ایبٹ آباد نے مدتوں سے اپنی دلکشی کا اسیر کر رکھا ہے۔ کیا شہر ہے اور کیا اس کے مضافات ہیں! شہر کے ارد گرد پہاڑ! جیسے جنوبی اٹلی کے خوبصورت شہر نیپلز کے ارد گرد! فرق یہ ہے کہ جن پہاڑوں نے نیپلز کو حصار میں لے رکھا ہے ان کی چوٹیوں تک ٹرینیں جاتی ہیں اور بسیں بھی! ایسا کوئی امکان ایبٹ آباد کی قسمت میں نہیں! ہاں یہ ضرور ہو رہا ہے کہ ایبٹ آباد کے نواحی پہاڑوں کو ملیامیٹ کر کے جُوع الارض (Land Hunger) کی تسکین کی جا رہی ہے۔ دوسرے ملکوں نے قدرتی حسن کو سہولیات سے مالا مال کیا کہ سیاح کھنچے چلے آئیں اور ہم قدرتی حسن کو ڈائنامائیٹ سے ختم کر رہے ہیں۔ ایبٹ آباد کو علامہ اقبال کی میزبانی کا شرف بھی حاصل رہا ہے۔ علامہ کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد ایبٹ آباد میں بسلسلۂ ملازمت مقیم تھے۔ علامہ 1904 میں ان کے ہاں تشریف لائے۔ ایبٹ آباد کے پہاڑ ''سربن‘‘ کی خوش بختی ہے کہ علامہ کے کلام میں اس نے جگہ پائی
اٹھی پھر آج وہ پورب سے کالی کالی گھٹا
سیاہ پوش ہوا پھر پہاڑ ''سر بن‘‘ کا
مگر جو بات کہنی ہے اور ہے۔ ایبٹ آباد کے ماتھے کا جھومر شملہ پہاڑی ہے۔ شباب کے زمانے میں پیدل چوٹی تک جایا کرتے تھے۔ پہلی بار عجیب لگا کہ ہر درخت پر، ہر بنچ پر، ہر کوڑے دان پر، کسی نہ کسی کا نام لکھا تھا۔ اُس وقت ٹیلی فون خال خال تھے۔ چنانچہ یہ طالع آزما صرف اپنا نام اور اپنے شہر یا قصبے یا گاؤں کا نام لکھنے پر اکتفا کرتے تھے۔ اس کے بعد شملہ پہاڑی پر اتنی بار چڑھے کہ ان احمقانہ تحریروں کو دیکھنے کے عادی ہو گئے۔ یہ تحریریں ہماری سائکی کا مظہر ہیں۔ جو جو نقوش ہمارے لوگوں نے لیٹرینوں کی دیواروں پر چھوڑے ہیں، ان کا کیا ہی کہنا! بد اخلاقی اور فحش گوئی کے غلیظ نمونے! اور ساتھ ٹیلی فون نمبر! مگر جو کارنامہ اس حوالے سے تازہ ترین ہے اس نے تو گویا تاریخ رقم کر دی ہے!
یہ پی آئی اے کی بین الاقوامی پرواز تھی۔ جہاز اترا۔ مسافر چلے گئے۔ اس کے بعد، روٹین کے مطابق، جہاز کی صفائی شروع ہوئی۔ صفائی کے دوران دیکھا گیا کہ جہاز کی ایک کھڑکی پر کسی نے اپنا فون نمبر لکھ دیا ہے۔ ایک نہیں دو فون نمبر! صفائی کے انچارج نے ان نمبروں کے مالک کو پیغام بھیجا کہ یہ تم نے کیا چاند چڑھایا ہے! یہ کوئی سکول ڈیسک ہے یا بس؟ اور یہ کہ اس حرکت کی پاداش میں تمہیں عدالت میں بھی بلایا جا سکتا ہے اور جرمانہ بھی عائد کیا جا سکتا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے‘ اُس عظیم شہری نے معذرت کی ہو گی؟ نہیں! اس نے پوری ڈھٹائی اور بے خوفی سے جواب دیا کہ یہ تو تفریحاً لکھ دیا تھا۔ پھر اس مردِ دانا نے مشورہ دیا کہ مجھ سے ہزار پندرہ سو روپے لے لو اور بازار سے ڈیٹرجنٹ پاؤڈر منگوا کر صاف کر دو‘ اللہ اللہ خیر سلّا!
ایئر لائن کو چاہیے تھا کہ اس مسافر کو سال دو سال کے لیے بلیک لسٹ کر دیتی۔ یقیناً یہ کارنامہ سرانجام دے کر ہم نے ہوا بازی کی بین الاقوامی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے! ایک روشن باب! اور مسافر بھی کوئی ایسا ویسا نہیں تھا، بین الاقوامی پرواز میں تھا۔ اس کی ذہنی سطح کا تصور کیجیے! جب وہ فون نمبر لکھ رہا تھا تو نہ جانے کیا کیا تصوراتی محل اس کے ذہن میں تعمیر ہو رہے تھے۔ یا تو وہ یہ سمجھ رہا تھا کہ ایسا کر کے وہ تاریخ میں ایک مقام حاصل کر رہا ہے یا اسے گمان تھا کہ کوئی حور وَش، کوئی زہرہ جبیں، کوئی سیم تن ان نمبروں پر فون کرے گی! جہاز کی صفائی کے انچارج نے اسے کہا کہ یہ کوئی ڈیسک تھا یا تم نے اسے بس سمجھا تھا! غور کیجیے تو اس طعنے میں (یا سرزنش میں) ایک جہان معنی چھپا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ سکول کے ڈیسک پر یا بس کی دیوار یا کھڑکی پر لکھنا ہمارے ہاں کا معمول ہے! اسے اب برا سمجھا ہی نہیں جاتا! سرکاری بسیں جب عام تھیں تو کھڑکیوں پر کچھ لکھنے کے علاوہ ان کی نشستیں پھاڑ کر اسفنج نکالنا بھی مسافروں کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ جلد ہی بانس رہا نہ بانسری! بسیں غائب ہو گئیں! کسی کو نہیں معلوم کہ کروڑوں اربوں کے یہ اثاثے کس کھائی میں گرے یا کن معدوں میں اترے! وفاقی دارالحکومت کے آئی ایٹ سیکٹر میں ان سرکاری بسوں کا بہت بڑا ڈپو تھا۔ اسے جی ٹی ایس کا ڈپو کہا جاتا تھا۔ یہ اربوں کی قومی جائیداد تھی۔ ترقیاتی ادارے نے اسے پلاٹوں میں تبدیل کر دیا۔ وہی جُوع الارض یعنی لینڈ ہنگر ! جس کا علاج اگر ہے تو صرف قبر کی مٹی ہے۔
اب اگلے مرحلے میں ہوائی جہازوں کی نشستیں پھاڑی جائیں گی اور اندر سے اسفنج یا جو کچھ بھی ہے نکالا جائے گا۔ یہ ہمارا ذوق ہے! یہ ہماری سوچ کی معراج ہے۔ جو کچھ بسوں‘ ویگنوں‘ ٹرکوں، رکشوں یہاں تک کہ پرائیویٹ گاڑیوں کے پیچھے لکھا ہوتا ہے اس سے بھی ہمارے ذوق کا پتہ چلتا ہے۔ تعلیم کا معیار، شاعری کا معیار سب عیاں ہوتا ہے۔ عقیدے دلوں سے نکلے اور کاروں کے عقبی شیشوں پر ثبت ہو گئے۔ آپ یونان سے لے کر چلّی تک اور آئس لینڈ سے لے کر جنوبی افریقہ تک گھوم آئیے کسی گاڑی کے عقبی شیشے سے معلوم نہیں ہو گا کہ گاڑی کا مالک پروٹیسٹنٹ ہے یا کیتھولک! اس قبیل کی اطلاع کی سہولت صرف ہمارے ہاں ہے! ماں کو پتہ نہیں پوچھتا بھی ہے یا نہیں مگر یہ اعلان سارے زمانے میں کرتا پھرتا ہے کہ یہ سب میری ماں کی دعا ہے۔ اور تو اور، کھٹارہ ٹائپ وینوں کے پیچھے ''قصویٰ‘‘ لکھا ہوا بھی دیکھا۔ استغفراللہ! کہاں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی ناقۂ مبارک! اور کہاں تمہاری یہ وین! کوئی غیر مسلم یہ حرکت کرتا تو دھر لیا جاتا مگر مسلمان خود جتنی توہین چاہیں کریں ! مکمل آزادی ہے ! ایسی گاڑیاں لا تعداد ہوں اور زرِ خالص کی کیوں نہ بنی ہوں، ناقۂ مبارک کے پاؤں سے اٹھی ہوئی دھول کے ذرے کے برابر بھی نہیں !
کوئی چلّہ، کوئی دم درود! کوئی وظیفہ ! کوئی وِرد! کوئی ٹونہ! کوئی فال! کوئی استخارہ ! کوئی منتر ، کوئی سِحر! کوئی افسوں! کہ ہم سلجھ جائیں ! سدھر جائیں ! ہے کوئی نجومی جو اس قوم کا ہاتھ دیکھے، زائچہ کھینچے اور بتائے کہ یہ قوم ذہنی بلوغت کو کب پہنچے گی؟ پہنچے گی یا نہیں ؟ ہے کوئی طبیب حاذق جو اس مدقوق قوم کو کوئی ایسا کُشتہ تجویز کرے کہ یہ ذہنی لحاظ سے تندرست ہو جائے ! کوئی سرجری ! کوئی پیوند کاری ! کوئی مصنوعی دماغ ! یا پھر ہم لا علاج ہیں! اب تو یہ بھی ممکن ہے کہ طبیب ہماری نبض پر انگلیاں رکھے اور بے ہوش ہو جائے ! ہمارا حال تو اب اُس شخص سا ہے جو ڈاکٹر کے پاس گیا تو اپنی تکلیف بتانے سے پہلے ڈاکٹر سے وعدہ لیا کہ اس کی بیماری کا مذاق نہیں اڑائے گا۔ ڈاکٹر نے یقین دلایا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہو گی ! اب اس نے اپنی ٹانگ دکھائی۔ ڈاکٹر ششدر رہ گیا۔ اتنی دُبلی پتلی ٹانگ ڈاکٹر نے زندگی میں پہلی بار دیکھی تھی۔ بالکل نحیف و نزار ! ماچس کی تیلی جیسی ! یوں لگتا تھا‘ ہاتھ ذرا زور سے لگ گیا تو ٹوٹ جائے گی ! ڈاکٹر کہنے لگا: میں سمجھ گیا ہوں‘ تم چاہتے ہو تمہاری ٹانگ نارمل ہو جائے ! اتنی نحیف، اتنی دبلی پتلی نہ رہے۔ مریض نے سر دائیں بائیں ہلایا! کہنے لگا: نہیں ڈاکٹر صاحب ! یہ سُوج گئی ہے! ہمارا بھی یہی حال ہے۔ ذہنیتیں کم مایہ ہیں اور زعم ارجمندی کا ہے!!