رمضان کا آخری عشرہ تھا جب امین خان کی والدہ کورونا میں مبتلا ہوئیں اور وہ انہیں ہمیشہ کے لیے کھو بیٹھا۔
یہ یوسف زئی جوان، دوست ہے اور برخوردار بھی۔ دریائے سندھ کے مشرق میں رہنے والے لوگوں میں سے کم ہی یہ بات جانتے ہوں گے کہ یوسف زئی بہت بڑا قبیلہ ہے۔ کابل سے لے کر اڑیسہ اور بنگال تک پھیلا ہوا۔ بر صغیر میں جگہ جگہ ان کی ریاستیں اور حکومتیں تھیں۔ بریلی، رامپور اور نواحی علاقوں میں آباد مسلمانوں کی اکثریت آج بھی یوسف زئی ہے۔ شاید قبیلے کا اثر ہے کہ امین خان اپنے دفتر میں ہر کلائنٹ کو خود اٹنڈ کرتا ہے۔ اٹنڈ نہیں کرتا، دست گیری کرتا ہے۔ سائل ضرورت مند ہوتے ہیں اور وہ کسی کو اس کا کام کیے بغیر لوٹاتا نہیں۔ جس دن میں اس کے پاس تعزیت کے لیے گیا، اس دن بھی وہ اپنے فرائض کی سرانجام دہی میں مصروف تھا۔ قومی بچت (نیشنل سیونگز) کے اس مرکز میں آنے والے سائل زیادہ تر معمر مرد اور عمر رسیدہ عورتیں تھیں۔ میں دیکھتا رہا کہ کس طرح وہ، ایک نرم اور مہربان لہجے میں، ہر ایک سے خندہ پیشانی سے پیش آتا۔ اپنے سٹاف کو ہدایات دیتا۔ کلائنٹس کو اپنے پاس بٹھاتا۔ کاغذات ملاحظہ کر کے ان پر دستخط کرتا۔ عمر رسیدہ لوگ بات کو طول دیتے ہیں اور کچھ اُتھلے لوگ اس طوالت سے جھنجھلا اٹھتے ہیں یہ سوچے بغیر کہ بڑھاپا ان کے بھی تعاقب میں ہے۔ خمیدہ کمر والے ایک بوڑھے سے ایک بچے نے پوچھا تھا بابا! یہ جو آپ کی کمر، کمان بنی ہوئی ہے تو یہ کمان کہاں سے ملے گی‘ مجھے کھیلنے کے لیے چاہیے۔ بوڑھے نے اس کے گال تھپتھپا کر کہا تھا: انتظار کرو میرے بچے! وقت آنے پر یہ تمہیں مفت ملے گی۔ امین خان کسی بوڑھے کی طویل بات سے نہیں اکتاتا۔ شاید اس لیے کہ ہر نارمل انسان کو اپنے بڑھاپے کے قدموں کی چاپ ہر وقت سنائی دیتی ہے۔ بوڑھوں میں سب سے زیادہ حق ماں باپ کا ہے، پھر قریبی رشتہ داروں کا! اس کے بعد ہر اس بوڑھے کا حق ہے جس کی ضرورت کا علم ہو جائے اور ضرورت پوری کرنے کی استطاعت موجود ہو۔ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ فرمان منسوب ہے کہ تمہیں اس لیے رزق دیا جاتا ہے اور تمہاری اس لیے مدد کی جاتی ہے کہ تم اپنے بوڑھوں کا خیال رکھتے ہو۔ وہ ایک بوڑھا ہی تھا جس نے دربارِ رسالت میں بیٹے کی لا تعلقی کی شکایت کی اور آپﷺ نے اس کے بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا: انتَ و مالکَ لابیکَ۔ تم اور تمہارا مال، دونوں تمہارے والد کی ملکیت ہیں۔
ایک نسوانی آواز آئی: کیا میں اندر آ سکتی ہوں؟ امین خان کے دفتر کا دروازہ شیشے کا ہے۔ دیکھا تو وہ ایک ضعیفہ تھی‘ دروازہ کھولے ہوئے! جھریوں سے چہرہ اٹا ہوا‘ جیسے نقشے پر بنگال کا ڈیلٹائی علاقہ! امین خان نے کہا کہ ہاں اماں آؤ۔ وہ آئی مگر کرسی پر نہ بیٹھی۔ کاغذ اس کے کانپتے ہاتھوں میں مسلسل لرز رہے تھے۔ غنیمت ہے کہ اس نے امین خان کا گریبان نہ پکڑا مگر لگتا تھا کہ کسی بھی لمحے پکڑ لے گی۔
صاحب! تمہیں معلوم ہے کہ میرا گھر والا دنیا چھوڑ کر جا چکا ہے۔ تمہیں معلوم ہے ہماری دال، روٹی منافع کی اسی رقم سے چلتی تھی جو تمہارا دفتر اسے ہر ماہ دیتا تھا۔ اب اس کی موت کے بعد یہی رقم میرا سہارا ہے۔ مگر تمہارے دفتر نے اس کی موت کے بعد یہ رقم روک لی ہے حالانکہ مرنے والا کاغذوں میں لکھ گیا تھا کہ اس کی موت کے بعد اس رقم کی مالک میں ہوں گی۔
امین خان کے چہرے پر بے بسی کا سایہ پھیل گیا۔ گہرا سایہ!
اماں جی! پہلے تو یہی قانون تھا۔ قومی بچت کی سکیم میں رقم جمع کرانے والا اپنا وارث نامزد کر جاتا تھا‘ مگر اب نہیں! اب ایک فیصلے میں حکم دیا گیا ہے کہ مرنے والے کی رقم اس کے سارے وارثوں میں تقسیم ہو گی‘ اور یہ تقسیم عدالت کرے گی۔
مگر وارثوں میں تو میرے بیٹے بھی شامل ہوں گے‘ اور بیٹے تو مجھے ملتے ہیں نہ کچھ دیتے ہیں۔ وہ تو مجھے اپنے ساتھ رکھنے کے لیے بھی تیار نہیں‘ اسی لیے تو میرا گھر والا یہ تھوڑی سی رقم قومی بچت میں رکھ گیا تھا۔ اس کا سارا منافع تیس ہزار روپے ماہوار ہے جس سے میرے کچن کا خرچ بھی چلے گا، دواؤں کا بھی اور بجلی اور گیس کے بلوں کا بھی! غضب خدا کا! ان تیس ہزار روپے ماہانہ میں اب میرے بیٹوں کا حصہ بھی ہو گا؟ تو میں کیا کروں گی؟ کہاں جاؤں گی؟ وہ تو اپنی بیویوں کے ساتھ اپنی زندگی میں مگن ہیں۔
امین خان یوں لگتا تھا جیسے رو پڑے گا! اس نے بڑھیا کے کانپتے لرزتے‘ لکڑی جیسے خشک، چٹختے، ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے۔ اماں! میں ساری بات سمجھتا ہوں! مگر میں کچھ نہیں کر سکتا! اب نیا قانون یہی ہے۔ حکم یہی ہے کہ تیس ہزار روپے ہر ماہ تمہیں نہ ملیں‘ تمہارے ساتھ تمہارے بیٹے بھی اب اس رقم کے مالک ہیں۔
مائی لارڈ! جناب چیف جسٹس! آج کتنی ہی بوڑھی عورتیں اپنے نان و نفقہ سے محروم ہو گئی ہیں۔ ان کے شوہر اپنی زندگی کی جمع پونجی قومی بچت کے مرکزوں میں اس لیے جمع کرا گئے تھے کہ ان کے مرنے کے بعد ان کی بیویاں اپنے بیٹوں اور بہوؤں کے سامنے کشکول دھرنے پر مجبور نہ ہوں اور در در کے دھکے نہ کھائیں! مائی لارڈ! یہ سب غریب لوگ ہیں۔ امرا کی بچت تو کارخانوں، جاگیروں اور کمپنیوں میں لگتی ہے۔ قومی بچت مرکزوں میں تو بس بوڑھوں کی اتنی ہی رقمیں جمع ہوتی ہیں کہ کسی کو ماہانہ بیس ہزار‘ کسی کو پچیس ہزار اور کسی کو تیس یا چالیس ہزار روپے ملتے رہیں۔ یوں بیوہ ہونے کے بعد عورت سڑک پر نہیں آجاتی! مگر اب شوہر کے مرنے پر کیس عدالت میں جاتا ہے۔ بیٹے امریکہ میں ہوں یا یورپ میں، بیٹیاں کروڑ پتی مردوں کی بیویاں ہوں یا خود بڑی بڑی افسر، ڈاکٹر یا پروفیسر لگی ہوں، ان بیس یا تیس یا چالیس ہزار روپوں کی وراثت کی حق دار ہوں گی!
مائی لارڈ! جناب چیف جسٹس! بندہ پرور! جو مر جائے اس کی جائیداد، اس کے مکان، اس کے کھیت، وارثوں میں ضرور تقسیم کیے جائیں! مگر جناب عالی! کچن کا ماہانہ خرچ تو جائیداد ہے نہ جاگیر! اسے تو تقسیم ہونے سے بچائیے! بیوگان کی دال، سبزی، ادویات اور بلوں کے اخراجات کیسے پورے ہوں گے؟ اگر کوئی لکھ کر دے گیا ہے کہ اس کے مرنے کے بعد یہ رقم اس کی بیوہ کو ملتی رہے تا کہ وہ زندہ رہ سکے، اور اولاد کی محتاج نہ ہو! تو عالی مرتبت چیف جسٹس صاحب!گزارش ہے کہ اس فیصلے کا از خود نوٹس لے کر لاکھوں بے کس بے سہارا عورتوں کو یہ رقم دلوائیے اور ان کے سروں پر اپنا دست شفقت رکھیے!
جوش ملیح آبادی نے ان بوڑھی عورتوں کا دلخراش نقشہ کھینچا ہے:
آہ اے بے کس ضعیفہ! غم کی تڑپائی ہوئی
اے زمانے کی جھنجھوڑی! زر کی ٹھکرائی ہوئی
یہ ترے سر کی سفیدی اور یہ گردِ ملال
میں تو کیا شرما رہا ہے خود خدائے ذوالجلال
تیرے بچے تیرے گَردُوں کے ستارے کیا ہوئے؟
اے ضعیفہ! تیری پیری کے سہارے کیا ہوئے؟
تو وعیدِ قہر ہے اربابِ عشرت کے لیے
برص کا اک داغ ہے روئے حکومت کے لیے
مجھ کو حیرت ہے کہ تجھ کو دیکھ کر زارونزار
گڑ نہیں جاتے حیا سے حاکمانِ ذی وقار!