یہ عبرت کی جا ہے…

کوچۂ سیاست سے گزرنے والے جب خود نوشت لکھتے ہیں تو ایک عام پاکستانی کے لیے بھی وہ دل چسپی کا باعث بنتی ہے‘ اس لیے کہ سیاسی خود نوشت اصل میں ملکی تاریخ ہی کا حصہ ہوتی ہے۔ محترمہ بشریٰ رحمان کی آپ بیتی ''لکھی کو کون موڑے‘‘ حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔ دیکھیے، طویل عرصہ ایم این اے رہنے والی بشریٰ رحمان کن واقعات کی گواہی دیتی ہیں۔
٭ (جنرل ضیاالحق کے ریفرنڈم کے حوالے سے) اس کے بعد اناؤنسر نے میاں نواز شریف کا نام لیا۔ ان کے پاس لکھی ہوئی تقریر تھی۔ دو تین فقرے پڑھنے کے بعد وہ مجمع سے پوچھتے: کیا آپ لوگ ریفرنڈم کے حق میں ہیں؟ سارا مجمع چلا کر بیک آواز کہتا: ہاں ہاں حق میں ہیں۔ پھر دو تین فقرے صدر صاحب کے حق میں بول کر پوچھتے: کیا آپ لوگ صدر صاحب کو ووٹ دیں گے؟ پھر پوچھتے: ہاتھ کھڑے کر کے بتاؤ کون کون ووٹ دے گا؟ تو سارے مجمع کے ہاتھ بلند ہو جاتے۔ کم از کم انہوں نے صدر صاحب کو باور کرا دیا کہ ریفرنڈم میں پنجاب کے سب لوگ انہیں ووٹ دیں گے۔
٭ آج صدر جنرل ضیاالحق کے ریفرنڈم کا دن ہے۔ ہماری ڈیوٹیاں لگائی گئی تھیں کہ زنانہ پولنگ سٹیشنز پر جا کر صورت حال کا جائزہ لیتے رہیں چنانچہ میں بھی پولنگ سٹیشنز کی لسٹ لے کر صبح ہی نکل گئی تھی۔ ماڈل ٹاؤن، مسلم ٹاؤن، گارڈن ٹاؤن، اقبال ٹاؤن اور وحدت کالونی میری رینج میں آتے تھے۔ اکا دکا خواتین و حضرات آ کر ووٹ ڈال رہے تھے۔ بارہ بجے تک تو لوگ آتے رہے۔ شام کو میں نے پھر ہر پولنگ سٹیشن کا دورہ کیا۔ ایک پولنگ سٹیشن پر گئی تو دیکھا کہ چھوٹی چھوٹی سکول کی لڑکیاں‘ جن کی وہاں ڈیوٹی لگی ہوئی تھی، خود ہی بیلٹ پیپرز پر مہریں لگا کر باکس میں ڈال رہی ہیں۔
٭ گورنر جیلانی کو جانے کیا سوجھی کہ انہوں نے سامنے چائے کا ٹرے پکڑ کر کھڑے ہوئے بیرے کے سر سے پگڑی اتار کر نواز شریف کے سر پر رکھ دی۔ نواز شریف اس اچانک حادثے کے لیے تیار نہ تھے۔ بھلا کون ایسا سوچ بھی سکتا تھا۔ ان کا منہ گھبراہٹ اور خجالت سے بالکل سرخ ہو گیا۔ دونوں ہاتھ بے اختیار اٹھے مگر سر کی طرف بڑھنے کے بجائے گر گئے۔ جائے ادب تھی۔ مقامِ مصلحت تھا۔ گورنر صاحب کی بزرگی اور مرتبے کا خیال تھا یا موقع کی نزاکت کا احساس تھا یا بزرگوں نے انہیں جو لحاظ و مروت کی تربیت دی تھی اس کا اثر تھا‘ انہوں نے کمال ضبط سے اپنا رد عمل روک لیا۔ گورنر جیلانی ان کے محسن بھی تھے۔ تا حال باس بھی تھے۔ انہوں نے یکا یک یہ حرکت کیوں کی تھی۔ اس کا مطلب کیا تھا؟ یہ کوئی مذاق کا وقت نہیں تھا۔ ایک سب سے بڑے صوبے کا نوجوان وزیر اعلیٰ ان کے روبرو تھا۔ خود وہ قہقہے لگا کر ہنستے رہے۔ باقی شرکا بھی ان کا ساتھ دینے لگے۔ بیرا اپنی جگہ حیران و ششدر کھڑا رہا۔ سچی بات ہے‘ دل میں یہ حرکت مجھے بہت بری لگی۔
٭ ایک خاتون جنرل الیکشن جیت کر آئی تھی۔ اس کا پورا گروپ اگرچہ اس کی پشت پر تھا مگر کسی طرف سے اسے وزارت کا سگنل نہیں مل رہا تھا۔ ایک صبح وہ معزز عورت جھاڑو پکڑ کر میاں نواز شریف کے گھر ماڈل ٹاؤن چلی گئی اور صبح ہی صبح ان کے صحن میں جھاڑو لگانے لگ گئی۔ یہی وہ وقت تھا جب محترم میاں محمد شریف صاحب فجر کی نماز پڑھ کر مسجد سے گھر آتے تھے۔ انہوں نے ایک معزز، صاف ستھری عورت کو جھاڑو لگاتے دیکھا تو حیران ہوئے۔ پوچھا: بی بی تم کون ہو؟ کیوں جھاڑو لگا رہی ہو؟ اس نے اپنا تعارف کرایا اور رونے لگ گئی۔ بولی میرے چھوٹے چھوٹے یتیم بچے ہیں‘ خدا کے واسطے مجھے وزارت دے دیں۔ میں ساری زندگی آپ کی نوکرانی بن کر رہوں گی اور آپ کے صحن میں جھاڑو لگاتی رہوں گی۔ بعد میں اسے وزارت مل گئی۔
٭ صدر ضیا الحق نے اپنی طرف سے وزرا میں شاہین عتیق الرحمان کا نام شامل کر دیا تھا۔ قارئین کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ شاہین عتیق الرحمان کے والد صاحب جنرل عتیق الرحمان، جنرل ضیا الحق کے اتالیق رہے تھے۔ اس لیے ترجیحی بنیادوں پر ایک فوجی نے دوسرے فوجی کی بیٹی کو وزارت کے قابل گردانا۔ یہاں میرٹ اور صلاحیت کا سوال نہیں تھا۔
٭ ان دنوں جناب محمد خان جونیجو ایک غیر ملکی دورے پر روانہ ہو رہے تھے۔ صدر ضیاالحق کے ایما پر جناب نواز شریف‘ وزیر اعلیٰ پنجاب کو ان کے وفد میں شامل کر دیا گیا تھا۔ وہاں ہوٹل کے ایک کمرے میں ضیاالحق کے لیے عدم اعتماد کی تحریک تحریر کی گئی۔ جب یہ وفد واپس آیا تو جناب نواز شریف صاحب ایئر پورٹ سے سیدھے ایوان صدر چلے گئے تھے۔
٭ انہی دنوں ہماری سیاست میں ...... سے ایک عورت دھم کر کے آئی تھی۔ میں نے ''چھم‘‘ کر کے نہیں لکھا ''دھم‘‘ کر کے اس لیے لکھا ہے کہ اس کا وجود بھاری بھرکم تھا۔ تن و توش کے ساتھ اس کے ہاں خور و نوش کا بھی بہت اہتمام تھا۔ شروع میں اسے کسی نے گھاس نہیں ڈالی۔ پھر اس نے بڑے لوگوں کو تاک کر گھاس ڈالنا شروع کر دی۔ ...... موصوفہ نے اپنے گھر پر وزیروں مشیروں کی ڈنر پارٹیاں کرنی شروع کر دیں اور ان کی بیگمات کو قیمتی تحائف دینے کی رسم شروع کر دی جس کے نتیجے میں اسے خواتین ونگ میں ایک عہدہ مل گیا۔ غرض اس کی رسائی نواز شریف کے گھر تک ہو گئی۔ پھر اس نے ایک ڈیوٹی بنا لی کہ شہر میں ہونے والی تقریبات کی روداد بیگم کلثوم نواز کو بتانے لگی۔ رفتہ رفتہ وہ ان پہ اعتماد کرنے لگیں۔
٭ 26 اپریل 2002ء کی رات ہمارے گھر میں ایک شاندار سیاسی اجتماع ہوا۔ رحمان صاحب بھی اس میں موجود تھے۔ میاں محمد اظہر نے سٹیج پر آ کر میرے سیاسی و ادبی کیریئر کو سراہا۔ مجھے باقاعدہ شمولیت کی دعوت دی۔ اس کے بعد چوہدری پرویز الٰہی نے میری خدمات کو سراہا اور کچھ خواتین و حضرات نے بھی تقریریں کیں۔ پریس نے سوالات بھی کیے۔ اس طرح میں باقاعدہ مسلم لیگ قائد اعظم میں شامل ہو گئی۔ صبح کو سارے اخبارات میں یہ خبر لگ گئی۔
٭ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چودھری برادران وضع دار قسم کے لوگ ہیں اور دوستیوں کا پالن کرتے ہیں۔ جن دنوں جناب نواز شریف پابند سلاسل تھے انہوں نے محترمہ کلثوم نواز صاحبہ کی ہر طرح اخلاقی دل جوئی کی۔ ان کو اپنا اسلام آباد والا گھر رہنے کے لیے دے دیا۔ وہ جب بھی اپنے شوہر سے ملاقات کے لیے اسلام آباد آتی تھیں انہی کے گھر میں قیام کرتی تھیں اور یہیں سے ضرورت کی اشیا جیل میں فراہم کی جاتی تھیں۔ کبھی کسی سیاسی آدمی نے چوہدری برادران کے منہ سے شریف فیملی کی برائی نہیں سنی اور نہ انہوں نے ان کی نفی کی۔ البتہ بیگم صاحبہ نے اس وضع داری کا یہ جواب دیا کہ آخر وقت تک اس ''ڈیل‘‘ کی خبر چودھری برادران کو نہ لگنے دی‘ جس کے تحت مع ایک سو سوٹ کیس اور ملازموں کے شریف فیملی راتوں رات جدہ چلی گئی تھی۔ انہوں نے جاتے وقت اپنی دل شکستہ بکھری ہوئی پارٹی کو بھی نہیں بتایا تھا کہ وہ ایک ڈیل کے ذریعے جا رہے ہیں یا وہ اپنی رضا سے جا رہے ہیں۔
بشری رحمان صاحبہ نے کچھ اور بھی عبرت ناک واقعات تحریر کیے ہیں۔ سب نہیں، تاہم ان میں سے کچھ کسی اور نشست میں آپ کے ساتھ شیئر کریں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں