پہلا منظر۔ مسافر غرناطہ سے ٹرین میں بیٹھتا ہے۔ ڈبے میں کل تین افراد ہیں۔ مسافر اور ایک یورپی میاں بیوی۔ منزل بارسلونا ہے۔ تقریبا آٹھ نو گھنٹے کا سفر ہے۔ اس دوران میاں بیوی کھانا کھاتے ہیں اور کافی پیتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے، وہ مسافر سے مکمل بے نیازی برتتے ہیں۔ مسافر کھانا کھاتے وقت انہیں دعوت دیتا ہے۔ اپنے تھرموس سے چائے بھی پیش کرتا ہے۔
دوسرا منظر۔ قیام یورپ کے دوران، مسافر کی ایک مصور سے دوستی ہو جاتی ہے۔ یہ مصور، سویڈش زبان کا پروفیسر بھی ہے۔ اس کا تعلق سسلی کے دارالحکومت پالرمو سے ہے۔ کئی مہینے ایک دوسرے سے ملاقاتیں رہتی ہیں۔ اچھے خاصے تعلقات بن جاتے ہیں۔ مسافر پالرمو جانے کا ارادہ ظاہر کرتا ہے۔ مصور دوست اپنے گھر ٹھہرانے کی پیشکش کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ رہائش کا معاوضہ نہیں لے گا مگر کھانے پینے کے دام دینے ہوں گے۔
تیسرا منظر۔ مسافر، شام ڈھلے، تاشقند سے ٹرین میں بیٹھتا ہے۔ یہ نائٹ ٹرین سمرقند کے راستے بخارا جاتی ہے۔ ڈبے میں مسافر کے علاوہ ایک ازبک فیملی ہے۔ میاں بیوی اور دو بچے۔ سونے کے علاوہ، سارا وقت یہ خاندان مسافر کی ضیافت میں مصروف رہتا ہے۔ کبھی پھل کھانے پر اصرار کرتے ہیں تو کبھی مرغ روسٹ کھلاتے ہیں۔ نان کا ایک ذخیرہ ان کے ہمراہ ہے۔ خشک پھل وافر مقدار میں ہیں۔ ٹرین میں انتظامیہ کی طرف سے سماوار پڑے ہیں جن میں گرم پانی ہر وقت موجود ہے۔ ازبک پانی نہیں پیتے۔ بغیر دودھ کی چائے پیتے ہیں اور مسلسل پیتے ہیں۔ اپنی چینک میں پتی ڈالیے۔ اوپر، سماوار سے گرم پانی ڈالیے۔ چائے تیار ہے۔ چائے پلا پلا کر اور انواع و اقسام کے پکوان اور میوہ جات بصد اصرار کھلا کھلا کر اس ازبک خاندان نے مسافر کا حشر کر دیا۔
چوتھا منظر۔ مسافر ایک اور موقع پر بخارا سے ٹرین میں سوار ہوا۔ اہلیہ ہمراہ تھیں۔ یہ بھی نائٹ ٹرین تھی۔ ڈبے میں یہ تھے اور ایک روسی میاں بیوی! پورا راستہ روسیوں نے کچھ کھایا نہ ان سے کوئی بات کی۔ انہوں نے آپس میں بھی کوئی بات نہ کی۔ اب یاد نہیں کہ انہوں نے اس اثنا میں ووڈکا نوش کی یا نہیں۔ یہ جب بھی کچھ کھاتے پیتے تو انہیں دعوت دیتے تاہم روسی جوڑے نے یہ تاثر واضح طور پر دیا کہ وہ اپنی خاموشی میں کسی قسم کا خلل پسند نہیں کرتے۔
پانچواں منظر۔ ایک مغربی ملک میں ایک عزیز کے گھر میں چند دن کا قیام تھا۔ ان کے گھر میں ایک سفید فام پلمبر مرمت کا کچھ کام کر رہا تھا۔ سہ پہر کی چائے پیتے وقت، ایک کپ چائے اسے بھی پیش کی گئی۔ حیران ہو کر پوچھنے لگا کہ یہ کیوں؟ بتایا گیا کہ ہم چائے پی رہے ہیں اور آپ گھر میں موجود ہیں تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ کو پیش نہ کی جائے!
ایسے لاتعداد مناظر پیش کیے جا سکتے ہیں۔ قارئین کے مشاہدات، یقینا اس سے بھی زیادہ ہوں گے۔ مغرب اور مشرق میں خور و نوش کے حوالے سے زمین و آسمان کا فرق ہے۔ مہمان نوازی کی اصطلاح مفہوم کے لحاظ سے بہت محدود ہے۔ جب آپ ٹرین یا بس میں ساتھ بیٹھے ہوئے ہم سفر کو اپنے ساتھ کھانے کی دعوت دیتے ہیں یا گھر میں کام کرنے والے پلمبر یا الیکٹریشن کو چائے پیش کرتے ہیں تو یہ تکنیکی طور پر مہمان نوازی نہیں ہے مگر ہمارے خمیر میں، ہمارے مزاج میں، ہماری اٹھان میں اور ہماری ثقافت میں کسی کے سامنے کچھ کھانے پینے، اور اسے نہ پوچھنے کا کوئی تصور ہی نہیں اور نہ گنجائش ہے۔ مسلمان کو یہ اصول از بر کرایا گیا ہے کہ ایک فرد کا کھانا دو افراد کے لیے کافی ہے۔ گویا آپ نے اپنے کھانے میں دوسرے شخص کو لازماً شامل کرنا ہے۔ مشہور نو مسلم سکالر اور قرآن پاک کے انگریزی میں مترجم، علامہ محمد اسد کو اسلام کی طرف جن محرکات نے کھینچا ان میں مسلمانوں کی یہ عادت بھی شامل تھی۔ وہ صحرائے سینا میں ٹرین میں سفر کر رہے تھے۔ گاڑی ایک سٹیشن پر رکی۔ روٹی، انجیر اور اُبلے ہوئے انڈے بیچنے والے لڑکے اندر آ گئے۔ اسد کے سامنے بیٹھے ہوئے بدو نے ایک روٹی خریدی۔ اس کے دو برابر حصے کیے۔ ایک حصہ انہیں پیش کیا۔ اسد نے اس پیشکش پر تعجب کیا اور روٹی لینے میں تردد کیا‘ بالکل اسی طرح جس طرح سفید فام پلمبر نے پوچھا تھا کہ اسے چائے کیوں پیش کی جا رہی ہے۔ بدو نے، سادہ الفاظ میں انسانیت کا سب سے بڑا اصول بتا دیا... آپ بھی مسافر ہیں‘ میں بھی مسافر ہوں۔ ہم دونوں کا راستہ ایک ہے۔ مغرب کا ایک باشندہ جب دیکھتا ہے کہ دو پاکستانی یا دو ترک یا دو عرب ریستوران میں جھگڑ رہے ہیں۔ ایک مُصِر ہے کہ کھانے کا بل وہ دے گا جب کہ دوسرا اسے نہیں دینے دے رہا‘ ان میں چھینا جھپٹی بھی ہوتی ہے تو وہ اس جھگڑے کی وجہ سمجھنے سے قاصر ہے۔ اس کے ذہن میں اس جھگڑے کا تصور ہی نہیں۔ اسے تو یہ سکھایا گیا ہے کہ
You pay for yourself. I pay for myself .
تم اپنا بل ادا کرو میں اپنا ادا کروں گا۔ دوستوں کی منڈلی وہاں جب ریستوران میں کھاتی پیتی ہے تو سب اپنا اپنا بل الگ ادا کرتے ہیں۔ اس طریقے کا نام ہی امریکن سسٹم پڑ گیا ہے۔ یہ محاورہ بھی وہاں عام ہے کہ مفت لنچ کوئی نہیں ہوتا۔ یہی مغربی ثقافت کی روح ہے۔ معروف ماہر اقتصادیات کیمپ بیل میک کونن نے تو یہاں تک کہا ہے کہ یہ محاورہ علمِ معاشیات کی کلید ہے!
اب ایک دلچسپ سوال پیدا ہوتا ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ مغرب کا کوئی باشندہ مشرق میں رہ کر مہمان نوازی کی یہ عادت اپنا لے؟ 1800ء سے پہلے، ایسٹ انڈیا کمپنی کے انگریز ملازم ہندوستانیوں میں گھُل مل جاتے تھے۔ کُرتا، انگرکھا، پاجامہ پہنتے تھے۔ پان کھاتے تھے۔ حقہ پیتے تھے۔ قالینوں پر بیٹھتے تھے۔ مقامی عورتوں سے شادیاں کرتے تھے۔ انہیں وائٹ مغل کہا جاتا تھا۔ مگر کیا ضیافتیں بھی کرتے تھے؟ اس بارے میں کوئی سند نظر سے نہیں گزری۔ یہ رچرڈ ولزلے تھا جو وائسرائے بن کر آیا تو سفید فام حاکموں کو حکم دیا کہ مقامی لوگوں سے اپنے آپ کو الگ رکھو تاکہ فاتح اور مفتوح میں فرق برقرار رہے۔ فرانسیسی طبیب، برنئیر، جو شاہ جہان اور اورنگ زیب کے درباروں سے منسلک تھا، اپنے سفر نامے میں ایسا کوئی واقعہ نہیں بیان کرتا کہ اس نے بادشاہ یا امرا کی دعوت کی ہو۔ کم از کم اس کالم نگار کی نظر سے نہیں گزرا۔ ہاں یہ دیکھا ہے کہ جو مسلمان سالہا سال سے مغرب میں رہ رہے ہیں انہوں نے اپنی روایتی مہمان نوازی ہرگز ترک نہیں کی‘ مگر کیا ایسا ہوا ہے کہ کوئی مغرب میں بہت طویل عرصہ رہا ہو، یا عمر کے اُس حصے میں وہاں رہا ہو جو شکل گیر (Formative Phase) ہوتا ہے اور، اہل مغرب کی طرح، چائے کا پوچھتا ہو نہ پانی کا اور نہ کھانے کا؟ ہمارے کلچر میں ایسا شخص کنجوس کہلاتا ہے۔ عربی ادب میں کنجوسوں کے قصے بہت پڑھے پڑھائے جاتے ہیں۔ ایک کنجوس شہد کے ساتھ روٹی کھا رہا تھا کہ ملاقاتی اندر آ گیا۔ اس نے روٹی فوراً چھپا لی مگر شہد نہ چھپا سکا۔ اس کا خیال یہ بھی تھا کہ روٹی کے بغیر یہ شہد نہیں کھائے گا۔ یہی سوچ کر اس سے پوچھا کہ کیا تم روٹی کے بغیر شہد کھاؤ گے؟ ملاقاتی نے کہا ہاں! کھا مر لوں گا۔ با دل نخواستہ کنجوس نے پیالہ اسے تھما دیا۔ ملاقاتی انگلیوں سے شہد چاٹنے لگا اور چاٹتا ہی رہا۔ کنجوس کی حالت غیر ہو گئی۔ کہنے لگا: بھائی صاحب! ذرا رُکیے! شہد دل جلا دیتا ہے۔ ملاقاتی نے جواب دیا درست کہا‘ مگر میرا نہیں یہ تمہارا دل جلا رہا ہے!