''پاکستان ایک زرعی ملک ہے‘‘۔ اس خوش گمانی میں ہمیں بچپن ہی سے ڈال دیا جاتا ہے جس کا حقائق کی دنیا سے دور کا تعلق بھی نہیں۔ اگر ملک زرعی ہوتا تو ہم اناج اور دیگر اشیائے خوردنی میں خود کفیل ہوتے۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ کبھی ہم گندم درآمد کرتے ہیں کبھی چینی۔ بھارت سے ہم نے پیاز تک خریدے۔ شہد خالص ملنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا کوئی سچا اور مخلص دوست! بازار میں شہد کے جو مقامی برانڈ دستیاب ہیں انہیں خریدتے وقت شاید ہی کسی کو یقین ہو کہ یہ خالص ہو گا۔ دودھ کی جو صورت حال ہے سب کو معلوم ہے۔ نیوزی لینڈ کا دودھ بھی بازار میں دیکھا گیا ہے۔ رہے انسٹنٹ ملک کے ڈبے اور پیکٹوں میں بند دودھ، تو وہ بھی پکار پکار کر بہت کچھ کہہ رہے ہیں۔ بچوں کا دودھ الگ درآمد کیا جاتا ہے۔ گوشت بھی زراعت ہی کا حصہ ہے۔ اس میدان میں ہم گدھے تک کا گوشت بیچ اور کھا چکے۔ رہی کپاس تو اس کی پیداوار ماضی کی نسبت 34‘35 فی صد کم ہو چکی ہے۔ صنعت کار کو اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے کپاس درآمد کرنا پڑ رہی ہے جو مقامی کپاس سے پندرہ فی صد زیادہ مہنگی ہے۔ روز افزوں ہاؤسنگ سوسائٹیاں، زیر کاشت رقبے کو کم سے کم تر کر رہی ہیں۔ ریئل اسٹیٹ مافیا ایک عفریت بن چکا ہے جسے لگام ڈالنا بظاہر نا ممکن لگ رہا ہے۔ رہی سہی کسر شوگر ملیں اور دیگر کارخانے نکال رہے ہیں۔ زرعی زمینیں تیزی سے ہڑپ کی جا رہی ہیں۔ کسانوں کے لیے سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ہسپتال ہیں نہ حیوانات کے شفا خانے۔ ہمارے دیہات آج بھی ایسا زمانہ دکھا رہے ہیں جو کب کا گزر چکا۔ ایسے میں کیسے کہا جا سکتا ہے کہ ''پاکستان ایک زرعی ملک ہے‘‘۔
''پاکستان اسلام کا قلعہ ہے‘‘۔ آج تک نہیں معلوم ہو سکا کہ یہ دعویٰ ہم کس بنیاد پر کرتے ہیں؟ اگر آبادی کے اعتبار سے کرتے ہیں تو انڈونیشیا کی آبادی پاکستان سے زیادہ ہے اور بھارت میں مسلمانوں کی تعداد ہم سے ذرا سی ہی کم ہے۔ اگر ہم اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کو معیار مانیں تو اُس لحاظ سے بھی ہماری کارکردگی ہرگز اس قابل نہیں کہ اپنے ملک کو اسلام کا قلعہ قرار دیں۔ صفائی کے لحاظ سے، مراکش سے لے کر ایران تک، تمام مسلم ممالک ہم سے کہیں بہتر ہیں۔ خوراک میں ملاوٹ ہمارے ہاں روزمرہ کا معمول ہے۔ کیا کوئی انکار کر سکتا ہے کہ عہد شکنی، دروغ گوئی اور قطع رحمی ہمارے لیے بالکل نارمل ہیں۔ کرپشن اتنی ہے کہ صرف کرپشن کی بنیاد پر حکومت تک بدل گئی۔ عورت، وراثت اور اُن بے شمار دوسرے حقوق سے یہاں محروم ہے جو اسلام نے اسے دیے ہیں۔ قرآن فہمی تو دور کی بات ہے، اکثریت کو نماز تک کے معنی نہیں معلوم!
''افسروں کی بڑی بڑی سرکاری رہائش گاہیں‘‘۔ انگریزوں کے زمانے سے کمشنروں، ڈپٹی کمشنروں اور پولیس افسروں کی بڑی بڑی رہائش گاہیں چلی آ رہی ہیں۔ برطانیہ رقبے کے لحاظ سے چھوٹا ملک ہے۔ اس پر مستزاد وہاں کا بے رحم موسم سرما، نیم تاریک دن اور سرد سفاک راتیں؛ چنانچہ گھر چھوٹے چھوٹے ہوتے تھے تا کہ آتش دان سے جلد گرم ہو جائیں۔ بر صغیر آ کر انگریزوں نے زمین کی فیاض وسعتیں دیکھیں تو ان کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ بادشاہوں اور نوابوں کا تو ذکر ہی کیا، عام مڈل کلاس خاندانوں کی حویلیاں بھی بے حد کشادہ ہوتی تھی؛ چنانچہ انگریز افسروں نے اپنی رہائش گاہوں کے لیے بڑے بڑے رقبے قابو کر لیے۔ ریلوے کے انگریز افسروں نے بھی یہی کچھ کیا۔ ڈربوں میں رہنے والے انگریزوں کو ان وسیع و عریض گھروں اور بیس بیس نوکروں سے نفسیاتی تسکین ملتی تھی۔ انگریز گئے تو یہ گھر مقامی یعنی دیسی سول سرونٹس کو ملے۔ اب یہ حکومتوں کا فرض تھا کہ ان گھروں کو کسی بہتر استعمال میں لاتیں۔ تعلیمی اداروں میں تبدیل کرتیں یا ہسپتالوں میں۔ یہ حکمرانوں کے کرنے کا کام تھا۔ ایک کمشنر یا پولیس افسر اپنی سرکاری رہائش گاہ کی حیثیت بدلنے کا مجاز ہی نہیں۔ سینکڑوں ہزاروں ایکڑوں پر مشتمل گورنر ہاؤسوں کو بھی کسی بہتر مقصد کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ حکمران اس سلسلے میں نئی پالیسی اس لیے نہیں بناتے کہ ان کے اپنے سرکاری محلات پر زد پڑے گی۔
''ملکوں کی باہمی دوستی‘‘۔ ہم بہت معصوم لوگ ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات کو جذبات کے ترازو میں تولتے ہیں۔ بالکل اس طرح جیسے خاندان میں رشتہ داریوں کو تولا جاتا ہے یا پُر خلوص دوستوں کے ساتھ مرنے جینے کی قسمیں کھائی جاتی ہیں۔ اسی لیے ہم شکایت کرتے ہیں کہ امریکہ نے فلاں موقع پر ہمیں بے یار و مدد گار چھوڑ دیا۔ فلاں ملک نے مودی کی آؤ بھگت زیادہ کی اور فلاں ملک نے اپنے ہاں مندر بنوا دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی ملک کسی ملک کا سگا نہیں۔ امریکہ ہو یا روس، چین ہو یا یو اے ای، قطر ہو یا سعودی عرب، ترکی ہو یا ایران، سب کا دوستی یا دشمنی کا ایک ہی معیار ہے اور وہ ہے ملکی مفاد اور بس! یعنی
کوئی ہر جائی نہیں، کوئی وفادار نہیں
سب گرفتار ہیں ہر لحظہ دھڑکتے دل کے
ابھی نصف صدی پہلے ہندی چینی بھائی بھائی کا نعرہ لگ رہا تھا۔ آج صورت احوال یکسر مختلف ہے اس لیے کہ مفادات کا ٹکراؤ ہے۔ اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ فلاں ملک مشکل وقت میں ہمارے کام آئے گا تو یہ سادہ لوحی کے سوا کچھ نہیں۔ اگر اس کا اپنا مفاد اس میں ہے تو ضرور ہمارے کام آئے گا ورنہ نہیں۔ ترکی کی مثال لے لیجیے۔ اس کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں اور تجارتی بھی۔ ہفتے میں کتنی ہی پروازیں ترکی ایئر لائن کی تل ابیب جاتی ہیں۔ بھارت کے چین کے ساتھ بھرپور تجارتی تعلقات ہیں۔ امریکہ اور چین کی تجارت جاری ہے۔ ہم جذبات کے حصار سے جس قدر جلد باہر نکل آئیں، بہتر ہے۔ جب ہماری معیشت بہتر ہو گی، دوسروں کی احتیاج ختم ہو گی، اپنے پیروں پر کھڑے ہو جائیں گے تو دوسرے ممالک بھی ہمیں اہمیت دیں گے۔ جذباتیت کا یہ عالم ہے کہ دوسرے مسلمان ممالک اپنے اپنے مفادات کی خاطر اسرائیل سے تعلقات ہموار اور استوار کر رہے ہیں تو ہمارے سینے دُکھ سے چھلنی ہو رہے ہیں۔ بحرین کی مثال لے لیجیے۔ اس کی جغرافیائی پوزیشن پر غور کیجیے۔ اس کی آبادی کے اجزا کا تجزیہ کر کے دیکھیے۔ اس نے فیصلہ اپنے مفاد اور صرف اپنے مفاد کو دیکھ کر کیا ہے۔ بین الاقوامی سیاست شطرنج کا کھیل ہے۔ جس نے جو چال چلنی ہے، اپنی فتح کیلئے چلنی ہے۔ ہم اگر اپنی سرحدوں کو شاہراہِ عام بنا لیتے ہیں تو اس کے نتیجے میں جو کچھ ہوتا ہے، اس میں کوئی دوسرا ملک ہماری مدد آخر کس طرح کر سکتا ہے؟ المیہ یہ بھی ہے کہ ہمیں ابھی تک یہی نہیں معلوم کہ ہمارا مفاد ہے کیا؟ ہمارے معیار اس قدر سرعت سے بدلتے ہیں کہ دنیا تو کیا، خود ہم، اپنا ساتھ نہیں دے پا رہے۔
''افغانستان میں امن کی آمد آمد ہے‘‘ کہا جا رہا ہے کہ اب کے کچھ تاجک اور ازبک بھی طالبان کے ساتھ ہیں۔ مگر یہ قومیتیں تو احمد شاہ ابدالی کی فوج میں بھی تھیں۔ اصل مسئلہ یہ نہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا انہیں شریک اقتدار بھی کیا جائے گا؟ سوویت حملے کے بعد تاجک، ازبک اور ہزارہ پیش منظر پر آ چکے ہیں‘ دوبارہ انہیں پس منظر میں نہیں دھکیلا جا سکے گا۔ کیا ایک ہزارہ، تاجک یا ازبک، ملک کے سربراہ یا وزیر اعظم یا کمانڈر ان چیف کے طور پر قابل قبول ہو گا؟ اگر اس کا جواب ''نہیں‘‘ میں ہے تو اس ''نہیں‘‘ کا منطقی نتیجہ سول وار کی صورت میں ظاہر ہو گا۔