہاں چلنے والوں سے اس کی مراد چالو قسم کے لوگ ہوتے۔ وہ اس زمانے کا نہیں‘ کسی اور زمانے کا تھا۔ یا تو بہت پہلے کے زمانے کا! یا بہت بعد میں آنے والے کسی زمانے کا!
وہ دن نہیں بھلایا جا سکتا جب اسلام آباد کے قبرستان میں‘ میرے والد گرامی مرحوم کی قبر کے پاس آلتی پالتی مار کر بیٹھا‘ آفتاب‘ رو رہا تھا۔ کل میرا چھوٹا بھائی انتصار کہہ رہا تھا کہ ''آفتاب بھائی جان میرے لیے ہر بار جیلی والی ٹافیاں لایا کرتے تھے جن پر چینی لگی ہوتی تھی‘‘۔ میرے دوسرے بھائی‘ جواں سال انوار کی‘ ایک حادثے میں وفات ہوئی تو آفتاب تلہ گنگ کا اسسٹنٹ کمشنر تھا۔ بوجھل قدموں کے ساتھ گھر کے صحن میں داخل ہوا۔ گھی کے کنستر کے ساتھ کہ یہی ہماری دیہی ثقافت تھی۔ گاؤں کے ایک عزیز اس کے پاس کسی کام کے لئے لے گئے۔ ان کا کام تو ہو گیا مگر مجھے آفتاب نے کئی دن تلہ گنگ سے واپس نہ آنے دیا۔ بڑے شاہ صاحب مرحوم وہیں تھے۔ وہ آفتاب کو کچھ سمجھانا چاہتے تھے۔ میری ڈیوٹی لگائی کہ اسے سمجھاؤں۔
بچوں کے حوالے سے قدرت نے اسے بہت نوازا۔ گویا کچھ محرومیوں کا ازالہ کر دیا۔ ان کے روزگار کے لیے کسی کے آگے دستِ سوال دراز نہیں کرنا پڑا۔ تینوں بچے لائق اور خدمت گزار! صائمہ تو پل پل کی خبر رکھتی تھی۔ ہر ممکن طریقے سے اس نے باپ کا خیال رکھا۔ کچھ ماہ ہی ہوئے ہیں کہ صائمہ بیٹی نے میری اور آفتاب کی پچپن سالہ رفاقت کا جشن منایا۔ یہ اعزاز بھی مجھے ملا کہ پہلے آفتاب کی شعری کلیات کا دیباچہ لکھا۔ پھر صائمہ کے مجموعہ کلام کا۔ وہ کہا کرتا کہ صائمہ اس سے بہتر شعر کہتی ہے۔ یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں میں تحدیثِ نعمت کی چمک ہوتی۔ چمک جو ایک باپ ہی کی آنکھوں میں ہو سکتی ہے۔
موت نقارہ بجائے جا رہی ہے۔ یارِ دیرینہ شعیب بن عزیز کی بڑی بہن لندن میں دنیا سے منہ موڑ گئیں۔ دہلی میں اردو ادب کی آبرو شمیم حنفی نے خاک کی چادر اوڑھ لی ؎
قبر کے چوکٹھے خالی ہیں‘ انہیں مت بھولو
جانے کب کون سی تصویر سجا دی جائے

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں