یہ دو خبریں ہیں بالکل مختلف !
پہلی خبر یہ ہے کہ ہمارے معزز ایوانِ بالا نے ‘ جسے ہم سینیٹ کہتے ہیں‘ رواں مالی سال کے پہلے سات مہینوں میں ‘ یعنی گزشتہ سال یکم جولائی سے لے کر اس سال جنوری تک‘ ایک ارب 23 کروڑ سے زیادہ کے اخراجات کیے ہیں۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے:
اعزازی تنخواہیں( یعنی نارمل تنخواہوں کے علاوہ اعزازیے) پانچ کروڑ 37 لاکھ روپے۔ کھانے کی مد میں‘ پانچ کروڑ بائیس لاکھ روپے۔ اوور ٹائم‘ چھیانوے لاکھ روپے۔ نئی گاڑیاں‘ آٹھ کروڑ دس لاکھ روپے۔سفری ( ٹریولنگ) الاؤنس‘دو کروڑ تریسٹھ لاکھ روپے۔پٹرول‘ ایک کروڑ 23 لاکھ روپے۔گریڈ بیس تا بائیس کے افسران کا مونیٹائزیشن الاؤنس‘ ایک کروڑ سے زائد۔ بیرونی ممالک کے دورے‘ ایک کروڑ پچاس لاکھ روپے۔فرنیچر اور اشیا‘ایک کروڑ بیاسی لاکھ روپے‘ تفریح اور تحائف‘چھ لاکھ انتالیس ہزار روپے۔بیرونی ممالک سے آنے والے وفود کے انتظامات‘ ایک کروڑ 23 لاکھ روپے۔
یہاں یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ گریڈ بیس تا بائیس کے افسروں کے مونیٹائزیشن الاؤنس پر جو ایک کروڑ سے زیادہ کا خرچ ہوا ہے یہ کیا ہے۔ کچھ سال پہلے یہ فیصلہ ہوا تھا کہ بیس‘ اکیس اور بائیس گریڈ کے افسران سرکاری گاڑیاں اور سرکاری ڈرائیور استعمال نہیں کریں گے بلکہ ذاتی گاڑیاں استعمال کریں گے۔ اس کی تلافی کیلئے انہیں ماہانہ الاؤنس دیا جاہے گا تا کہ ذاتی گاڑیوں کے اخراجات پورے کر سکیں۔ اسے مونیٹائزیشن (Monetization)کہا جاتا ہے۔ گریڈ بیس کے ہر افسر کو65960 روپے ماہانہ‘ تنخواہ کے علاوہ ‘ملتے ہیں۔ گریڈ اکیس کے افسر کو77430 روپے تنخواہ کے علاوہ ماہانہ اور گریڈ بائیس کے افسر کو ہر ماہ تنخواہ کے علاوہ 95910روپے ملتے ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ ہمارے افسران یہ بھاری بھرکم الاؤنس لینے کے بعد‘ سرکاری گاڑیاں اور سرکاری ڈرائیور استعمال نہیں کرتے ہوں گے؟ یقینا کچھ ایسے افسر موجود ہیں جو خدا اور آخرت کا خیال رکھتے ہیں اور حرام حلال کی تخصیص کرتے ہیں مگر بہت سے ایسے بھی ہیں جو سرکاری گاڑیوں اور ڈرائیوروں کو بھی استعمال کر رہے ہیں اور الاؤنس بھی لیے جا رہے ہیں۔ میڈیا میں کئی بار شور مچا ہے کہ اس سہولت کا غلط فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔
اب سینیٹ ہی کو دیکھ لیجیے۔ مونیٹائزیشن الاؤنس کی مد میں رواں مالی سال کے صرف سات مہینوں میں ایک کروڑ روپے سے زائد کی رقم افسروں کو دی گئی ہے۔ اس کے باوجود پٹرول پر تقریباً سوا کروڑ روپے لگائے گئے اور آٹھ کروڑ دس لاکھ کی نئی گاڑیاں اس کے علاوہ خریدی گئیں۔ اگر تیس لاکھ روپے کی بھی ایک گاڑی ہو تو اس کا مطلب ہے کہ ستائیس نئی گاڑیاں صرف سات مہینوں کے دوران خریدی گئیں۔ آپ جب ٹماٹر دال اور گوشت کے نرخوں کے درمیان پِس رہے ہیں تو آپ کے ایوان بالا نے سات ماہ کے دوران صرف کھانے پر پانچ کروڑ بائیس لاکھ روپے خرچ کر دیے۔ واہ ! کیا کھانا ہو گا جس پر ٹیکس دہندگان کے کروڑوں اُٹھ گئے۔
یہ تو صرف ایک ادارے کا احوال ہے۔ کہاں کہاں بے رحمی اور سفاکی سے قومی خزانہ نہیں لٹایا جا رہا۔ ریلوے‘ بجلی کی کمپنیاں ‘ گیس کی کمپنیاں ‘قومی ایئر لائن‘ سٹیل مل اور کئی اور اداروں کے اپنے ہی حاضر سروس اور ریٹائرڈ ملازمین اداروں کا خون چوس رہے ہیں۔ پرانے زمانے میں طبیب جونکوں سے علاج کرتے تھے‘ اب جو جونکیں چمٹی ہوئی ہیں ان سے جان چھڑانے کیلئے کوئی طِب کارگر نہیں۔
دوسری خبر اس سے زیادہ درد ناک ہے۔ راولپنڈی کے قبرستان بھر چکے ہیں۔ کیا شہر اور کیا چھاؤنی ‘ ہر جگہ ایک جیسی صورتحال ہے۔ کچھ زمینیں ان قبرستانوں کی قبضہ مافیا نے دبا ئی ہوئی ہیں۔ لوگ اپنے مرحومین کی میتیں لے کر ایک ایک قبرستان جاتے ہیں۔ کسی کو قبر کی جگہ مل جاتی ہے کسی کو نہیں۔ کچھ قبریں نالے کے کنارے بنانا پڑ جاتی ہیں اور جب بارشیں برستی ہیں تو پسماندگان کے دلوں پر آرے چلتے ہیں۔ ہسپتالوں میں ایک ایک بیڈ پر دو دو مریض لٹانے کی نوبت تو کب کی آچکی! تو کیا اب ایک ایک قبر میں دو دو میتیں دفن کرنا پڑیں گی؟
نہیں معلوم ان دونوں خبروں کے درمیان آپ کو کوئی ربط نظر آتا ہے یا نہیں مگر مجھے تو صاف نظر آرہا ہے۔ کیا یہ وارننگ نہیں؟ وہ جو کروڑوں کے حساب سے کھانوں پر ‘ پٹرول پر‘ تفریح و تحائف پر‘ نئے فرنیچر پر اور نئی گاڑیوں پر خرچ کر رہے ہیں ‘ اور وہ بھی اپنی جیب سے نہیں ‘ بلکہ عوام کی جیب سے ‘ تو انہیں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ کل مرنا ہے۔ اور صرف مرنانہیں‘ دفن بھی ہونا ہے اور دفن ہونے کیلئے قبر بھی جانے نصیب ہوتی ہے یا نہیں۔ ہوس کی کوئی انتہا نہیں۔ ہاں جب پنڈلی سے پنڈلی جڑتی ہے اور جان گلے تک آکر نکلتی نہیں ‘ اٹک جاتی ہے اور جھاڑ پھونک کرنے والوں کو ڈھونڈا جاتا ہے اور سورہ یٰسین پڑھنے کے لیے کسی کو بلایا جاتا ہے‘ اس وقت ہوس کے مکروہ نتھنے میں نکیل پڑتی ہے۔ مگر اس وقت کی تو توبہ بھی قبول نہیں ہوتی۔
عجیب سیاہ بخت ملک ہے۔ ایک طرف لاڑکانہ‘ کراچی‘ لاہور‘ رائے ونڈ‘ گجرات‘ بنی گالہ ‘ مری ‘ لندن‘ دبئی‘ جدہ‘ نیویارک میں امرا کے وسیع و عریض محلات جو کنالوں میں نہیں ایکڑوں میں ہیں۔ دوسری طرف میتوں کی تدفین کیلئے قبرستانوں میں جگہ نہیں مل رہی۔تیس تیس ہزار روپے میں ایک ایک تدفین کی خبریں آرہی ہیں۔ تو کیا یہ تنبیہ ہے کہ ایسوں کو حکمران بناؤ گے تو سزا دفن ہونے سے پہلے ہی شروع ہو جائے گی اور میت کیلئے قبر میسر ہی نہیں ہو گی۔ زندگی یوں گزرے کہ گیس اور بجلی اور نادرا اور ایکسائز اور ٹیکس اور ویزا کے دفتروں اور ہسپتالوں اور فارمیسیوں کے چکر پہ چکر لگتے رہیں اور موت آئے تو دو گز زمین بھی نہ ملے۔
ادھر آبادی کا عفریت ہے کہ سب کچھ نگلے جا رہا ہے۔ جہاں اناج پیدا ہوتا تھا وہاں ہاؤسنگ سوسائٹیاں بن رہی ہیں۔ یا شوگر ملیں لگ رہی ہیں۔ جُوع الارض ہے کہ بڑھتی جا رہی ہے۔ ہر تیسرا ٹھیکیدار اور ہر چوتھا پراپرٹی ڈیلر ٹائیکون بننا چاہتا ہے۔ پارک‘ باغات‘ کھیل کے میدان‘ سیر گاہیں ‘ چراگاہیں تعلیمی ادارے عبادت گاہیں‘ سب دن دہاڑے ہڑپ کیے جا رہے ہیں۔ ساری دنیا میں کثیر المنزلہ عمارات بنائی جا رہی ہیں یہاں محلات پر زور ہے۔ دس دس مرلے میں سکول اور ایک ایک کنال میں کالج بن رہے ہیں۔ ملتان میں چند ہفتے پہلے کیا ہوا؟ آم کے ہزاروں درخت شہید کر دیے گئے۔ کوئی انصاف؟ کوئی پوچھ گْچھ ؟ مری‘ جو کبھی ملکہ کوہستان تھی‘ سریے اور سیمنٹ کا ڈھیر بن چکا ہے۔ کبھی ہِل سٹیشن تھا ‘ آج ہِل ہے نہ سٹیشن ! ایسے میں امداد آکاش کی مشہور غزل رہ رہ کر یاد آتی ہے
مکان ہی نہ بنائے گئے زمیں کم تھی
شجر ہوا میں اُگائے گئے زمیں کم تھی
بشر مقیم تھے قبروں میں اور نئے مردے
سمندروں میں بہائے گئے زمیں کم تھی
تمام عمر کٹی اک جگہ کھڑے رہ کر
کبھی نہ ہم کہیں آئے گئے زمیں کم تھی
بزرگ آبِ بقا پی چکے تھے اور بچے
وجود ہی میں نہ لائے گئے زمیں کم تھی
خدا نے آدم و حوا کو کر دیا پیدا
پھر آدمی نہ بنائے گئے زمیں کم تھی