ماڈل ایک:
اس سال 26 مئی کو‘ یعنی آج سے دو ہفتے پہلے ‘ شام میں صدارتی الیکشن کا انعقاد ہوا۔ تین امیدوار تھے۔ صدر بشار الاسد۔اور دو نسبتاً غیر معروف اشخاص۔ ڈیلی ٹیلی گراف نے لکھا کہ دونوں غیر معروف امیدوار اس اپوزیشن کے ممبر تھے جو حکومت کے لیے قابل برداشت اور'' اچھی ‘‘ ہے۔ گویا کہ '' اپنے‘‘ ہی آدمی تھے۔ الیکشن مکمل ''آزادانہ اور منصفانہ ‘‘ ماحول میں ہوئے۔صدر بشار الاسد نے 95 فیصد ووٹ حاصل کر کے میدان مار لیا۔
اس سے پہلے بشار الاسد کے والد حافظ الاسد ملک کے صدر تھے۔ وہ بڑے بیٹے کو جانشینی کے لیے تیار کر رہے تھے۔ اس کا ٹریفک کے حادثے میں انتقال ہو گیا؛ چنانچہ 2000ء میں جب حافظ الاسد کی وفات ہوئی تو صدارت کا تاج بشار الاسد کے سر پر رکھا گیا۔ شام کا آئین کہتا تھا کہ صدر کی عمر چالیس سال سے کم نہیں ہونی چاہیے۔ صاحبزادے 34 برس کے تھے؛ چنانچہ آئین میں ترمیم کر کے عمر کی حد چونتیس کی گئی۔اس موقع پر جو ریفرنڈم ہوا اس میں بشار الاسد نے 97 فیصدحمایت حاصل کی۔ سات سال بعد پھر صدارتی ریفرنڈم ہوا۔ بشار الاسد واحد امیدوار تھے۔ بھاری تعداد میں ووٹ لے کر جیتے۔ سات سال مزید گزر گئے۔ 2014ء میں پھر صدارتی انتخابات ہوئے۔ بشار الاسد پھر جیت گئے۔ اکیس برس سے وہ مسلسل صدر ہیں۔ اس سے پہلے ان کے والد محترم نے فوجی بغاوت کے نتیجے میں اقتدار پر قبضہ کیا۔ یہ 1970ء کی بات ہے۔ اس کے بعد 31 سال حافظ الاسد شام کے بلا شرکت غیرے حکمران رہے۔ اس سارے عرصہ میں ہر سات سال بعد الیکشن ہوتے رہے۔ ہر بار صدر حافظ الاسد بھاری اکثریت کے ساتھ کامیاب ہوتے رہے۔ دونوں باپ بیٹے کا عرصہ اقتدار باون برسوں پر محیط ہے یعنی نصف صدی سے زیادہ جبکہ بشارالاسد کا عرصہ صدارت تاحال جاری ہے۔
ماڈل دو:
شام کا مقابلہ ہم امریکہ‘ برطانیہ ‘ فرانس یاکسی اور ترقی یافتہ مغربی ملک کے ساتھ نہیں کریں گے۔ ہم سنگاپور کی مثال لیتے ہیں جو شام ہی کی طرح ایشیائی ملک ہے۔نصف صدی پہلے یہ مچھیروں کی ایک کثیف ساحلی بستی تھی جس میں زرد‘ مدقوق چہروں والے چینی کیچڑ بھری گلیوں میں پھرا کرتے۔ ملائیشیا نے اسے بوجھ سمجھتے ہوئے اپنے وجود سے کاٹ کر الگ پھینک دیا۔ ہم سنگاپور کا موازنہ اسی سال کے حساب سے کریں گے جس سال حافظ الاسد نے شام میں اقتدار پر قبضہ کیا۔ یعنی 1970 ء سے۔
یوسف اسحاق سنگاپور کے پہلے صدر تھے جو1965 ء میں چھ سال کے لیے منتخب ہوئے۔ ان کا عہدِ صدارت 1970 ء میں ختم ہوا۔ دوسرے صدر بینجمن ہنری شیریس تھے۔ ان کے والد انگریز تھے اور ماں چینی۔ والد پی ڈبلیو ڈی میں سپر وائزر تھے‘ خاندان بڑا تھا۔ کٹھن وقت دیکھا اور عسرت سے گزر بسر ہوئی۔ شدید محنت کر کے شیریس ڈاکٹر بنے۔ صدر منتخب ہوئے تو والدہ 91سال کی تھیں۔ ا نہوں نے یہ خبر سنی تو کہا کہ بینجمن نے اپنے خاندان کی اور خاص طور پر میری جس طرح دیکھ بھال کی ‘ یہ اس کا انعام ہے۔ بینجمن دوسری بار بھی صدر منتخب ہوئے۔ روایت ہے کہ اپنی ساری تنخواہ خیرات میں دے دیتے تھے۔تیسرے صدر دیوان نائر تھے۔یہ اپنے ماں باپ کے ساتھ کیرالا سے ہجرت کر کے آئے تھے۔ چوتھے صدر چینی تھے۔ پانچویں صدر بھی چینی تھے۔ چھٹے صدرایس آر نتھان ‘ تامل نژاد یعنی نسلاً ہندوستانی تھے۔ والد ایک وکیل کا منشی تھا جس نے معاشی مصیبتوں سے تنگ آکر خود کشی کر لی۔ اس وقت نتھان آٹھ برس کے تھے۔ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ملازمت بھی کرتے رہے۔ دو بار صدر منتخب ہوئے۔ ساتویں صدر بھی چینی تھے۔ ریاضی میں پی ایچ ڈی تھے۔ آٹھویں صدر‘ موجودہ خاتون صدر ہیں۔ حلیمہ بنت یعقوب‘ والد ہندوستانی نژادتھے اور والدہ ملایا سے۔ والد چوکیدار تھے۔ جب حلیمہ آٹھ برس کی تھیں تو والد کا انتقال ہو گیا۔ گھر کی دال روٹی پوری کرنے کے لیے حلیمہ اور ان کی ماں ایک سکول کے سامنے کھانے کا سٹال لگاتی رہیں۔آپ نے نوٹ کیا ہو گہ جس عرصے میں شام میں یہ باپ بیٹا صدر رہے ( اور بیٹے کی صدارت ابھی جاری ہے ) ٹھیک اُسی عرصے میں سنگاپور میں سات صدر آئے ‘ گئے ‘اور اب آٹھویں صدر ایک خاتون ہیں۔ یہ سب صدر لوئر کلاس اور مڈل کلاس سے تھے۔ کچھ بہت ہی مفلس بیک گراؤنڈ رکھتے تھے؛ تاہم ان کا غریبانہ پس منظر ‘ یا ان کا مذہب‘ یا ان کا رنگ‘ اس بلند ترین عہدے کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنا۔
اب دونوں ملکوں کے اقتصادی اشاریے ملاحظہ فرمایے۔ رقبے اور آبادی میں سنگاپور کی نسبت شام بہت بڑا ہے۔ شام کی آبادی پونے دو کروڑ اور سنگاپور کی ستاون لاکھ ہے۔ شام کا ایریا دو لاکھ مربع کلو میٹر سے تھوڑا سا ہی کم ہے۔ اس کے مقابلے میں سنگاپور ایک ننھا سا جزیرہ ہے۔ صرف سات سو اٹھائیس مربع کلو میٹر۔ اس کے باوجود فی کس آمدنی شام کی آٹھ سو اکتیس ڈالر ہے جبکہ سنگاپور کی فی کس آمدنی چونسٹھ ہزار ڈالر سے بھی زیادہ ہے۔ کُل قومی پیداوار شام کی ‘ ایک فیاضانہ تخمینے کی رُو سے‘ پچاس ارب ڈالر ہے۔ سنگاپور کی کْل قومی پیداوار تین سو بہتر ارب ڈالر ہے۔ برآمدات کا موازنہ اس سے بھی زیادہ عبرتناک اور سبق آموز ہے۔ شام کی برآمدات گزشتہ برس سوا تین ارب ڈالر کی مالیت کی تھیں۔ اور برآمدات تھیں کیا؟ تیل‘ معدنیات‘ پھل‘ سبزیاں‘ کاٹن‘ گوشت‘ جانور اور گندم۔ یعنی ٹیکنالوجی یا انڈسٹری یا آئی ٹی کا عمل دخل صفر! سنگاپور کی برآمدات گزشتہ سال چھ سو چھبیس ارب ڈالر کی تھیں۔اوربرآمدات تھیں مشینری‘ الیکٹرونکس‘ ٹیلی کمیونیکیشن‘ ادویات‘ کیمیکلز‘ پٹرولیم کی صاف شدہ مصنوعات!
صرف سنگا پور ہی نہیں‘ جاپان‘ کوریا‘ چین‘ ملائیشیا‘ ہانگ کانگ‘ تائیوان‘ تھائی لینڈ‘ یہاں تک کہ ویتنام بھی ترقی کی منازل مسلسل طے کر رہا ہے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ ہیپاٹائٹس بی اور سی کے سلسلے میں جن ملکوں نے ریسرچ میں نام پیدا کیا ان میں کوریا اور سنگاپور نمایاں رہے۔ کوریا کی گاڑی ہمارے ملک میں ایک آدھ سال پہلے آئی اور آج ہر شاہراہ پر دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ سب وہ ملک ہیں جن کے حکمران آتے ہیں اور اپنا کردار ادا کر کے رخصت ہو جاتے ہیں۔ کوئی حافظ الاسد ہے نہ حسنی مبارک‘ قذافی ہے نہ صدام! سونے کی برقی سیڑھیاں سفر پر لے جاتے ہیں نہ جزیرے خریدتے ہیں۔ عزت سے ریٹائر ہوتے ہیں اور اپنی دھرتی پر ہی رہتے ہیں۔ وہیں جیتے ہیں وہیں ‘ مرتے ہیں۔
ذرا تصور کیجیے۔ دمشق میں جو بچہ 1970 ء میں پیدا ہوا وہ آج باون سال کا ہو گیا ہے۔ اس نے ہوش سنبھالا تو حافظ الاسد کو حکمران پایا۔ لڑکپن میں داخل ہوا۔ پھر نوجوانی کی دہلیز پار کی۔ تعلیم مکمل ہو گئی۔ ملازمت یا بزنس شروع ہو گیا۔ شادی ہوئی‘ بچے پیدا ہوئے۔ یہاں تک کہ وہ اکتیس برس کا ہو گیا۔ مگر حکمران وہی رہا۔ بتیسویں برس حکمران مرا تو اس کا بیٹا تخت پر بیٹھ گیا۔ آج وہ بچہ ‘ جو 1970ء میں پیدا ہوا تھا‘ ادھیڑ عمر ہو رہا ہے۔اس نے اس آدھی صدی میں صرف دو حکمران دیکھے ہیں۔پہلے باپ پھر بیٹا۔ جب وہ یہ سنتا یا پڑھتا ہو گا کہ کچھ ملکوں میں حکمران ایک یا دو ٹرم بھگتا کر گھر چلے جاتے ہیں تو کیسا محسوس کرتا ہو گا ؟ اس کی نفسیات کیسی ہو گی ؟اس کے لیے اکیسویں صدی عیسوی اور بارہویں تیرہویں صدی عیسوی میں کیا فرق ہے؟؟