یہ چھ سال پہلے کی بات ہے۔ شرقِ اوسط کے ایک طاقت ور حکمران نے فرانس میں تعطیلات گزارنے کا پروگرام بنایا۔ اس کے لیے تین ہفتوں کے قیام کا پلان بنا۔ جیسا کہ ان حضرات کا سٹائل ہے، ایک ہزار قریبی افراد، خاندان کے علاوہ، ساتھ تھے۔ اعلیٰ معیار کے ہوائی جہاز، گراں ترین گاڑیاں، اور دیگر لوازمات، جیسے جہاز سے اترنے کے لیے سنہری سیڑھیاں، سب ساز و سامان ساتھ تھا۔ خاص اور غیر معمولی بندوبست یہ تھا کہ مہمان کی خواہش کے مطابق، بیچ (ساحل) کا ایک بڑا حصہ عام پبلک کے لیے بند کر دیا گیا تاکہ مہمان کی پرائیویسی میں خلل نہ پڑے۔ بزنس کمیونٹی خوش تھی کیونکہ ان کھرب در کھرب پتی مہمانوں نے لاکھوں ڈالر فرانس میں خرچ کرنے تھے۔ پروگرام کے مطابق مہمان پہنچ گئے مگر ساتھ ہی ایک اور سلسلہ شروع ہو گیا۔ فرانسیسی سول سوسائٹی نے شدید احتجاج شروع کر دیا کہ بیچ‘ جو ملکیوں غیر ملکیوں سب کے لیے ہے، فرد واحد کی خاطر بند کیوں کر دیا گیا ہے۔ ڈیڑھ لاکھ شہریوں نے فرانسیسی صدر کو احتجاجی خط بھیجا۔ بالآخر مہمان اور میزبان‘ دونوں کو ہتھیار ڈالنے پڑے۔ مہمان آٹھ دن کے بعد اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ مراکش چلا گیا۔ میزبان حکومت نے بیچ کی بندش کا حکم واپس لے لیا۔ یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ فرانس ایک آزاد ملک ہے!
سنگا پور کا واقعہ قارئین کو پہلے بتایا تھا۔ وہاں رہنے والے ایک امریکی لڑکے کو ایک جرم میں کوڑوں کی سزا سنائی گئی۔ امریکہ میں تو جیسے آگ ہی لگ گئی۔ احتجاج اور ہر سطح پر احتجاج! امریکی کانگریس کے ارکان نے سنگا پور پارلیمنٹ کو خط لکھا۔ امریکہ کے صدر نے سنگا پور کے صدر کو فون کر کے سزا منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا‘ مگر سنگا پور ٹس سے مس نہ ہوا۔ امریکی لڑکے کو ایک عام مجرم کی طرح بید مارے گئے۔ اس لیے کہ سنگا پور ایک آزاد ملک تھا۔
ایک عام فرانسیسی کو کسی بھی وقت کسی بھی بیچ پر جانے کا حق حاصل ہے۔ وہ اس حق پر کسی کو ڈاکہ مارنے کی اجازت نہیں دیتا۔ پاکستان میں عام پاکستانی کے حقوق کتنے محفوظ ہیں؟ کئی بڑے شہروں کے ہوٹل گزشتہ ہفتے سے ملک کے شہریوں کے لیے بند ہیں۔ آئندہ تین ہفتوں تک کسی بُکنگ کی اجازت نہیں۔ پہلے سے موجود لوگوں کو بھی ہوٹلوں سے چلے جانے کے لیے آمادہ کیا جائے گا۔ ضلعی انتظامیہ نے ہوٹلز خالی کرانے کا نوٹی فکیشن جاری کر دیا ہے۔ انگریزی معاصر کے مطابق وفاقی دارالحکومت کے تمام ہوٹلوں کا کنٹرول انتظامیہ نے سنبھال لیا ہے۔ جو غیر ملکی آئیں گے‘ وہ پاکستان میں مختصر قیام کے بعد اپنے اپنے ملک کو روانہ ہوں گے۔ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ ایسا فرانس یا امریکہ یا کسی آزاد جمہوری ملک میں ہو سکتا ہے؟ لیکن یہاں اگر راستہ چلنے کا بنیادی حق غصب ہو سکتا ہے، اگر رُوٹ لگ سکتا ہے، اگر سرکاری اہل کاروں کی مدد سے یا کسی دھرنے یا جلوس کے ذریعے ٹریفک بلاک کی جا سکتی ہے‘ تو ہوٹلوں میں بکنگ کیوں نہیں بند کی جا سکتی! یہ جو محاورہ ایجاد ہوا ہے رُوٹ لگنا تو یہ بھی ہمارے ہاں کی خاص بات ہے۔ ایسے محاوروں کا مغربی ممالک سوچ بھی نہیں سکتے! اور پھر اگر یہ ملک ٹرانزٹ کے لیے استعمال ہونا بھی ہے تو یہ افراد یہاں، مبینہ طور پر، تین ہفتے کیوں ٹھہریں گے؟ کیا اگلی فلائٹ سے یہ اپنے ملک کو نہیں جا سکتے؟ کیا گارنٹی ہے کہ ان میں ہمیں نقصان پہنچانے والے لوگ شامل نہیں ہوں گے؟ آخر تین ہفتے یہاں رہنے کا کیا مقصد ہے؟
شادیانے بجائے جا رہے ہیں کہ ہمیں نئے مواقع مل رہے ہیں۔ ہمارا بہت بڑا رول ہے! ہم توجہ کا مرکز بننے جا رہے ہیں۔ ایک نئی Window of opportunity کھل رہی ہے۔ ہر ایسے موقع پر ہم نے یہی کہا اور پرائی آگ میں کُود گئے۔ افغانستان میں روسی آئے تو جنگ کی ذمہ داری ہم نے سنبھال لی۔ سرحد کی لکیر مٹا دی۔ دنیا بھر کے جنگجوئوں کو اپنے ملک کی سر زمین پلیٹ میں رکھ کر پیش کر دی۔ ملک کے طول و عرض میں اسلحہ اور منشیات کی منڈیاں کھل گئیں۔ راکٹ تک بکنے لگے۔ سرکاری ملازموں کی اولادیں صنعت کار بن گئیں۔ شخصی ایمپائرز کھڑی کر لی گئیں‘ مگر ملک اتنا ہی غریب رہا۔ یہ جو آج پھر بھنگڑے ڈال رہے ہیں کہ دنیا کو ہماری ضرورت پڑ رہی ہے اور نئے مواقع مل رہے ہیں تو ان سے پوچھیے کہ گزشتہ مواقع میں آپ کے نفع و زیاں کا حساب کیا رہا! ضیاالحق اور پرویز مشرف کے زمانوں میں خوب خوب مواقع ملے، دنیا کو ہماری ضرورت پڑی۔ ہم اپنے شہریوں کو ایک ایک ہزار ڈالر میں فروخت تک کرتے رہے تو کیا ہم امیر ہو گئے؟ کیا غیر ملکی قرضے اتر گئے؟ کیا عام آدمی آسودہ حال ہوا؟ یہ کیسے مواقع تھے کہ آج ہم بین الاقوامی مالی اداروں کے پہلے سے بھی زیادہ محتاج ہیں؟ کہاں ہیں وہ ڈالر جو عشروں تک آتے رہے؟ ہمای بیلنس شیٹ میں اسی ہزار شہادتوں اور لاکھوں زخمیوں کے سوا کیا ہے؟
ہم ہمیشہ بیگانی شادی میں دیوانہ وار ناچتے ہیں اور پھر عزت نفس کو تار تار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دنیا ہماری قربانیوں کو تسلیم کرے؟ دنیا نے ہمارے آگے کب ہاتھ جوڑے تھے کہ جناب! کرم کیجیے اور قربانی دیجیے؟ دنیا کیوں تسلیم کرے؟ اگر کوئی قربانی ہم نے دی بھی ہے تو کیا دنیا سے داد لینے کے لیے دی ہے؟ کیا ہم نے ہر قربانی کا معاوضہ نہیں لیا؟ آج پھر ہم اپنے آپ کو پیش کر رہے ہیں! افغانستان کے پڑوس میں ہمارے علاوہ بھی تو ممالک آباد ہیں۔ ایران کو تو خیر کوئی یہ کہنے کی جسارت ہی نہیں کر سکتا کہ ہمارے لیے اپنے ملک کو راہ داری میں تبدیل کر دو‘ مگر تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان کے بارڈر بھی تو افغانستان کے ساتھ لگتے ہیں! کیا وہاں ہوٹل نہیں؟ کیا ان ہزاروں افراد کا انخلا ان ملکو ں کے ذریعے نہیں عمل میں لایا جا سکتا؟ صرف پاکستان ہی ہر بار کیوں استعمال ہوتا ہے؟ اس لیے کہ پاکستان اپنے آپ کو خود پیش کرتا ہے۔ پھر جب استعمال کرنے والے، استعمال کر کے پھینک دیتے ہیں تو ہم آہ و زاری اور نالہ و فریاد کرتے ہوئے آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں کہ ہمیں چھوڑ دیا گیا! کبھی ہم سسکیاں بھرتے ہیں کہ ہمیں ٹیلی فون نہیں کیا گیا۔ کچھ عرصہ بعد پھر ایک نیا ہنگامہ کھڑا ہوتا ہے۔ ہم پھر کُود پڑتے ہیں۔ ہم عجیب مومن ہیں جو ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسے جاتے ہیں۔یہ درست ہے کہ افغان ہمارے بھائی ہیں۔ ہم ان کی خوشی اور غم میں شریک ہیں۔ ہم ان کے خیر خواہ ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان میں امن ہو۔ وہاں کے عوام خوشحال ہوں۔ ترقی کریں۔ تعلیم اور صحت کی وہاں سہولیات ہوں۔ افغان بچوں کے ہاتھوں میں بندوق کیوں ہو؟ کتاب کیوں نہ ہو؟ لیپ ٹاپ کیوں نہ ہو؟ تہذیبی، لسانی، نسلی، ادبی اور ثقافتی لحاظ سے ہم افغانستان سے اٹوٹ رشتہ رکھتے ہیں‘ مگر ہر بار افغانستان کے نام پر ہم یہ امریکی پنجالی اپنی گردن پر کیوں رکھ لیتے ہیں؟ سرسبز و شاداب کھیت میں یہ سانپ ہم سے کیوں لپٹ جاتا ہے؟ افغانستان آتے جاتے ہوئے ہم امریکی کھائی میں کیوں گر جاتے ہیں؟ ہم امریکہ کے ایک ٹیلی فون پر یا تو ڈھیر ہو جاتے ہیں یا ایک ٹیلی فون کے لیے ترستے رہتے ہیں! کبھی انخلا کے لیے استعمال ہوتے ہیں تو کبھی ادخال کے لیے! علامہ اقبال نے افغانوں کو نصیحت کی تھی:
اپنی خودی پہچان، او غافل افغان!
افغان تو علامہ کی نصیحت پر عمل پیرا ہیں۔ ہمارا کیا ہو گا؟ ہم اپنی خودی کب پہچانیں گے؟