اعلیٰ سطحی وفد کی ناکامی

ایک عجیب بے برکت اتفاق تھا کہ چار بڑے ملکوں میں بدانتظامی نے بیک وقت ہلّہ بولا۔
انارکی تھی اور ایسی انارکی کہ تاریخ میں اس کی مثال شاید ہی ملے۔ امریکہ ‘ روس‘ برطانیہ اور فرانس ایک ہی وقت میں اس انارکی کا نشانہ بنے۔ وہ جو دنیا پر حکومت کرتے رہے‘ اپنے زعم میں تہذیب سکھاتے رہے اور براعظموں پراپنے اپنے پرچم لہراتے رہے آج چاروں شانے چت گرے ہوئے تھے۔ یہ بد انتظامی‘ یہ انارکی‘ یہ افراتفری‘ یہ نفسا نفسی‘ یہ بدامنی ایک وائرل کی طرح اٹھی۔ سب سے پہلے امریکہ بہادر کھیت ہوا۔ کہاں وہ دن کہ عراق اور افغانستان میں انسانیت اس امریکہ کے ہاتھوں لہو لہان تھی اور یہ کرۂ ارض کا حاکم مطلق بنا پھرتا تھااور کہاں یہ دن کہ کوئی شہر محفوظ نہ تھا۔ جتھے نکلتے‘ غارتگری کرتے اور شہروں کو ویران کر دیتے۔ سکول ‘ کالج‘ یونیورسٹیاں بند ہو گئیں۔ ہسپتال مریضوں سے بھر گئے۔ ڈاکٹر کوئی ملتا نہ تھا۔ ہر کوئی جان بچانے کے لیے چھپتا پھرتا تھا۔ بلوائیوں نے بازار لوٹ لیے۔ لاس اینجلس سے لے کر نیویارک تک شاہراہیں جان بچاتے ‘ بھاگتے قافلوں سے اٹ گئیں۔پھر‘ نہ جانے کیسے‘ یہ ابتری برطانیہ پہنچ گئی۔ کہاں وہ دن کہ ملکہ کی ایمپائر میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا اور جنوبی افریقہ سے لے کر کینیڈا تک اور ہندوستان سے لے کر نیوزی لینڈ تک‘ ہر جگہ برطانوی جھنڈا لہراتا تھا اور کہاں یہ وقت کہ غدر مچا ہوا تھا۔ کالے‘ گورے‘ ایشیائی ‘ سب گتھم گتھا ہو گئے۔ پولیس خود بلوائیوں کے ساتھ مل گئی۔ یہی حال فرانس اور روس کا تھا۔ ماسکو سے قافلے امن کی تلاش میں سائبیریا کا رُخ کر رہے تھے۔ پیرس شہر نہیں‘ جنگل لگ رہا تھا!
دنیا لرز رہی تھی۔ ہر طرف ایک خوف تھا ! اگر اتنے بڑے بڑے ملک‘ جو دنیاکی قیادت کر رہے تھے‘ بد امنی کے سامنے ہتھیار ڈال چکے تھے تو باقی ملکوں کا حشر سب کے سامنے تھا۔مزید تباہی کا انتظارکرنے کے بجائے ملکوں کے سربراہ سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔ کانفرنسوں پر کانفرنسیں ہونے لگیں۔ریسرچر ‘ تحقیق میں مصروف ہو گئے۔تاریخ کے اوراق پلٹے گئے۔ چین سے لے کر مصر تک اور برازیل سے لے کر جاپان تک ‘ ہر سرزمین کا ماضی کھودا گیا مگر کوئی حل نہ ملا اس لیے کہ ایسی ہمہ گیر انارکی اس سے پہلے تاریخ نے دیکھی ہی نہ تھی۔ پھر دانشوروں کا ایک وفد تشکیل دیا گیا۔ دفد نے پوری دنیا کے چھوٹے بڑے ہر ملک کا دورہ کیا اور ہر ملک کے نظم و نسق کا باریک بینی سے جائزہ لیا۔ اس ساری مشقت کا بالآخر ایک مثبت نتیجہ نکلا۔وہ یہ کہ ایک چھوٹے سے ملک کو آئیڈیل قرار دیا گیا۔ یہ ملک وسیع سمندر اور اونچے پہاڑوں کے درمیان واقع تھا۔ یوں تو سارا ملک ہی امن و امان اور معیشت کے لحاظ سے بے نظیر و بے مثال تھا مگر ایک صوبہ‘ بالخصوص‘ جنت کا نمونہ تھا۔ اس کا حکمران جینئس تھا۔ حسنِ انتظام اس کا ایسا تھا کہ لوگ خوشحال تھے۔ اشیائے ضرورت ارزاں تھیں۔شیر اور بکری ایک گھاٹ پانی پیتے تھے۔ چوری ‘ ڈاکے‘ اغوا‘قتل‘ ختم ہو گئے تھے۔ شر پسند عناصر کا قلع قمع کر دیا گیا تھا۔ ٹریفک کا سسٹم ایسا کہ دنیا رشک کرے۔ انصاف ایسا کہ نوشیرواں کو لوگ بھول چکے تھے۔ قیمتوں پر کنٹرول ایسا کہ لوگ علائوالدین خلجی کا دورِ حکومت یاد کرنے لگے۔ پھر‘ یہ حکمران لائق بھی بہت تھا۔ بولتا تو دریاؤں کی روانی شرمندہ ہوتی۔ فائلوں پر لکھتا تو علم و حکمت کے موتی لٹاتا۔ یہ سب کچھ سن کر فرانس‘ روس‘ برطانیہ اور امریکہ کے حکمرانوں کے منہ میں پانی آگیا۔ کاش ایسا جینئس ان کے ہاں بھی پیدا ہوتا! امریکہ کے صدر نے سب سے پہلے تجویز پیش کی کہ اسے بلا کر دو سال کے لیے امریکہ کا حکمران بناتے ہیں تاکہ اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر امن و امان قائم کرے۔ امریکی صدر کا خیال تھا کہ ایک بار امریکہ کے حالات بہتر ہو گئے تو باقی ممالک اس بہتری سے استفادہ کر سکیں گے۔ مگر باقی تینوں ممالک نے اس تجویز کو امریکہ کی خود غرضی قرار دیا۔ روس برطانیہ اور فرانس میں سے ہر ایک یہی چاہتا تھا کہ پہلے وہ اس عالی مرتبت منتظم کو ادھار لے۔ کئی دن بحث و تمحیص ہوتی رہی۔ آخر کار اس امر پر اتفاق ہوا کہ ان صاحب کو چاروں متاثرہ ممالک کا بادشاہ مقرر کیا جائے گا تا کہ چاروں ممالک ‘ بیک وقت ‘ استفادہ کر سکیں۔ چنانچہ چاروں ملکوں کے اعلیٰ نمائندے اس ملک میں جو سمندر اور اونچے پہاڑوں کے درمیان تھا ‘ آئے۔انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اس جینئس حکمران کو اپنے ہاں لے جانا چاہتے ہیں تا کہ وہ اپنی غیر معمولی قابلیت سے ان ملکوں کو بدامنی کے عفریت سے نجات دلوائے۔ مگر عوام نے معزز مہمانوں کی اس خواہش کو یکسر مسترد کر دیا۔ جب اصرار بڑھا تو عوام سڑکوں پر نکل آئے۔انہوں نے سروں پر کفن باندھے ہوئے تھے۔ وہ نعرے لگا رہے تھے '' مر جائیں گے‘ مگر اپنے محبوب حکمران سے جدا ہونا گوارا نہیں کریں گے‘‘۔ کچھ دیوانوں نے وفورِ محبت میں چوراہوں پر خود سوزی بھی کی۔ یوں ایک بحران پیدا ہو گیا۔ ایک عالمی بحران! ایک بین الاقوامی بکھیڑا! پوری دنیا ہول سے تھرانے لگی۔اگر ان چار ملکوں کا امن بحال نہ کیا گیا تو باقی ممالک بھی ایک ایک کر کے انارکی کے اس جہنم میں گر پڑیں گے۔ یہ پوری انسانیت کی بقا کا مسئلہ تھا۔ اور حل ایک ہی تھا۔اور وہ یہ تھا کہ اس جینئس حکمران کو ‘ اس عبقری منتظم کو‘ ان چار ملکوں کا اقتدار سونپ دیا جائے۔ عوام کو سمجھایا گیا۔ انہیں بتایا گیا کہ دنیا کے امن کی خاطر انہیں یہ قربانی دینا ہو گی۔ انہیں اپنے محبوب لیڈر کا فراق برداشت کرنا ہو گا۔ بہت مشکل سے عوام مانے؛ تاہم ساتھ ہی انہوں نے ایک شرط رکھ دی۔ شرط یہ تھی کہ چونکہ ان کا محبوب لیڈر اپنے زیر اقتدار علاقے میں پانچ رہائش گاہیں‘ مختلف شہروں میں‘ رکھنے کا شوق رکھتا ہے اور چونکہ عوام ‘ وفورِ محبت میں‘ ان پانچ رہائش گاہوں کا خرچ‘ اپنے خون پسینے کی کمائی سے یعنی سرکاری خزانے سے ادا کرتے ہیں اس لیے وہاں بھی اس محبوب اور مقبول لیڈر کو پانچ پانچ سرکاری رہائش گاہیں لازماًدینا ہوں گی یعنی پانچ روس میں ‘ پانچ امریکہ میں ‘ پانچ فرانس میں اور پانچ برطانیہ میں !
چاروں ملکوں کی پارلیمنٹس نے اس شرط کو ماننے سے معذوری کا اظہار کیا۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ کسی جمہوری ملک میں ایک حکمران کی پانچ رہائش گاہیں رکھنے کا ‘ جو نصف درجن سے صرف ایک کم ہیں‘ وہ بھی قومی خزانے سے‘ کوئی تصور نہیں ! اُس شام چار ملکوں کا اعلیٰ سطحی وفد‘ تھکے تھکے‘ بوجھل قدموں کے ساتھ واپس چلا گیا۔
ضروری وضاحت۔ یہ ایک تصوراتی داستان ہے۔ اِس کا اُس حقیقی خبر سے کوئی تعلق نہیں جو کل پرسوں میڈیا میں چھپی ہے۔ اس حقیقی خبر کی رُو سے وزیر اعظم کی رہائشگاہوں کی سکیورٹی پر دس کروڑ اکتیس لاکھ روپے ‘ وزیر اعلیٰ کے پی کی سکیورٹی پر چودہ کروڑ ستر لاکھ روپے‘ گورنر پنجاب کی سکیورٹی پر گیارہ کروڑ چورانوے لاکھ‘ گورنر کے پی کی سکیورٹی پر پانچ کروڑ چالیس لاکھ روپے ‘ صدرِ مملکت کی سکیورٹی پر پانچ کروڑ سینتیس لاکھ روپے جبکہ صرف وزیر اعلیٰ پنجاب کی پانچ رہائشگاہوں پر چوبیس کروڑ انچاس لاکھ روپے سالانہ کے اخراجات ہیں۔ ان رہائش گاہوں میں تونسہ‘ ڈی جی خان اور ملتان کی رہائش گاہیں بھی شامل ہیں۔ کسی قسم کی مطابقت محض ایک اتفاق ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں