افغانستان سے انخلا کے مسئلے میں پاکستان نے جس طرح اپنے آپ کو شامل(Involve )کیا ہے یا جس طرح اسے شامل کیا گیا ہے‘اس کے حوالے سے معاملہ تاحال پیچیدہ اور مبہم ہے۔یوں لگتا ہے کہ حکومت خود بھی واضح نہیں ہے۔ وزارت ِداخلہ کچھ اور کہہ رہی ہے اور وزیر داخلہ کا بیان کسی اور سمت جا رہا ہے۔ رونامہ دنیا کے مطابق‘ وزارتِ داخلہ نے تحریری طور پر قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو بتایا ہے ''نئے مہاجرین اور غیر قانونی افغان باشندے پاکستان کے لیے سنگین خطرات کا باعث بن سکتے ہیں‘‘۔ وفاقی وزیر داخلہ نے اگرچہ یہ کہا ہے کہ افغانستان سے آنے والوں کو آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت نہیں ہو گی مگر ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتایا کہ انخلا کے بعد پاکستان آنے والوں کی تعداد کا انحصار امریکہ اور دیگر ممالک پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ '' امریکہ اور اتحادی جتنے مرضی چاہیں افغان اور دیگر ممالک کے شہریوں کے لیے پاکستان میں ٹرانزٹ کی سہولت سے استفادہ کر سکیں گے۔اس معاملے میں تعداد کو سامنے نہیں رکھا جائے گا۔اتحادی جتنے مسافروں کو ٹرانزٹ دینے کی درخواست کریں گے‘ انہیں ویزے جاری کر دیے جائیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں شیخ رشید احمد نے کہا کہ افغانستان سے انخلا کے لیے پاکستان آنے والوں کو تیس دن کا ٹرانزٹ ویزا جاری کیا جائے گا۔‘‘ ( روزنامہ دنیا۔29اگست)۔
نوٹ کرنے والا پوائنٹ یہ ہے کہ وزارتِ داخلہ نے قائمہ کمیٹی کو بھیجے گئے تحریری جواب میں جس خطرے کا اظہار کیا ہے‘ وزیر داخلہ کے انٹرویو میں اس کا کوئی شائبہ تک نظر نہیں آرہا۔ بلکہ انہوں نے تو تعداد کے حوالے سے امریکہ اور اتحادیوں کو بلینک چیک دے دیا ہے۔ساتھ ہی ٹرانزٹ ویزا کے سلسلے میں تیس دن کی اطلاع بھی دی ہے۔
حسب ِمعمول حکومت نے اس انتہائی حساس ایشو پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہیں لیا۔ یوں تو اپوزیشن کو بھی ساتھ بٹھا کر یہ معاملہ طے کرنا چاہیے تھا مگر خیر‘ جیساکہ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں‘ موجودہ وزیر اعظم اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے یا بات کرنے کے لیے تیار نہیں۔ سابق سربراہ سینیٹ جناب رضا ربانی نے حکومت سے کچھ سوال پوچھے ہیں۔ اول:پاکستان کو کس چیز نے مجبور کیا کہ وہ افغانستان سے نکلنے والوں کے لیے ٹرانزٹ سٹیشن کا کردار ادا کرے ؟ دوم:ان لوگوں کی‘ جنہیں ویزے دیے جا رہے ہیں‘ قومیتیں کیا کیا ہیں ؟ سوم:ان کا قیام کتنا ہو گا اور ویزا جو دیا جارہا ہے‘ کس ٹائپ کا ہے؟ چہارم: یہ امر یقینی بنانے کے لیے کہ یہ لوگ پاکستان سے چلے جائیں گے اور مقامی آبادی میں مکس نہیں ہوں گے‘ حکومت کیا احتیاطی تدابیر اختیار کر رہی ہے؟ پنجم: رضا ربانی نے ویزے دینے کی اس پا لیسی کو '' لبرل‘‘ قرار دیتے ہوئے یہ بھی پوچھا کہ حکومت نے داعش اور اسلامک سٹیٹ کے عسکریت پسندوں کو روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں؟ کیونکہ آنے والوں میں وہ بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ رضا ربانی نے کہا کہ یہ سب بنیادی سوالات ہیں۔عوام کو ان کے جوابات حاصل کرنے کا حق اس لیے بھی ہے کہ یہ مسئلہ ان کی زندگیوں کو متاثر کرے گا اورسوال ملک کی سکیورٹی کا بھی ہے۔ مسلم لیگ نون کے جناب احسن اقبال نے کہا ہے کہ حکومت کو‘ انخلا کے بعد آنے والوں کا ٹریک ریکارڈ رکھنا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ یہ لوگ پاکستان چھوڑ کر چلے جائیں۔
دلچسپ بیان جماعت اسلامی کا ہے جو ماضی میں‘ خاص طور پر‘ جنرل ضیا ء الحق کے عہد میں‘ حکومت کی افغان پالیسی کی بہت بڑی حامی رہی ہے۔ قاضی حسین احمد مرحوم ایک اردو روزنامے میں شائع ہونے والے اپنے مضامین میں انکشاف کیا کرتے تھے کہ کس طرح اور کن کن جہادی رہنماؤں کو خفیہ طور پر لایا اور رکھا جاتا تھا۔ قاضی صاحب کے فرزند‘ جناب آصف لقمان قاضی نے‘ جو جماعت کے امورِ خارجہ ونگ کے سربراہ ہیں‘ حالیہ انخلا کے حوالے سے بہت منطقی سوالات اٹھائے ہیں۔ مثلاً یہ کہ جن افراد کو ایک ماہ ٹھہرنے کے لیے ویزے دیے جا رہے ہیں‘ حکومت ان کے کوائف مہیا کرے!یہ کہ کس فورم پر یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ اتنے ہزار لوگوں کو ملک میں آنے دیا جائے گا؟ اور یہ کہ اس امر کی کیا ضمانت ہے کہ یہ غیر ملکی پاکستان کی سکیورٹی کے لیے خطرہ نہیں ثابت ہوں گے جیسا کہ ریمنڈ ڈیوس ثابت ہوا تھا؟ جماعت اسلامی کے رہنما نے اس کے بعد ایک سوال ایسا پوچھا ہے جس پر ہمارے پالیسی سازوں کو بالخصوس خارجہ امور کی گتھیاں سلجھانے والوں کو ضرور غور کرنا چاہیے۔ وہ یہ کہ کیا امریکہ نے بھارت کے ساتھ بھی‘ جو اس کاStrategic partnerہے‘ ایسے ہی انتظامات کیے ہیں؟ دوسرے لفظوں میں سوال یہ اٹھتاہے کہ امریکہ جس طرح پاکستان کو انخلا کے حوالے سے استعمال کر رہا ہے‘ بھارت کو کیوں نہیں کر رہا ؟
عملی طور پر کتنے افراد آتے ہیں اور کتنا قیام کرتے ہیں ؟اس سوال کا جواب‘ لمحہ موجود میں‘ شاید کوئی بھی نہ دے سکے۔اب تک‘ وفاقی وزیر داخلہ کے بیان کی رُو سے‘ ساڑھے تین ہزار افراد پاکستان آئے ہیں۔ان میں وہ چودہ سو بھی شامل ہیں جو سڑک کے ذریعے پہنچے ہیں۔ تقریباً تمام اپوزیشن جماعتوں نے اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اگر موجودہ حکومت کے اصحابِ قضا و قدر اس وقت اپوزیشن میں ہوتے تو کیا عجب ان کا موقف اس سے بھی زیادہ سخت ہوتا اور یہ سارے سوالات یقینا وہ بھی پوچھتے۔پاکستان نے ماضی میں افغانستان سے آنے والوں کی وجہ سے بے پناہ جانی اور مالی نقصانات اٹھائے ہیں۔ یہ درست ہے کہ مہاجرین کی غالب اکثریت خطرناک نہیں تھی مگر لاکھوں افراد آرہے ہوں اور پھر سالہا سال‘ بلکہ دہائیوں تک قیام بھی کر رہے ہوں تو ان میں کئی ناپسندیدہ عناصر کا شامل ہو جانا ناممکن نہیں اور ایسا ہوتا رہا۔ اس ضمن میں یہ پالیسی کہ ان مہاجرین کو کیمپوں تک محدود رکھنے کے بجائے کھلا چھوڑ دیا جائے‘ ازحد نقصان دہ ثابت ہوئی۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ ایک انتہائی احمقانہ پالیسی تھی جس کا دور اندیشی سے دور کا تعلق بھی نہ تھا۔گھر میں معزز ترین مہمان بھی آ کر قیام کرے تو آپ اسے گھر کے تمام کمروں اور حصوں تک رسائی نہیں دے سکتے۔
انخلا میں پاکستان جو کردار ادا کر رہا ہے‘ یا‘ جو کردار ادا کرنے کے لیے‘ شاید‘ اسے مجبور کیا گیا ہے‘ اس کا پاکستان کو کیا فائدہ ہو گا؟ آج کل کی دنیا میں کوئی ملک کسی کے لیے کچھ نہیں کرتا جب تک اس کا اپنا مفاد شامل نہ ہو۔ امریکی تو اس رویے کے لیے خاص طور پر مشہور ہیں۔ یہ محاورہ کہ ''مفت میں لنچ کوئی نہیں کھلاتا‘‘ امریکہ ہی سے نکلا ہے۔ تو کیا پاکستان کو اتنا بڑا کردار ادا کر کے‘ اور اتنا بڑا خطرہ اپنی سکیورٹی کے ضمن میں لے کر‘ کچھ مالی اور دفاعی فوائد حاصل ہوں گے؟ اس سوال کا جواب عوام جاننا چاہتے ہیں۔ بات پھر وہی آجاتی ہے کہ اس سارے ایشو پر پارلیمان میں تفصیلی بحث ہونی چاہیے تھی۔ وزیر اعظم خود وہاں اپنی پالیسی کی وضاحت کرتے اور عوام کو اعتماد میں لیتے۔ اپوزیشن ارکان سوالات اٹھاتے۔ متعلقہ وزرا جواب دیتے۔ یوں مسئلے کے مختلف پہلو سامنے آتے اور حکومت کو فیصلہ کرنے میں آسانی بھی رہتی اور اس الزام سے بھی بچ جاتی کہ فیصلہ کرنے میں عوام شامل ہیں نہ پارلیمان نہ اپوزیشن! یہ طرفہ تماشا ہے کہ حکومت میاں نواز شریف صاحب کی ہو یا عمران خان صاحب کی‘ اس بات پرعملاً دونوں متفق ہیں کہ پارلیمان کی کوئی اہمیت نہیں۔ جمہوریت میں یہ پارلیمان ہوتی ہے جو حکومت کی رہنمائی کرتی ہے۔ دیکھیے ہمارے ہاں یہ اصلی جمہوریت کب آتی ہے؟