اس نے سر پر بڑی سی پگڑی باندھ رکھی تھی۔چہرا سرخ اور بڑا تھا۔ایک عجیب کیفیت اس کی آنکھوں سے چھلک رہی تھی۔ لگتا تھا وہ ابھی ابھی گھوڑے پر ایک طویل سفر کر کے آیا ہے۔ فارسی میں مزاج پرسی کی تو کھِل اُٹھا اور شستہ فارسی میں پوچھنے لگا ''بدخشاں کا لاجورد دیکھو گے ؟‘‘۔ گرم چشمہ کے اس افغان ریستوران میں‘ جس میں میز کرسیاں نہیں تھیں‘اونچے چبوتروں پر دریاں بچھی تھیں‘ بدخشانیوں کے ساتھ قہوہ پیتے ہوئے‘فارسی اور ازبک میں گفتگو کرتے ہوئے‘لاجورد کی قیمت پر جھگڑتے ہوئے اور بدخشاں کے صدر مقام فیض آباد کا مختصر ترین راستہ پوچھتے ہوئے میں ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں بھولا کہ سنٹرل ایشیا کی جیو پالیٹکس (Geopolitics)کے حوالے سے چترال پاکستان کے لیے بدخشاں کے لعل و زمرد اور لاجورد سے کہیں زیادہ قیمتی ہے مگر افسوس صد افسوس! پاکستان کے پالیسی سازوں کو اس کا کبھی احساس نہیں ہوا۔
چند سال پہلے تک چترال سال کے چھ ماہ بقیہ پاکستان سے کٹا رہتا تھا۔ برفباری کی وجہ سے لواری ٹاپ عبور کرنا ناممکن تھا۔ چترال کے عوام افغان علاقے نورستان سے ہو کر چترال جاتے تھے۔ خدا خدا کر کے2018ء میں لواری ٹنل بنی اور اب سرما میں بھی چترال آنا جانا ممکن ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے یہ سرنگ کتنے عرصے میں مکمل ہوئی؟ تقریباً آدھی صدی میں! 1970ء کے لگ بھگ یہ منصوبہ شروع ہواتھا مگر اصل بات جو بتانی ہے‘ اور ہے۔
جن دنوں لواری سرنگ مکمل ہونے کے کوئی آثار نہ تھے‘ ایک وزیر صاحب نے دعویٰ کیا کہ ان کی حکومت ( جو بھی اُس وقت تھی ) چترال کو وسطی ایشیا سے ملا نے لگی تھی۔ وزیر صاحب کو یہ کسی نے نہیں بتایا تھا کہ اس سے پہلے چترال کو باقی پاکستان سے ملانے کی ضرورت تھی۔کئی دہائیوں کے بعد آج پھر ویسی ہی صورتِ حال دکھائی دی ہے۔علاقائی روابط کانفرنس کے حوالے سے ایک وزیر صاحب نے تاشقند سے گوادر تک ٹرین سروس کی بات کی ہے۔ اللہ! اللہ! زبان ایک ایسی جادو کی شے ہے کہ کچھ بھی کہہ سکتی ہے۔ ہمارے بھوکے ننگے مفلوک الحال شعرا یمن اور شام کی مملکتوں کو اپنی ملکیت بتاتے رہے ہیں۔ کوئی پوچھے کہ تاشقند سے گوادر تک ٹرین سروس کا کیا روٹ ہو گا؟ کیا افغانستان سے گزرے گا؟ تاشقند سے ترمذ تک ریل پہلے سے موجود ہے۔ ترمذ ازبکستان کا سرحدی شہر ہے۔ ترمذ سے چمن تک 1131کلو میٹر کا فاصلہ ہے۔ ترمذ سے چمن تک کون ریلوے لائن بچھائے گا؟ کیا ہم پاکستانی بچھائیں گے ؟ دوبارہ سوچیے! ہم پاکستانی؟ کیا ہم وہی پاکستانی نہیں جن سے ریل پچھتر سال میں حویلیاں سے ایبٹ آباد تک نہیں لے جائی جا سکی! حویلیاں تک تو انگریز بہادر لے آیا تھا! کیا ہم وہی نہیں جو سو سال پہلے چلائی گئی مندرہ تا چکوال ٹرین سروس کو موت کے گھاٹ اتار چکے ہیں ؟ کیا ہم وہی نہیں جن سے انگریز وں کی فتح جنگ تک چلائی گئی ٹرین تلہ گنگ جیسے اہم شہر تک نہیں پہنچائی جا سکی جو ٹوٹل پچپن میل کا فاصلہ ہے۔ اس چمکدار قابلِ رشک ریکارڈ کے ساتھ ہم ترمذ سے چمن کو ٹرین کے ذریعے ملا دیں گے! پہاڑ‘ صحرا‘ متحارب قبیلے اور افغان مزاج‘ سب کچھ ہمارے لیے محض حلوہ ہو گا ! واہ ! کیا بات ہے ہماری !
پھر یہ دیکھیے کہ بر صغیر میں ریل1853ء میں چل پڑی تھی۔ وسط ایشیا میں 1879ء میں اور ایران میں بھی لگ بھگ اسی زمانے میں آگئی تھی۔ ڈیڑھ سو سال ہو گئے۔ اس سارے عرصہ میں افغانستان میں ایک گز ریلوے لائن نہیں بچھی۔ مگر آج ہمارے پاس جادو کا چراغ آگیا ہے۔ آج ہم افغانستان کو مشرّف بہ ریلوے کرنے لگے ہیں۔
کاش ہماے عمائدین بیانات دینے سے پہلے کبھی اٹلس بھی دیکھ لیا کریں! اگر افغانستان کے راستے نہیں تو کیا کرغزستان کے راستے تاشقند کو گوادر سے ملائیں گے ؟ تاشقند اوش سے ریل کے ذریعے جُرا ہوا ہے۔ اوش کرغزستان کا شہر ہے جو ازبک بارڈر کے ساتھ واقع ہے‘ یہ ریل فرغانہ وادی کے شہر اندجان سے ہو کر آتی ہے۔ اوش سے مشرق کو چلیں تو چین میں داخل ہو جائیں گے۔ بارڈر کی چینی چوکی کا نام ارکشتام ہے۔ تو کیا آپ ارکشتام سے خنجراب تک ٹرین چلائیں گے ؟ فرض کیجیے‘ چینی‘ جو کرشمے رونما کر نے کے عادی ہیں‘ آپ کو ارکشتام سے خنجراب تک ریلوے لائن بچھا بھی دیں تو آگے کیا کریں گے؟ خنجراب سے سست‘ ہنزہ‘ گلگت‘ تا حویلیاں تو ریل کا نام و نشان ہی نہیں۔ اوپر کی سطور میں نوحہ خوانی کی جا چکی ہے کہ ہم سے تو حویلیاں کو ایبٹ آباد سے نہیں ملایا جا چکا جو دس میل کا فاصلہ ہے۔ تو آپ تاشقند کو بذریعہ خنجراب گوادر تک ریل سے کیسے مربوط کریں گے ؟اگر آپ نے یہ معرکہ مار لیا تو ہتھیلی پر بال بھی اُگ آئیں گے اور بلی بچوں کے بجائے آئندہ انڈے بھی دیا کرے گی !!
ارے بھائی لوگو! غور کرو ترمذ کو چترال کے شمالی شہر گرم چشمہ سے بذریعہ ریل ملاؤ۔ گرم چشمہ سے اشکاشم۔ اور اشکاشم سے ترمذ۔ یہ وہ سبیل ہے جس میں افغانستان سے گزر کم سے کم ہو گا۔ اس کے بعد گرم چشمہ یعنی چترال کو ریل کے ذریعے پشاور سے جوڑو۔ یہ ایک ایسا محور(Hub)ہو گا جس پر سنٹرل ایشین ریاستیں مکھیوں کی طرح ٹو ٹیں گی۔ افغانستان بھی ٹرین کے ذریعے دنیا سے جُر جائے گا۔ چترال کی بھی قسمت جاگے گی۔ ( چمن تو پہلے ہی ٹرین سے بہرہ ور ہے) ازبکستان‘ ترکمانستان‘ تاجکستان‘ کرغزستان‘ سب کو یہ رُوٹ سہل ترین اور نزدیک ترین پڑے گا۔ پاکستان کی معیشت میں انقلاب آ جائے گا۔ اس تجویز پر جو رد عمل آئے گا اس سے کالم نگار پوری طرح آگاہ ہے۔ کہا جائے گا کہ اس کالم نگار کا دماغ خراب ہے۔ ترمذ سے اشکاشم اور اشکاشم سے گرم چشمہ مشکل ترین علاقہ( Terrain )ہے۔ پھر گرم چشمہ سے پشاور ؟ ایں خیال است و محال است و جنوں ! مگر کیا قراقرم ہائی وے کی تعمیر آسان تھی ؟ کیا مصریوں نے اسوان ڈیم نہیں بنا لیا‘ نہر سویز اور نہر پاناما کون سے آسان کام تھے ؟ ایکواڈور میں ایک ریلوے لائن کو '' شیطان کی ناک‘‘ کہا جاتا ہے۔ بالکل عمودی‘ آسمان کی طرف! اور پھر ڈھلان اور ایسی ڈھلان کہ خدا کی پناہ ! لندن کی زیر زمین ٹیوب سے اتریں اور برقی سیڑھیوں سے اوپر چڑھ کر باہر زمین پر نکلیں۔ دماغ گھوم جاتا ہے یہ سوچ کر کہ ہنستے بستے شہر کی زندگی میں خلل ڈالے بغیر کس طرح کھدائیاں کی ہوں گی ! اتنی زیادہ گہرائی ! اور یہ حیرت انگیز کام ڈیڑھ سو برس پہلے ہوا۔دیوارِ چین اور اہرامِ مصر بھی انسانی کارنامے ہی ہیں۔ متحدہ عرب امارات نے برج خلیفہ کھڑا کر ڈالا جو روئے زمین کی بلند ترین عمارت ہے۔ کبھی سوچیے کہ انگلینڈ اور فرانس کے درمیان‘ سمندر کے نیچے‘ کس طرح سرنگیں بنائی گئیں جن کے ذریعے انگلش چینل کو اوپر سے نہیں‘ نیچے سے عبور کیا جاتا ہے۔
ایک تو ہماری رفتار اور پھر ہر آنے والی حکومت کا ہر جانے والی حکومت کے بغض میں منصوبوں کو روک دینا ! کیا کیا بلائیں ہمیں چمٹی ہوئی ہیں ! اسلام آباد ایئر پورٹ کو بننے میں دس سال سے زیادہ کا عرصہ لگ گیا۔ لواری ٹنل کو پچاس سال لگ گئے۔ صدی کے تین حصے بیت چکے۔ ٹرین مری پہنچی نہ مظفر آباد! سرحد پار جموں46سال پہلے ریل کی وساطت سے باقی ملک سے جُڑ چکا۔ بہت سن چکے وسط ایشیا کو گوادر اور کراچی سے ملانے کے بارے میں ! اگر صرف باتوں سے منصوبے مکمل ہو سکتے تو ہم گوادر سے آگے‘ مالدیپ اور ماریشس تک ٹرین چلا چکے ہوتے !