کیا دلکش وادی تھی اور کیا بہار آفریں فضا تھی!
چاروں طرف پہاڑ۔ پہاڑوں کی ترائیوں پر سیب کے درخت۔ گھاس سے بھرے میدان میں بکریاں چر رہی تھیں۔ دونوں طرف چشمے تھے۔ ان سے بہتے پانی کی مترنم آواز جیسے جادو جگا رہی تھی۔ ایک درخت کے نیچے گڈریا پتھروں سے ٹیک لگائے بانسری بجا رہا تھا۔ اس کا کتا پاس بیٹھا‘ آنکھیں مُوندے یوں بیٹھا تھا جیسے بانسری سے نکلتے ہوئے زیر و بم کو سمجھتا ہو ! اور کیا عجب! واقعی سمجھتا ہو۔ انسان کو کیا معلوم اس کے علاوہ دیگر حیوانات کو قدرت نے کیا کیا صلاحیتیں اور کیسے کیسے دماغ عطا کیے ہیں۔
گڈریا اپنی زندگی آرام سے گزار رہا تھا۔ جیسا بھی تھا‘ کسی کا محتاج نہ تھا۔ اس کی بکریاں تھیں جن سے وہ امیر تھا۔ اس کا کتا تھا جو دکھ درد میں اس کا ساتھ دیتا تھا۔ اس کی چراگاہیں تھیں‘ سبزہ زار تھے‘ پہاڑ تھے‘ درخت تھے‘ پھل پھول تھے‘ پانی کی فراوانی تھی۔ وہ شام و سحر پروردگار کا شکر ادا کرتا تھا۔ مگر شومئی قسمت ! ہائے افسوس! ایک دن وہ آن پہنچا!
اُس دوپہر ‘ وہ درخت کے سائے میں نیم دراز تھا جب ایک مہنگی‘ جہازی سائز کی لینڈ کروزر چراگاہ کے کنارے آکر رکی۔ اس میں سے ایک جوان اترا‘ پچیس تیس کے پیٹے میں ہو گا۔تازہ ترین فیشن کے سوٹ میں ملبوس! سی کے کی قمیص! باس کی نکٹائی! کلارک کے جوتے! گُچی کے سن گلاسز! ہاتھ میں ڈیلسی کا خوبصورت ‘ سمارٹ بریف کیس! چراگاہ کو پار کرتا وہ گڈریے کے پاس آکر رکا۔
'' سلام ! جناب ! میں اپنی مہارت اور علم کو بروئے کار لا کر آپ کو یہ بتاؤں گا کہ آپ کے پاس کتنی بکریاں ہیں؟ معاوضے میں آپ سے ایک بکری لوں گا ! صرف ایک بکری ! کیا آپ کو یہ معاہدہ منظور ہے ؟‘‘گڈریے کے چہرے پر حیرت کا تاثر ابھرا۔ اس نے کچھ دیر سوچا اور پھر رضامندی کا اظہار کر دیا۔ نوجوان نے گاڑی سے فولڈ کی ہوئی کرسی نکالی۔ اس پر بیٹھ کر گود میں لیپ ٹاپ کھولا۔ وہ کئی گھنٹے کام کرتا رہا۔ شام ہونے کو آئی تو اٹھا۔ اس کا چہرہ کامیابی کے خیال سے گلنار ہو رہا تھا۔ اس نے گڈریے کو بکریوں کی تعداد بتائی۔ گڈریے نے بتایا کہ بالکل ٹھیک ! اتنی ہی ہیں! جیسا کہ طے ہوا تھا‘ تم ایک بکری لے لو! نوجوان نے بکری اٹھائی اور گاڑی میں لاد دی۔ جانے لگا تو گڈریے نے کہا کہ میں کوئی معاوضہ لیے بغیر تمہیں بتائے دیتا ہوں کہ تم کون ہو اور کہاں سے آئے ہو! نوجوان نے کہا ٹھیک ہے۔ بتائیے! گڈریے نے کہا تم ایک کنسلٹنٹ ہو اور ورلڈ بینک سے آئے ہو! نوجوان حیران ہوا اور پریشان کہ بالکل صحیح بتایا ہے ! گڈریے سے پوچھنے لگا کہ یہ خفیہ بات تم کیسے جان گئے ؟ گڈریے نے جواب دیا کہ تین نشانیوں کی وجہ سے ! پہلی نشانی یہ کہ تم بن بلائے آئے ہو ! دوسری نشانی یہ کہ تم مجھے وہ اطلاع دینا چاہتے ہو جو میرے پاس پہلے سے موجود ہے۔ یعنی بکریوں کی تعداد! ظاہر ہے مجھے معلوم ہے میرے پاس کتنی بکریاں ہیں۔ تیسری نشانی یہ کہ تم اس شعبے کا بنیادی علم تک نہیں رکھتے اور چل پڑے ہو کنسلٹنسی کو! اب میرا کتا واپس کرو جسے تم نے بکری سمجھ کر گاڑی میں ڈال لیا ہے !
یہ دردناک کہانی آپ میں سے کچھ نے‘ ہو سکتا ہے‘ پہلے بھی سنی ہو۔ مگر آج پھر اس لیے سنانا پڑی کہ ہم پاکستانیوں کو کبھی کوئی شیخ صاحب تو کبھی کوئی اور صاحب وہ اطلاعات بہم پہنچا رہے ہیں جو ہمیں پہلے سے معلوم ہیں! کبھی اکنامک سروے آف پاکستان کے ذریعے ہمیں ہماری معیشت کا احوال بتایا جاتا ہے۔ کبھی ایک لمبی چوڑی بجٹ تقریر سنائی جاتی ہے۔ کبھی تمام اقتصادی بزرجمہر مل کر پریس کانفرنس کرتے ہیں۔ سوال جواب ہوتے ہیں جن کا لب لباب یہ ہوتا ہے کہ معیشت بہتری کی طرف رواں ہے۔ فی کس آمدنی میں اتنا اضافہ ہوا ہے۔ شرحِ نمو اتنی زیادہ ہو ئی ہے۔موبائل فونوں کی تعداد یہ ہو چکی اور گاڑیاں اتنی ہو گئیں ! ارے بھئی ! ہم بھی اسی ملک میں رہتے ہیں ! ہم بھی یہیں کے باشندے ہیں ! آج سے نہیں ‘ صدیوں سے اور نسلوں سے یہاں رہ رہے ہیں ! اب کیا آپ ہمیں بتائیں گے کہ ہماری معیشت کیسی ہے ؟ کیا ہے ؟ اورکتنے پانی میں ہے ! آپ ہماری ہی معیشت سمجھانے تشریف لائے ہیں اور وہ بھی ہمیں! تین نشانیاں ہیں جن کی وجہ سے ہم اپنی معیشت کو بہتر سمجھتے ہیں۔ پہلی نشانی پرسوں کے ایک معروف انگریزی معاصر کے اُس صفحے پر عیاں ہے جو دارالحکومت کی خبروں کے لیے مخصوص ہے۔ ایک بچہ جو یقینا نو دس سال سے زیادہ عمر کا نہیں ہے ‘ پیچ کس سے گاڑی کا کوئی پرزہ کھول رہا ہے۔ نام بچے کا صغیر ہے۔ علاقہ ''ریاست مدینہ‘‘ کے دارالحکومت کا سیکٹر جی سیون ہے۔ بال‘ اس بچے کے ‘گرد سے مٹیالے ہو چلے ہیں۔ ہاتھ اس کے چھوٹے چھوٹے ہیں اور کاربن اور مٹی سے جیسے ان کی اصل رنگت گْم ہو چکی ہے۔ بچہ انتہائی خوبصورت ہے۔ جانے کس کا بیٹا ہے! کس کا پوتا ہے ! صبح سے کچھ کھایا بھی ہے یا نہیں! جس مکینک کی نگرانی میں مشقت کر رہا ہے‘ پتا نہیں وہ کس مزاج اور کس قماش کا ہے ؟ بھلا مانس ہے یا آوارہ ؟ کیسا سلوک کرتا ہو گا!
دوسری نشانی بھی پرسوں کے اخبار ات ہی میں شائع ہوئی ہے۔ یہ نشانی سیکرٹ تھوڑی ہی ہے۔ اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک لاکھوں کروڑوں نے اسے دیکھا ہے‘ اس نشانی نے پہلی نشانی پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ نشانی یہ ہے'' اسلام آباد ( نیٹ نیوز) ملک کی ایک اعلیٰ شخصیت دو دن کی چھٹیاں گزارنے سیاحتی مقام نتھیا گلی پہنچ گئی۔ ذرائع کے مطابق یہ شخصیت موسم کی خرابی کے باعث اسلام آباد سے ایبٹ آباد ہیلی کاپٹر پر پہنچی جہاں سے وہ برا ستہ سڑک نتھیا گلی گئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس شخصیت کا معاون عملہ اور سکیورٹی سٹاف بھی نتھیا گلی میں موجود ہے جبکہ گورنر کے پی بھی نتھیا گلی میں ہیں ‘‘۔
تیسری نشانی بھی واضح ہے۔ اس میں بھی کوئی ابہام ہے نہ شک۔ اسے بھی سوشل میڈیا پر بہت سوں نے دیکھا۔ ریاست پاکستان کے ایک بڑے منصب دار اپنے گاؤں والد محترم کی قبر پر حاضر ہوتے ہیں۔ پورے پروٹوکول ‘ پورے تزک و احتشام‘ پورے جاہ و جلال کے ساتھ۔ ہیلی کاپٹر اترتا ہے۔ اس کے پنکھے بہت دیر تک چلتے رہتے ہیں۔ بالآخر پنکھوں کو قرار آجاتا ہے۔ منصب والی شخصیت ہیلی کاپٹر سے اترتی ہے۔ آگے گاڑیاں ہیں۔ بڑی بڑی گاڑیاں! گاڑیوں اور ہیلی پیڈ کے درمیان چند قدم کا فاصلہ ہے۔ اس فاصلے پر سرخ قالین بچھے ہیں۔ آگے پیچھے‘ دائیں بائیں اہلکار اور ماتحت نظر آرہے ہیں۔ کوئی چلتا ہوا! کوئی بھاگتا ہوا! شخصیت کا کوئی قدم زمین پر نہیں پڑتا۔ سرخ کار پٹ سے ہوتے ہوئے‘ شخصیت گاڑیوں میں سے ایک گاڑی پر سوار ہوتی ہے۔
کون سا اکنامک سروے ؟ کون سا بجٹ ؟ کیسی شرحِ نمو ؟ کہاں کی فی کس آمدنی ؟ ہم بھی اسی ملک کے باشندے ہیں۔ کیا ہوا اگر ہم نے اکنامکس امریکی یونیورسٹیوں میں نہیں پڑھی! کیا ہوا اگر ہم اصل معیشت کے چہرے پر اعداد و شمار کی کوچی نہیں پھیرتے۔ ایک معیشت مرکزی سیکرٹریٹ کے برآمدوں اور خوبصورت سجے سجائے کمروں میں ہے۔ ایک معیشت گلیوں‘ بازاروں‘ بستیوں اور قصبوں میں ہے۔ ہم ان گلیوں اور ان بازاروں کے اصل باسی ہیں۔ ہم نے یہیں رہنا ہے۔ یہیں مرنا ہے۔ ہم سے بہتر ہماری معیشت کو کون جان سکتا ہے؟ نو دس سالہ صغیر کو‘ اس کے ہاتھ میں رکھے پیچ کس کو‘ فضاؤں میں اڑتے ‘ پنکھے گھماتے ہیلی کاپٹر وں کو کون سے اعدادو شمار میں لپیٹو گے ؟