روتا جاتا تھا اور بات کرتا جاتا تھا۔ بات کر تا جاتا تھا اور روتا جاتا تھا۔ داڑھی آنسوؤں سے بھیگ گئی تھی۔ گلا رندھ گیاتھا۔ ہم نے اسے دلاسا دیا مگر سسکیاں تھیں کہ تھمنے کا نام نہیں لیتی تھیں۔
ہم چار دوست تھے۔ معمّر۔ سارا دن فارغ!شام پڑتی تو قریب کے ایک پارک میں جا بیٹھتے۔ رات گئے تک باتیں کرتے رہتے۔ حالاتِ حاضرہ پر بحث ہوتی۔ ملکی سیاست کو اپنی اپنی عقل کی چھلنی میں چھانتے مگر زیادہ وقت عمرِ رفتہ کو آواز دینے میں گزرتا۔ کبھی بچپن اور سکول کا زمانہ یاد کرتے۔ کبھی اپنے اپنے پروفیشن کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا تذکرہ کرتے۔ کبھی پچھتاووں کا شکار ہوتے تو کبھی خوش ہوتے۔ اُس دن شاید پچھتاووں اور ندامتوں کی باری تھی۔ شاہد خاموش تھا۔ یہ بات معمول کے خلاف تھی۔ہم میں سے سب سے زیادہ باتونی اور زندہ دل وہی تھا۔ کریدنے پر اس نے بتایا '' بیٹے کو ایک بزنس ڈیل سے منع کیا تھا مگر وہ نہ مانا۔ ‘‘ تو اس میں رونے کی کیا بات ہے؟ ہم نے پوچھا۔ کہنے لگا: اس لیے نہیں رو رہا کہ بیٹے نے میری رائے سے اتفاق نہیں کیا۔ رو اس لیے رہا ہوں کہ وہ سارے مواقع یاد آرہے ہیں جب میں نے ا پنے باپ کا کہا نہیں مانا تھا۔ وہ روتا رہا ‘ بات کرتا رہا اور ہم سنتے رہے۔ یہ حیرتوں کے باب تھے جو ایک ایک کر کے کھل رہے تھے۔'' آج اتنے برسوں بعد‘ جب میری مونچھیں سفید ہو چکی ہیں یوں جیسے پرانے سویٹر کی اُدھڑی ہوئی اون ہو ‘ جب میرے رخساروں پر ‘ داڑھیں گرنے کی وجہ سے‘ گڑھے پڑ چکے ہیں‘ جب میرے کاندھے سکڑ گئے ہیں اور کمر میں خم آگیا ہے ‘ آج اتنے برسوں بعد مجھے معلوم ہوا ہے کہ باپ‘ جو بھی ہو‘ جیسا بھی ہو‘ اپنی اولاد کے لیے اوتار کا درجہ رکھتا ہے۔ بیٹے کے لیے اس کے باپ سے بڑا سوامی‘ بڑا پیر ‘ بڑا سالک کوئی نہیں۔ باپ میں قدرت نے جیسے کوئی خاص چِپ ڈال رکھی ہوتی ہے۔وہ بیٹے کو آنے والے طوفانوں کی بر وقت خبر دیتا ہے۔ اس سے بڑا مستقبل بین کوئی نہیں ہوتا۔ رومی نے کہا تھا:
اے حج پر پر گئی ہوئی قوم! کہاں ہو ؟ کہاں ہو؟ معشوق تو یہاں ہے! ادھر آؤ ادھر آؤ! ارے معشوق تمہارے ہمسایے میں مقیم ہے۔ اس کی دیوار ‘ تمہاری دیوار کے ساتھ لگتی ہے اور تم ہو کہ صحراؤں اور جنگلوں میں سر گشتہ ٹھوکریں کھا رہے ہو۔ دوسرے گھر میں تو دور والے راستے سے دس بار گئے ہو ‘ ارے اس اپنے گھر ہی میں ایک بار چھت کی منڈیر پر آکر دیکھ لیتے‘‘۔
شاہد بول رہا تھا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے آواز آسمان کے دریچوں سے آرہی ہو۔ '' میں وہ دن کبھی نہیں بھول سکتا جس دن میرے والد میرے بزنس ہیڈ کوارٹر میں آئے۔ہم دونوں میرے دفتر میں بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ میرا ایک ملازم ایک یا زیادہ سے زیادہ دو منٹ کے لیے میرے پاس آیا۔ میرے والد نے اسے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ انہیں اس کا نام بھی معلوم نہیں تھا۔ اس کے جانے کے بعد انہوں نے مجھے کہا ‘یہ شخص خطر ناک ہے۔ اس سے ہوشیار رہنا! میں نے بات سنی اَن سنی کر دی۔چند سال ہی گزرے تھے کہ اُس شخص نے ‘ ہاں اسی شخص نے‘ مجھے دھوکا دیا اور نقصان پہنچایا۔ میں وہ دن بھی نہیں بھول سکتا جب میں ایک دن شام کو گھر لَوٹنے کے بعد ڈاک دیکھ رہا تھا۔ یہ روز کا معمول تھا۔ جو خطوط گھر کے ایڈریس پر آتے تھے وہ اسی طرح‘ ہر روز‘ شام کو دیکھتا تھا۔ والد وہیں ہوتے تھے۔ انہوں نے کسی خط کے بارے میں کبھی نہیں پوچھا کہ کس کا ہے یا اس میں کیا لکھا ہے‘ نہ ہی ان خطوط کو دیکھتے تھے۔ اُس دن جس کی میں بات کر رہا ہوں‘ میں نے ایک لفافہ کھولا۔ وہ کافی دور کھڑے تھے۔ پوچھا‘یہ کیا ہے؟ پھر کہا: اللہ تمہاری حفاظت کرے۔ ان کے چہرے پر پریشانی صاف دکھائی دے رہی تھی۔ میں نے انہیں نہیں بتایا کہ وہ کیا تھا۔ وہ ایک مقدمے کا نوٹس تھا جو میرے ایک ملازم نے مجھ پر دائر کر دیا تھا۔ میں نے اس مقدمے کو بھگتا۔ آخر میں فتح یاب بھی ہوا مگر آج تک مجھے نہیں معلوم ہوا کہ میرے والد کو کیسے پتا چلا یہ کاغذ خیریت کا نہیں ہے اور یہ کہ مجھے اللہ کی حفاظت درکار ہو گی۔ میں بس اتنا جانتا ہوں کہ باپ‘ اولاد کے حوالے سے ‘ مافوق الفطرت علم کا اور مافوق الفطرت طاقت کا ما لک ہوتا ہے۔ اس کے لیے اس کا عالم فاضل ہونا‘ نیک پرہیز گار ہونا‘ ڈگری یافتہ ہونا لازم نہیں۔ وہ اگر کھیت میں ہل چلا رہا ہے‘ وہ اگر ریڑھی لگاتا ہے ‘ وہ اگر مزدور ہے‘ وہ اگر اعلیٰ منصب پرفائز ہے‘ قلاش ہے یا ثروت مند ہے۔ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ جب فرمایا گیا کہ اللہ کی خوشنودی باپ کی خوشنودی میں ہے اور اللہ کی ناراضی باپ کی ناراضی میں ہے تو یہ شرط کہاں لگائی گئی کہ باپ پڑھا لکھا ہو یا پرہیز گار ہو یا مالدار ہو ؟ اب جب میں اپنے بیٹوں کی حماقتوں پراور غلطیوں پر اور نافرمانیوں پر خاموش رہتا ہوں جبکہ مجھے حقیقت حال کا پورا ادراک ہوتا ہے ‘ تو یہ سوچ کر خون کے آنسو روتا ہوں کہ میرے والد کو بھی سب کچھ معلوم ہوتا ہو گا مگر وہ ہر بار ٹوکنے کے بجائے خاموش رہتے ہوں گے۔ کیا اس روئے زمین پر‘ باپ کے علاوہ کوئی ایک شخص بھی ایسا ہے جو یہ چاہتا ہو کہ میں زندگی کی دوڑ میں ‘ یا کسی بھی معاملے میں اس سے آگے نکل جاؤں؟ یہ صرف باپ ہوتا ہے جس کی خواہش ‘ شدید خواہش ‘ہوتی ہے کہ اس کا بیٹا اس سے بھی آگے نکل جائے۔ باپ صوبیدار ہے تو بیٹے کو کپتان دیکھنا چاہتا ہے۔ باپ کلرک ہے تو بیٹے کو افسر بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ باپ معمولی دکاندار ہو تو چاہتا ہے کہ بیٹا ٹائیکون بنے۔ اس کے علاوہ بھائی ہو یا دوست‘ سب کا‘ کہیں نہ کہیں‘ کوئی نہ کوئی‘ اپنا پیچ ‘ بیچ میں ہوتا ہے اور ضرور ہوتا ہے۔ ‘‘
اب شاہد کے ساتھ ہم بھی رو رہے تھے۔ ہماری سفید داڑھیاں آنسوؤں سے تر ہو رہی تھیں۔ وہ بولے جا رہا تھا ''آہ! انسان کتنا کور چشم اور کتنا سیاہ بخت ہے! باپ کی زندگی میں وہ باپ کوTaken for grantedلیتا ہے۔سنی اَن سنی کرتا ہے۔ سمجھتا ہے کہ اسے معاملات کا اور زندگی کی باریکیوں کا اور راستوں کے پیچ و خم کا اور غلط اور صحیح کا اور سیاہ اور سفید کا ‘ باپ سے زیادہ معلوم ہے۔ مگر جس دن اس کا باپ رخصت ہوتا ہے اسے اچانک معلوم ہوتا ہے کہ سر سے چادر سرک گئی‘ سائبان گر پڑا‘ بادل تحلیل ہو گیا۔ اب اسے پتا چلتا ہے کہ کڑی چلچلاتی دھوپ کیا ہے؟اپنوں کی منافقت اور بیگانوں کی دشمنی کیا ہے اور یہ زندگی‘ یہ دنیا کتنی خطرناک ‘ پیچیدہ ‘ فریب کار اور محسن کُش ہے۔ اب وہ روتا ہے مگر اب اس کا رونا بیکار ہے۔ اب وہ چیختا ہے اور دھاڑیں مار کر کہتا ہے کہ وہ جو تھکا ہارا بوڑھا شخص گھر میں تھا وہ تو انسان کے روپ میں فرشتہ تھا۔ اسے تو میرے امتحان کے لیے بھیجا گیا تھا۔ یہ تو میری جانچ تھی۔ ہائے مجھ سے بہت غلطیاں ہوئیں! تو کیا میں کامیاب ٹھہرایا جاؤں گا ؟ ‘‘
پھر شاہد نے خود ہی اپنے سوال کا جواب دیا'' کہاں کی کامیابی ! بس یہی معجزہ ہو جائے کہ تُو فیل ہونے سے بچ جائے اور تیرے مقدر میں رسوائی نہ ہو !‘‘