بشریٰ رحمان اپنی آپ بیتی میں مزید لکھتی ہیں :
٭ سوموار کی صبح کمیٹی روم میں حاضری پوری تھی۔جب سب سے آخر میں میر ظفر اللہ خان جمالی سابق وزیر اعظم پاکستان دو سال اور سات مہینے کی وزارت عظمیٰ کا بوجھ اتار کر لُٹے لُٹے قدموں سے اندر داخل ہوئے۔ یہ کیا؟ کسی نے تالی نہیں بجائی۔اُٹھ کے کوئی مصافحے اور معانقے کے لیے آگے نہیں آیا۔وہ خود ہی ہر ایک سے ہاتھ ملاتے سٹیج کی جانب بڑھے۔چوہدری شجاعت نے اُٹھ کر ہاتھ ملایا اور گلے لگایا۔
٭وزیر اعظم بنتے ہی شوکت عزیز صاحب کا حلیہ ہی بدل گیا۔ ہر روز نیا سوٹ اور خوبصورت خوش رنگ نکٹائی لگا کر آتے۔اپنے دورِ اقتدار میں انہوں نے انتہائی بیش قیمت سوٹوں اور ٹائیوں کا رواج ڈالا۔ یہ سب امپورٹڈ ہوتے۔چونکہ وزیر اعظم کا ہر خرچہ حکومت کے ذمے ہوتا ہے اس لیے وہ اگر پچاس لاکھ کا سوٹ اور پانچ لاکھ والی ٹائی باندھنا چاہے تو کوئی ممانعت نہیں۔وہ اپنی شخصیت کو پُر اثر بنانے کے لیے لباس اور اس کی تراش خراش کا خاص دھیان رکھتے تھے اور ان کے حواری ہر لحظہ تعریف و توصیف کرنے میں بخل سے کام نہیں لیتے تھے۔
٭ پرائم منسٹر شوکت عزیز کے دور میں وزارتِ مذہبی امور نے ہر ایم این اے کو حج کے پانچ پانچ خاص قسم کے فارم دیے تھے۔ یہ حج کوٹہ سے ماروا تھے تا کہ یہ لوگ اپنے عزیز و اقارب کو قرعہ اندازی کی اذیت سے بچا کر حج پر بھجوا سکیں۔ان دنوں وزارتِ مذہبی امور کے وزیر جناب اعجازالحق تھے۔ جی ہاں یہ ضیاالحق کے صاحبزادے ہیں۔
٭ پیپلز پارٹی میں ایک شخص بہت فعال ‘ مستعد اور سیاسی بصیرت والا تھا۔ خورشید شاہ۔ اس کے پاس وہ سیاسی امرت دھارا تھا کہ وہ کسی بھی روٹھے ہوئے بندے کو منا لیتا تھا۔کوئی بھی بِل پاس کرا لیتا تھا۔ چندلمحوں میں کورم پورا کروا دیتا تھا۔ شاہ ہو کہ گدا سب کو بیک وقت خوش رکھ سکتا تھا۔ جوڑ توڑ کا بادشاہ تھا۔ اس کے پاس وزارت بھی تھی اور پارٹی کا چیف وہپ بھی تھا۔ تحمل اور برداشت کے ساتھ ساتھ اعلیٰ اخلاقی اقدار کا مظہر تھا۔پیپلز پارٹی کے پاس یہی ایک قابل جوہر تھا جو پوری پارٹی کو چلا رہا تھا۔ اگر یہ شخص پیپلز پارٹی میں نہ ہو تو آج بھی پیپلز پارٹی ایک قدم نہیں چل سکتی تھی۔اس کے ساتھ لاکھ اختلافات ہوں مگر اس کی سیاسی بصیرت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
٭ 20جولائی 2009ء میں ہماری پارٹی یعنی مسلم لیگ قائد اعظم کے پارٹی عہدیداروں کے الیکشن ہوئے جس میں چوہدری شجاعت حسین کو بلا مقابلہ پارٹی کا صدر منتخب کر لیا گیا اور سید مشاہد حسین بلا مقابلہ سیکرٹری جنرل چُن لیے گئے۔ جتنی عزت و تکریم سید مشاہد حسین کو چوہدری برادران سے ملی شا ید ہی کسی اور کو پارٹی میں مل سکے‘ وہ ان کے صلاح کار ‘ دستِ راست‘ قریبی و قلبی دوست تھے۔ اس لیے چھ سال سینیٹ کے ممبر رہے۔اِن دنوں چونکہ مسلم لیگ کا ستارہ گردش میں تھا اور ان کے پاس ووٹر بھی نہیں تھے اس لیے محترم سید مشاہد حسین بڑے سکون سے نواز شریف کی پارٹی میں شامل ہو کر سینیٹ کے پکے امیدوار بن گئے۔
وفا کے نام سے گر لوگ آشنا ہوتے
زمانے بھر میں نہ پتھر کے یہ خدا ہوتے
٭اگر آپ سچ پوچھیں تو پیپلز پارٹی کا پانچ سالہ دور کوئی کارنامہ کیے بغیر تمام ہو گیا۔ پہلے دو سال تو وزارتوں وغیرہ کی خوب گہما گہمی رہی۔ وفود آتے جاتے رہے مگر دو سال کے بعد ہی یہ اسمبلی لڑ کھڑا کے چلنے لگی۔ خریدو فروخت بہت زیادہ ہو گئی۔ ہر طرف سے کرپشن کی خبریں آنے لگیں مہنگائی بھی ہوئی۔ لا اینڈ آرڈر کی سچوایشن بھی کوئی تسلی بخش نہیں تھی۔ کرپشن اس سطح کی ہو رہی تھی کہ خود اسمبلی کا عملہ شکایت کر نے لگا تھا۔ سب کہتے تھے اس سے پہلے بھی کرپٹ حکومتیں آئی ہیں مگر اب جس طرح نوچا کھسوٹا جا رہا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔آخری ایک سال تو عجیب طرح کی سراسیمگی ‘ بے یقینی اور بد گمانی سی پیدا ہو گئی تھی۔ یوں بھی اسمبلیوں کا آخری سال کوئی خوشگوار نہیں ہو تا۔ ہمارے ملک میں افواہیں پھیلانے کی فیکٹریاں ہیں۔ جانے والوں کے ساتھ ساتھ آنے والوں کے بھی نقارے بجنے لگتے ہیں۔ جلد ہی لوگوں کو پتا چل گیا کہ آئندہ نون لیگ کو باری ملنے والی ہے۔ بجٹ سیشن کے بعد بہت سے لوگوں کا رُخ نون لیگ کی طرف ہو گیا۔ بلکہ بعض لوگوں نے باقاعدہ میاں شہباز شریف کے پاس جا کر اپنی وفاداری کی یقین دہانی شروع کر دی۔ ماروی میمن نے تو بجٹ سیشن کے بعد استعفیٰ دے دیا اور کہا کہ میں اس کرپٹ اسمبلی کی زیادہ دیر رکن نہیں رہ سکتی اور فوراً میاں نواز شریف کے کیمپ میں داد وصول کرنے کے لیے چلی گئی۔ وہ جو کہتے رہتے تھے کہ میں مشرف کی پارٹی کے کسی بندے کو معاف نہیں کروں گا انہوں نے جی صدقے کہہ کر ماروی میمن کو اپنی پارٹی میں شامل کر دیا‘ عہدہ بھی دے دیا اور جلسے جلوسوں میں اس کی رونمائی بھی کروانے لگے۔ ماروی میمن کے بعد کئی لوگ شریف برادران کے کیمپ میں چلے گئے یعنی جانے کا یہ سلسلہ رکا ہی نہیں۔ سب ہی اپنی سیٹ پکی کروا کے آتے رہے اور شریف کیمپ بھی ان کی حوصلہ افزائی کرتا رہا۔
٭ایک بہت ہی دلچسپ بات جو مجھے پہلے بتانا تھی وہ جناب شیخ الحدیث طاہر القادری کے بارے میں تھی۔ وہ اپنی پارٹی کی جانب سے واحد ایم این اے جیت کر اسمبلی میں آگئے تھے۔ جب اسمبلیاں باقاعدہ شروع ہو گئیں تو ایک دن انہوں نے سپیکر سے فلور مانگا اور تقریر شروع کر دی۔ انہوں نے انگریزی میں کہا Mr. Speaker Sirاور بڑی مسجع اور مقطع انگریزی میں تقریر شروع کر دی۔ جس طرح انہیں اردو زبان پر دسترس ہے اسی طرح وہ انگریزی محاوروں میں بھی کمال رکھتے ہیں۔جونہی انہوں نے بولنا شروع کیا اسمبلی کے اندر بعض ارکان نے آوازے کسنے شروع کر دیے۔ ہوٹنگ کرنے لگے۔ اوئے مولوی !اردو میں تقریر کر۔ اردو... اردو... اور آپ کو معلوم ہے ہوٹنگ کرنے والوں کا انداز بھی بہت ناشائستہ ہوتا ہے۔ علامہ طاہر القادری خاموش ہو گئے۔ جب ہال میں ذرا امن ہوا تو انہوں نے جنابِ سپیکر کہہ کر اردو میں تقریر شروع کر دی۔ اب اور طرح کے آوازے کسے گئے۔ فقرے اچھالے گئے۔ پتا نہیں یہ کون لوگ تھے اور کیوں ایسا کر رہے تھے۔اس روز سپیکر کے بار بار منع کرنے کے باوجود انہوں نے علامہ صاحب کو تقریر نہیں کرنے دی۔علامہ صاحب خفا ہو کر باہر نکل گئے۔دوسرے دن وہ پھر تشریف لائے۔ جونہی انہوں نے اردو میں تقریر شروع کی چاروں طرف سے انگریزی انگریزی کی آوازیں آنے لگیں۔وہی طوفان ِبد تمیزی‘ وہی آوازے‘ وہی قہقہے! حالانکہ علامہ طاہر القادری بہت بڑے اور سحر البیان خطیب ہیں۔ تقریباً ایک ہزار کتابوں کے مصنف ہیں۔ انہیں بات کرنے کا ڈھنگ آتا ہے۔اپنا مافی الضمیر بہت خوبصورتی سے بیان کرتے ہیں۔ ایک عالم میں ان کے چرچے ہیں مگر اسمبلی کے فلور پر ایک دن بھی کسی نے ان کی دال نہیں گلنے دی نہ انہیں اپنی تقریر مکمل کرنے دی حالانکہ ہم لوگ ان کی تقریر سننا چاہتے تھے۔ آخر وہ اپنا منشور لے کر آئے تھے۔علامہ صاحب ماحول کو جلدی بھانپ گئے۔ بار بار کوشش کرنے کے بجائے انہوں نے استعفیٰ دینا بہتر سمجھا۔