اس میں کیا شک ہے کہ طالبان کی مراجعت ہم عصر تاریخ کا ایک انتہائی اہم واقعہ ہے۔
طالبان اپنے ملک میں کیا کرتے ہیں؟ ان کی پالیسیاں خواتین، موسیقی اور کھیلوں کے بارے میں کیا ہوں گی؟ وہ حکومت میں کون کون سے گروہ شامل کرتے ہیں اور کون کون سے نہیں؟ ان کی حکومت جمہوری ہو گی یا کچھ اور؟ اسلام کی تعبیر وہ کس طرح کرتے ہیں؟ یہ سب افغانستان کے اندرونی مسائل ہیں۔ ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ ہم یہ دعا بہر طور کرتے ہیں کہ افغانستان میں، جو زخموں سے چور چور ہے، امن ہونا چاہیے۔ وہاں کے عوام خوش اور خوش حال ہونے چاہئیں۔
ہم پاکستانیوں کی دل چسپی، طالبان کے حوالے سے، اُن امور میں ہونی چاہیے جو پاکستان سے متعلق ہیں۔ ہمارا پہلا مسئلہ یہ ہے کہ آج تک کسی افغان حکومت نے ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہیں کیا۔ ڈیورنڈ لائن 1893 میں دونوں ملکوں کے مابین ایک معاہدے کے تحت کھینچی گئی تھی۔ ایک طرف برطانوی ہند تھا اور دوسری طرف امیر عبدالرحمان خان کا افغانستان!
قیام پاکستان سے پہلے افغانستان ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کرتا رہا۔ پاکستان وجود میں آیا تو ایک طرف افغانستان نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کی مخالفت کی اور دوسری طرف ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اس وقت سے لے کر آج تک کسی افغان حکومت نے ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہیں کیا۔ ہم پاکستانی امید کرتے ہیں کہ طالبان حکومت اس مسئلے کو ہمیشہ کے لیے حل کر دے گی اور ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کرے گی جیسا کہ تقسیمِ ہند سے پہلے کی افغان حکومتیں تسلیم کرتی آئی تھیں۔
ہمارا دوسرا بڑا مسئلہ افغان مہاجرین ہیں جن کی تعداد تیس لاکھ سے کم نہیں۔ جنرل ضیاء الحق کی کوتاہ بین اور غیر متوازن پالیسی کی وجہ سے یہ مہاجرین گلگت کے پہاڑوں سے لے کر کراچی کے ساحلوں تک، پاکستان کے اطراف و اکناف میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان مہاجرین نے پاکستان کی معیشت، معاشرت اور امن و امان پر بہت زیادہ منفی اثر ڈالا ہے۔ عملاً یہ ریاست کے اندر ایک ریاست کی طرح ہیں۔ مثلاً وزیر اعظم کے دفتر سے دس پندرہ منٹ کی ڈرائیور پر ایک معروف بستی عملًا غیر ملکی بستی ہے جہاں باقاعدہ جرگہ سسٹم چلتا ہے۔ اٹک، لاہور اور کئی دیگر مقامات پر جھگڑے ہوئے اور قتل و غارت تک نوبت پہنچی۔ جہاں جہاں بھی مہاجر آباد ہیں، مقامی آبادیوں کے ساتھ ان کی کشمکش رہتی ہے۔ اب جب افغانستان میں امن و امان اور استحکام کی امید آ چلی ہے تو ہمیں یہ توقع رکھنی چاہیے کہ یہ مہاجرین واپسی کی راہ لیں گے۔ طالبان جہاں افغانوں سے اپیل کر رہے ہیں کہ وہ اپنا ملک چھوڑ کر نہ جائیں وہاں انہیں اُن مہاجرین سے بھی، جو پاکستان میں مقیم ہیں، کہنا چاہیے کہ وہ واپس آئیں اور ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں۔
ہمارا تیسرا مسئلہ وہ اینٹی پاکستان عناصر ہیں جو افغانستان میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ جمعہ کے روز ہماری وزارت خارجہ کے ترجمان نے بتایا کہ پاکستان، آنے والی افغان حکومت سے کہے گا کہ تحریک طالبان پاکستان کے خلاف ایکشن لے۔ ترجمان سے اس خبر کے بارے میں بھی سوال کیا گیا جس کی رُو سے افغانستان میں رہا کیے گئے قیدیوں میں اینٹی پاکستان عناصر بھی شامل ہیں۔ حال ہی میں ٹی ٹی پی کے سربراہ نے، جو مبینہ طور پر افغان علاقے میں ہے، سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے برملا اعلان کیا کہ اس کی لڑائی ریاست پاکستان سے ہے اور یہ کہ وہ سرحدی علاقوں پر قبضہ کر کے انہیں آزاد سٹیٹس دینا چاہتا ہے۔ صحافی اور سابق سفیر ملیحہ لودھی نے بھی اپنے ایک حالیہ مضمون میں اس دھمکی کا ذکر کر کے آنے والے خطرات سے آگاہ کیا ہے۔ لمحۂ موجود میں ہمیں طالبان سے امید رکھنی چاہیے کہ وہ ان پاکستان دشمن عناصر کو اپنے ہاں رہنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ جس طرح ایک مضبوط افغانستان، پاکستانی بہبود کے لیے لازم ہے، بالکل اسی طرح، افغانستان کا فائدہ بھی اسی میں ہے کہ اس کے پڑوس میں ایک پُر امن پاکستان ہو۔ اینٹی پاکستان عناصر کی افغانستان میں موجودگی سے بھارت کی آنکھیں تو ٹھنڈی ہو سکتی ہیں، افغانستان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا! ہاں کئی طرح کے نقصانات اور خطرات ضرور لاحق ہو سکتے ہیں۔
ہمارا تیسرا بڑا مسئلہ افغانستان کی معیشت ہے۔ آپ اعتراض کر سکتے ہیں کہ اس تحریر کے آغاز میں ہم نے افغانستان کے اندرونی معاملات میں عدم دلچسپی کا ذکر کیا تھا۔ تو پھر افغانستان کی معیشت ہمارا مسئلہ کیسے ہے؟ مگر ذرا سا بھی غور کیجیے تو جان جائیں گے کہ افغانستان کی معاشی بد حالی کا تمام تر بوجھ پاکستان پر پڑتا ہے۔ پہلے زمانوں میں جب قندھار، غزنی، کابل اور دیگر علاقوں میں اشیائے خور و نوش کی اور زر و سیم کی قلت ہوتی تھی تو وہاں سے لشکر آتے تھے اور اشیائے ضرورت چھین کر لے جاتے تھے۔ جو علاقے آج پاکستان کا حصہ ہیں، وہ ایک طویل عرصہ تک اس تاخت و تاراج کا شکار رہے۔ یہ جو پنجاب میں کہاوت تھی کہ '' کھادا پیتا لاہے دا، تے باقی احمد شاہے دا‘‘ تو اس کہاوت میں افغانستان کی اقتصادی تاریخ کا پورا احوال مستور ہے۔ اب جب لشکروں کی آمد کا سلسلہ منقطع ہے تو سمگلنگ وہی کام کر رہی ہے جو پہلے لشکر کَشی سے ہوتا تھا۔ افغانستان کے باقی پڑوسی ممالک (ایران، چین‘ ترکمانستان، ازبکستان، تاجکستان) کے مقابلے میں پاکستان کا افغان بارڈر طویل ترین ہے‘ اس لیے سمگلنگ کا بوجھ بھی پاکستان پر اسی حوالے سے پڑتا ہے۔
یہ کوئی سیکرٹ نہیں کہ افغانستان کی پیداوار، دو 'پ‘ پر مشتمل ہے۔ پھل اور پوست۔ ازبکستان کے بعد یہ افغانستان ہے جس کے پھل انسان کو حیران کرتے ہیں۔ پاکستان کے مقابلے میں افغانستان کے خربوزے، انگور، خوبانی اور انار کو جو برتری حاصل ہے، وہی برتری ازبک پھلوں کو افغان پھلوں پر حاصل ہے۔ افغان پھلوں کی منڈی پہلے پشاور میں تھی۔ اب پشاور والی منڈی ، نوشہرہ اور پشاور کے درمیان ایک مقام پر شفٹ ہو گئی ہے جسے کالا منڈی کہتے ہیں۔ افغان انگور اگست میں شروع ہو جاتا ہے۔ اکتوبر تک بغیر بیج والا انار بھی پہنچ جاتا ہے۔ خیر یہ جملۂ معترضہ درمیان میں آ گیا۔ المیہ یہ ہے کہ افغانستان میں صنعت نہ ہونے کے برابر ہے۔ گھی، چینی، آٹے، ادویات سے لے کر کپڑا، سیمنٹ، سریا تک پاکستان سے جاتا ہے۔ تجارت کے ذریعے کم اور سمگلنگ کے ذریعے زیادہ! طالبان حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہی اقتصادی حوالے سے ہے۔ کیا ہی اچھا ہو اگر وہ کوریا، چین اور جاپان جیسے ملکوں کے صنعت کاروں کو اپنے ہاں کارخانے لگانے کی دعوت دیں اور ٹیکس کی چُھوٹ دیں۔ ٹیکس کی چھوٹ دینے سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ انہیں مکمل حفاظت کی گارنٹی دیں۔
اگر طالبان، افغانستان کا رُخ جنگ و جدل سے موڑ کر صنعت، ٹیکنالوجی اور سائنس کی طرف پھیر دیں تو یہ نہ صرف افغانستان کی بلکہ اسلام کی بھی عظیم خدمت ہو گی۔ اگر فغانستان اپنے پیروں پر کھڑا ہو جائے اور سمگلنگ پر تکیہ کرنا چھوڑ دے تو پاکستان کی معیشت کے لیے یہ نیک فال ہو گی کیونکہ یہ سمگلنگ پاکستان کی معیشت کو گُھن کی طرح کھائے جا رہی ہے۔ پاکستان جو کچھ اپنے لیے پیدا کرتا ہے وہ مغربی سرحد کے پار پہنچ جاتا ہے۔
جذبات، نعرے، جوش، فریفتگی اپنی جگہ، تاہم زندگی حقائق سے عبارت ہے۔ عوام کو روٹی چاہیے۔ روٹی کے لیے نوکری درکار ہے۔ نوکری کے لیے معاشی سرگرمی ضروری ہے۔ معاشی سرگرمی، کارخانوں، منڈیوں، شاپنگ سنٹروں اور لہلہاتے کھیتوں سے نکلتی ہے۔ معاشی سرگرمی کے لیے امن و امان ضروری ہے اور جان کی امان بھی!!