ایک غریب، بے نوا شاعر سے بادشاہ کسی بات پر ناراض ہو گیا۔ یہ بادشاہ بھی بالکل اللہ لوک تھے۔ مُوڈی! پل میں تولہ پل میں ماشہ! ذرا سی بات بری لگی تو مینار سے گرانے کا حکم دے دیا یا ہاتھی کے پاؤں تلے لٹا دیا۔ کبھی کسی کی آنکھوں میں سلائی پھروا دی۔ کبھی کسی کو پوست کا عرق پلوا پلوا کے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ خوش ہوئے تو منہ موتیوں سے بھر دیا۔ کسی کو سونے میں تلوا دیا۔ کسی کو گاؤں کے گاؤں جاگیر میں عطا کر دیے۔ کسی کو شوگر مل لگوا دی۔ کسی کو دو پلاٹ الاٹ کر دیے کہ ایک کو بیچ کر دوسرے پر مکان تعمیر کر لو۔ کسی کو مشیر لگا دیا تو کسی کو سفیر! کسی کو چیف سیکرٹری سے ہٹایا تو ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں سفیر لگا دیا، کسی کو وزارت سے ہٹایا تو پارٹی کا بڑا عہدہ دے دیا۔ ہمارے تو گورنر بھی مغل بادشاہوں سے کم نہیں۔ سول ایسوسی ایشن کا سربراہ چننے کے لیے ڈھنڈورا پیٹا گیا یعنی اشتہار دیے گئے۔ چھ سو امیدواروں نے درخواستیں دیں۔ اٹھارہ کا انٹرویو ہوا۔ اس کے بعد گورنر صاحب کے سیکرٹری کو تعینات کر دیا گیا جو درخواست دہندگان میں تھے نہ انٹرویو دینے والوں میں۔ پہلے تو کہانیاں سنی تھیں کہ فلاں ریاست کے بگڑے ہوئے نواب یا راجہ نے جج کی کرسی پر ڈاکٹر کو بٹھا دیا اور جج چھٹی سے واپس آیا تو چیف انجینئر کی اسامی خالی تھی، وہاں لگا دیا۔ مگر اب تو جو سنتے تھے وہ دیکھ بھی لیا۔ ہمارے ایک بادشاہ سلامت ایک ڈاکٹر صاحب کو نوازنا چاہتے تھے۔ انہیں پٹرولیم کا وزیر لگا دیا۔ دوسرے بادشاہ نے ذاتی دوست کو برما میں ایلچی بنا دیا۔ تیسرے بادشاہ سلامت نے، ان کرمفرماؤں کو جو فنڈ اکٹھا کرنے میں تعاون کرتے رہے تھے، مناصب عطا کر دیے۔
قلم بے راہرو ہے۔ بھٹک جاتا ہے۔ بات اُس شاعر کی ہو رہی تھی جس سے بادشاہ ناخوش ہوا اور اسے قیدِ تنہائی میں ڈال دیا۔ وزیر باتدبیر نے عرض کیا کہ یہ تو کوئی سزا نہیں۔ یہ تو ہم سب جانتے ہی ہیں کہ ہر بادشاہ کے وزیر ہوتے ہیں۔ بادشاہ کا بخت اچھا ہو تو نظام الدین طوسی یا راجہ ٹوڈر مل جیسے وزیر ملتے ہیں۔ اور اگر بخت سیاہ ہو تو وزیر ... اچھا چھوڑیے، آپ سمجھ تو گئے ہوں گے جو یہ کالم نگار کہنا چاہتا ہے۔ وزیر نے سمجھایا کہ جہاں پناہ! قیدِ تنہائی تو شاعر کے لیے انعام سے کم نہیں۔ خلوت ہی تو شعرا کو مطلوب ہوتی ہے۔ سکون سے فکرِ سخن کرے گا۔ بادشاہ نے پوچھا: پھر کیا کرنا چاہیے ۔ وزیر نے بتایا کہ سزا دینا ہے تو اسے صحبتِ ناجنس میں جھونکیے‘ دماغ ٹھکانے آجائے گا۔ چنانچہ ایک جاہل، اجڈ، بدتمیز اور بے سروپا شخص کو اس کی کوٹھری میں بھیج دیا گیا۔ شاعر نے اس سے پوچھا تم کون ہو۔ اس نے جوابی سوال کیا کہ تم کون ہو۔ شاعر نے کہا: میں شاعر ہوں۔ اجڈ جاہل بولا: میں ماعر ہوں۔ اس کے بعد جو مکالمہ ہوا وہ یوں تھا:
شاعر: ماعر کیا ہوتا ہے؟
ماعر: تم بتاؤ شاعر کیا ہوتا ہے؟
شاعر: شاعر وہ ہوتا ہے جو شعر کہے۔
ماعر: ماعر وہ ہوتا ہے جو مِعر کہے۔
شاعر: مِعر کیا ہوتا ہے؟
ماعر: پہلے تم بتاؤ شعر کیا ہوتا ہے؟
شاعر: شعر اس طرح کا ہوتا ہے۔ باغ میں پھرتے ہیں کیا خوش خوش چکور
ماعر: مِعر اس طرح کا ہوتا ہے۔ ماغ میں مِرتے ہیں کیا مُش مُش مِکور۔
اس معرکہ آرا تاریخی مکالمے پر شاعر نے اپنا سر پیٹ لیا۔ بادشاہ سے غلطی کی معافی مانگی، کانوں کو ہاتھ لگایا اور صحبت ناجنس سے جان چھڑائی۔
اِس پُر آشوب عہد میں کسی کو صحبت ناجنس کی سزا دینا ہو تو جیل میں ڈالنے کی ضرورت ہے نہ کسی احمق کو اس کے پاس بھیجنے کی! اکبر الٰہ آبادی نے کہا تھا:
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
اُس زمانے میں سوشل میڈیا کی جیل تھی نہیں ورنہ شاعر کو اس میں ڈالتا تو نتیجہ تیر بہدف نکلتا۔ آپ ای میل کھولتے ہیں۔ ایک صاحب نے چالیس پچاس افراد کی طرف ای میل کمان میں رکھ کر پھینکی ہے۔ آپ بھی اُن چالیس لوگوں میں شامل ہیں جو اس بلائے بے درماں کا شکار ہوئے ہیں۔ چلیے! یہاں تک تو خیر تھی۔ آپ ای میل ڈیلیٹ کر دیں گے‘ مگر اب یہ چالیس حضرات، میل بھیجنے والے ان صاحب کو جوابی میل بھیجیں گے اور ہر میل آپ کے پاس بھی آئے گی۔ موضوع میں بھی آپ دلچسپی نہیں رکھتے مگر یہ لامتناہی سلسلہ اب آپ کو بھگتنا پڑے گا۔ کب تک ڈیلیٹ کریں گے؟ کہاں تک کریں گے؟ ہر بار غصہ آئے گا۔ آپ کی پُرسکون زندگی کے تالاب میں کئی دن تک پتھر پھینکے جاتے رہیں گے۔ اس کالم نگار نے ایسی ای میلز کو اپنے آئی پیڈ پر بلاک کرنے کی کوشش کی مگر بات بنی نہیں! قہر درویش بر جان درویش! میر صاحب نے کہا تھا:
زار روتا چشم کا کب دیکھتے
دیکھیں ہیں لیکن خدا جو کچھ دکھائے
مگر یہ تو معمولی درد سر ہے۔ چیخیں نکلوانے والی درد کی ٹیسیں دیکھنی ہوں تو فیس بک پر یا میسنجر پر آکر تماشہ دیکھیے۔ جب کوئی اَیڈ (Add) کرنے کے لیے کہتا ہے تو یہ دیکھا جاتا ہے کہ ادب سے یا شاعری سے اس کا کیا تعلق ہے۔ مگر یہ تو ہاتھی کے دانت ہیں۔ ڈھنگ کی ایک پوسٹ دیکھنے کے لیے آپ کو کئی فضول اور مہمل پوسٹوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ پہلے بھی عرض کیا تھا کہ سوشل میڈیا ایک سمندر ہے جس میں جواہر تو ہیں لیکن شارک، مگر مچھ، کیکڑے، آکٹوپس اور جیلی فش کی ایسی اقسام بھی ہیں جو ڈنک مارتی ہیں اور جسم کے ساتھ چمٹ جاتی ہیں۔ کچھ صاحبان آئے دن اپنی نئی تصویر لگاتے ہیں۔ ارے بھئی! آپ کی تلوار مارکہ مونچھیں اور پہلوان ٹائپ کا پوز ہم کیوں دیکھیں۔ کچھ صاحبان عقل یہ پوچھتے پھرتے ہیں کہ دس ہزار سے کون سا بزنس شروع کریں۔ ایک دانشمند نے تو حد کر دی۔ اپنے والد یا چچا کی ایسی دردناک تصویر لگائی کہ ہسپتال میں بے سدھ، جاں بلب پڑے ہیں۔ کئی قسم کی ٹیوبیں ناک اور منہ میں لگی ہیں۔ کیا سنگدلی ہے کہ رو کر، گڑگڑا کر ان کی صحت کے لیے دعائیں کرنے کے بجائے، فوٹو کھینچ رہے ہیں اور پھر فیس بک پر لگا رہے ہیں! احرام میں ملبوس ہو کر تشہیر کرنے کی بیماری تو جیسے عام ہی ہو گئی ہے حالانکہ احرام پوشی، عبادت کا حصہ ہے اور عبادت کی تشہیر کسی صورت مستحسن نہیں۔ رہے خارج از وزن اشعار لگانے والے تو وہ ایک الگ درد سر ہیں۔ کوستے جائیے اور اَن فالو کرتے جائیے مگر کوفت جو ہوتی ہے اس کا کیا کیجیے گا؟
وٹس ایپ اور میسنجر کی کیٹیگری ملتی جُلتی ہے۔ کوئی وڈیو کلپ یا تصویر آپ کو پسند ہے، کسی کا قول زریں آپ کو اچھا لگتا ہے تو ضرور محظوظ ہوں۔ مگرضروری نہیں کہ دوسروں کو بھی یہ پسند آئے۔ سوشل میڈیا اصل میں تو، ہم ذوق اور قریبی دوستوں کے لیے ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ کیا شیئر کرنا ہے اور کیا نہیں! مثلاً قریبی دوستوں کو معلوم ہے کہ میں مغربی پنجاب کے لوک گیتوں کا شیدا ہوں۔ سو وہ بھیجتے رہتے ہیں۔ پوٹھوہاری بیت کا بھی، جو کسی زمانے میں ریڈیو پر گائے جاتے تھے، اپنا مزا ہے۔
سجاد حیدر یلدرم کا مضمون مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ ہمارے ادب میں کلاسیک کا درجہ پا چکا ہے‘ مگر یہاں تو دوست غنیمت ہیں۔ ہاں! حمیرا ارشد کا گایا ہوا گیت زیادہ برمحل لگ رہا ہے:
نہ کوئی جان نہ پہچان، ایویں دھکے دا مہمان...