وفاقی دارالحکومت میں جس لڑکی کا سر تن سے جدا کر دیا گیا اور قتل سے پہلے جسے آہنی مُکوں کی ضربیں لگائی گئیں‘ اُس کے حوالے سے اگر آپ کا خیال ہے کہ انصاف ہو گا تو آپ کا خیال بالکل درست ہے۔ اس انصاف کی جھلکیاں نظر آنا شروع ہو گئی ہیں۔فرنگی زبان کے مؤقّر روزنامہ کے مطابق‘ عدالت کی کارروائی کے دوران‘ سفید لباس میں ملبوس ایک پولیس اہلکار ملزم کے کان میں سر گوشیاں کرتا رہا۔ جب میڈیا کے نمائندوں نے ملزم سے بات کرنے کی کوشش کی تو ایک اے ایس آئی نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ '' یہ ایک بہت ٹیلنٹڈ(Talented)نوجوان ہے‘‘۔ پولیس کی اس ''غیر جانبداری‘‘ سے آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ امید کی روشن کرنیں بس اندھیرا چیرنے ہی والی ہیں۔ صرف یہی نہیں‘ پولیس نے انصاف کی طرف ایک اور جست بھی لگائی ہے۔ اس نے ایف آئی آر دفعہ 311کے تحت نہیں درج کی۔ اگر اس دفعہ کے تحت ایف آئی آر لکھی جاتی تو معاملہ قابلِ مصالحت نہ ہوتا۔ چونکہ کیس دفعہ 302کے تحت رجسٹر کیا گیا اس لیے قابلِ مصالحت ہے۔ اس دفعہ کا فائدہ یہ ہے کہ مظلوم پارٹی پر دباؤ ڈال کر عدالت سے باہر''مصالحت‘‘ کا ڈول ڈالا جا سکتا ہے۔ اس ملک میں عام طور پر کمزور کے پاس '' مصالحت‘‘ کے سوا چارہ بھی کوئی نہیں ہوتا۔ مصالحت نہیں کرے گا تو کیا کرے گا ؟ زبردست کو سزا تو ملنی نہیں۔ مصالحت خون بہا کی شکل میں بھی ہوتی ہے جیسا کہ ریمنڈ ڈیوس والے معاملے میں ہوا تھا۔ اقوام متحدہ کے بارے میں ایک دلچسپ فارمولا ہے‘ اگر جھگڑا دو چھوٹے ملکوں کے درمیان ہو تو جھگڑے کی وجہ غائب ہو جاتی ہے۔ جھگڑا دو بڑے ملکوں کے درمیان ہو تو اقوام متحدہ منظر سے غائب ہو جاتی ہے۔اور اگر جھگڑا ایک چھوٹے اور ایک بڑے ملک کے درمیان ہو تو چھوٹا ملک غائب ہو جاتا ہے۔ اسی فارمولے کا اطلاق یہاں کر لیجیے۔ معاملہ ایک بڑی اور ایک چھوٹی پارٹی کے درمیان ہو تو چھوٹی پارٹی کی کوئی نہیں سنے گا۔ دو بڑی پارٹیوں کے درمیان ہو تو ریاست غائب ہو جائے گی۔ اور دو چھوٹی پارٹیوں کے درمیان ہو تو ریاست کی چاندی ہو جائے گی اور دونوں فریقوں کو'' سبق‘‘ سکھایا جائے گا۔ چھ سال ہوئے لاہور کی سڑک پر ایک لڑکے کے جسم میں گولی پیوست کر دی گئی تھی۔ قاتل کو کیا سزا ملی تھی؟ گواہ منحرف ہو گئے تھے یہاں تک کہ مدعی بھی! ایک جاگیردار کے چشم و چراغ نے کراچی میں ایک بہن کے بھائی کو ہلاک کیا تھا۔ '' سزا‘‘ جو ملی آپ کے سامنے ہے۔ اور کیا آپ بھول گئے کہ اسی برس فروری میں ایبٹ آباد کے اُن چار نوجوانوں کو ایک تیز رفتار گاڑی نے کچل دیا تھا جو تلاشِ روزگار میں آئے تھے۔ ان چار لاشوں کے ساتھ جو انصاف ہوا اس کے آپ اور ہم سب گواہ ہیں۔ اور وہ نوجوان‘ اسامہ ندیم‘ جسے پولیس اہلکاروں نے درجنوں گولیاں مار کر ختم کیا تھا‘ اس کی لاش بھی ابھی تک ہماری بد قسمت یادداشت میں سامنے رکھی ہے۔ اس کیس میں تو حکمران اعلیٰ نے مقتول کے والد کو باقاعدہ اپنے محل میں طلب کر کے تعزیت بھی کی تھی۔ یعنی ؎
وہ شہسوار بہت نرم دل تھا میرے لیے
چبھو کے نیزہ‘ زمیں سے اٹھا لیا مجھ کو
ریاست مدینہ کے والی ضرورت مندوں کے گھروں میں پہنچتے تھے۔ کبھی راشن پہنچانے‘ کبھی اپنے گھر کی خاتون کے ساتھ کسی کی بیمار بیوی کی خبر گیری کے لیے۔ کبھی منہ اندھیرے کسی ناچاربڑھیا کے گھر جھاڑو دینے! تاہم آج کل ریاست مدینہ کی پیروی کا جو دعویٰ اور وعدہ کرتے ہیں‘ لازم نہیں کہ وہ بھی ضرورت مندوں کے گھروں کو جائیں۔ نیا زمانہ ہے۔ نئے رنگ ڈھنگ ہیں۔ پیزے سے لے کر ملبوسات اور سبزی گوشت سے لے کر ادویات تک ہر شے‘ بازار جائے بغیر‘ گھروں میں پہنچ جاتی ہے تو پھر تعزیت کے لیے مقتولوں اور مظلوموں کے گھروں میں جانے کی کیا ضرورت ہے!
ریاست ہمارے ہاں کیا کیا رنگ بدلتی ہے؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے کوئٹہ چلتے ہیں!ٹریفک سارجنٹ عطا اللہ‘ عین چوک پر‘ ایک تیز رفتار گاڑی کی زد میں آکر کچلا گیا۔ وہ ریاست کا نمائندہ تھا۔ مگر یہاں چونکہ دوسری طرف‘ مقابلے میں جو فریق تھا وہ ریاست سے زیادہ طاقتور تھا اس لیے ریاست غائب ہو گئی ؎
نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا
یہ خونِ خاک نشیناں تھا‘ رزقِ خاک ہوا
اسامہ ندیم کے معاملے میں ایک طرف ریاست تھی اور دوسری طرف ایک کمزور خاندان ! چنانچہ یہاں ریاست نے وہی رول ادا کیا جو کوئٹہ میں ریاست کے بالمقابل زور آور فریق نے ادا کیا تھا۔ وہ جو کہتے ہیں ایک صاحب حکیم کے سامنے مُلّا ہونے کا دعویٰ کرتے۔ مُلّا سامنے ہوتا تو حکیم بن جاتے۔ جہاں مُلّا اور حکیم دونوں نہ ہوتے وہاں ملا ہونے کا اعلان کرتے اور حکیم ہونے کا بھی! جہاں دونوں پہلے ہی موجود ہوتے وہاں خاموش بیٹھے رہتے۔ پیشِ حکیم مُلّا۔ پیشِ مُلّا حکیم۔ پیش ہیچ ہر دو۔ پیشِ ہر دو ہیچ! ہماری ریاست کا بھی یہی حال ہے۔ جہاں سامنے کوئی نہ ہو یا کوئی کمزور ہو‘ وہاں خوب شکوہ و جلال دکھائے گی۔جہاں سامنے جاگیر دار‘ بڑے بڑے ٹائیکون‘ یا حکومت کے حلیف ہوں گے وہاں دبک کر بیٹھ جائے گی ! چُوں کی آواز بھی نہیں نکالے گی۔
انصاف کی کئی اور صورتیں بھی یہاں رائج ہیں۔ بینکوں سے لیے گئے قرضوں پر نگاہ ڈال لیجیے۔کروڑوں اربوں کے قرضے طاقتور طبقات نے لیے اور پھر شیرِ مادر سمجھ کر ہضم کر گئے۔ آپ اور ہم قرض لے کر واپس نہ کریں تو دیکھیے بینک کس طرح ببر شیر کی طرح دھاڑے گا اور پھر اچھل کر گردن دبوچ لے گا۔ اول تو قرض ملے گا ہی نہیں۔ ملا تو ایک ایک پائی مع سود ادا کرنا ہو گی۔چند سو یا چند ہزار روپے کریڈٹ کارڈ کے رہ جائیں تو بینک بندوق لے کر پہنچ جاتا ہے مگر کروڑوں کا قرض معاف کرایا ہو تو آپ تبدیلی لانے والی کابینہ میں وزیر بھی بن سکتے ہیں۔اور ہاں یہ قرضہ ''معاف‘‘کرانے کی اصطلاح بھی خوب ہے۔ جس طرح کمزور پارٹی طاقتور قاتل کو ''معاف‘‘ کر دیتی ہے‘ ٹھیک اسی طرح‘ طاقتور کے سامنے بینک بکری کی طرح ممیاتا ہے‘ کروڑوں اربوں کا قرضہ '' معاف‘‘ کر دیتا ہے اور پھر پوری کوشش کرتا ہے کہ قرضہ معاف کرانے والوں کے نام بھی خفیہ رکھے تا کہ معزز اٹھائی گیروں کی عزت پر حرف نہ آئے۔
ٹیکس وصول کرنے میں بھی یہاں پورا پورا انصاف کیا جاتا ہے۔ تنخواہ دارطبقہ سے ٹیکس انہیں بتائے بغیر‘ تنخواہوں سے ہی کاٹ لیا جاتا ہے۔ زیادہ کاٹیں تو '' ری فنڈ‘‘ قیامت تک نہیں ہو گا۔ مگر صنعتکار‘ جاگیر دار‘ تاجر سینہ تان کر ٹیکس دینے سے انکار کرتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے حکومتوں کا حصہ بھی بنتے ہیں۔ ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اسلحہ رکھنے کے حوالے سے بھی ہمارے ہاں زبردست انصاف پایا جاتا ہے۔ عام شہری کے پاس زنگ آلود بیکار پستول بھی پایا جائے تو محشر بر پا ہو جاتا ہے۔ مگر طاقتور کے محافظ‘ کلاشنکوفیں لہراتے بلوچستان اسمبلی کی حدود میں بھی داخل ہو جائیں تو انہیں روکنے والی پولیس کے سینئر افسر کو معطل کر دیا جاتا ہے اور معطل کرنے والا کون ہے ؟ وہ وزیر اعلیٰ جو پہلا اور‘اب تک‘ آخری غیر سردار وزیر اعلیٰ ہے!! تاریخ کا یہ انصاف بھی ہمارے ساتھ عجیب ہے کہ جب کوئی مڈل کلاسیا اوپر آتا ہے تو انصاف کو پامال کرنے میں اپر کلاس کو بھی مات کر دیتا ہے۔