کہانی ابھی نامکمل ہے!

اس کا انجام ساری دنیا نے دیکھ لیا۔ جگر کے جن ٹکڑوں کے لیے اللہ کی مخلوق کی گردن پر پاؤں رکھ کر اللہ کی مخلوق کو نچوڑتا رہا، خون پیتا رہا‘ جگر کے ان ٹکڑوں میں سے کوئی کام نہ آیا۔ وہ سب بحر اوقیانوس پار کر گئے اور ایک عشرت بھری لگژری سے بھرپور زندگی گزارنے میں مصروف ہو گئے۔
جن لوگوں کا خون چوستا رہا، وہ اپنی زندگی بھر کی خون پسینے کی کمائی کے پیچھے بھاگتے رہے، پامال ہوتے رہے، ٹھوکریں کھاتے رہے۔ ان کی حیثیت اُس مٹی کی تھی جو پاؤں کے نیچے آتی رہتی ہے۔ کبھی اس مٹی پر بوٹوں والے چلتے ہیں کبھی ڈھور ڈنگر! کبھی اس مٹی کو پانی بہا لے جاتا ہے اور یہ کسی گہرے گڑھے میں جا گرتی ہے‘ لیکن اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس مٹی کا کوئی پرسان حال کبھی بھی نہیں ہو گا، تو وہ اندھا ہے یا احمق یا مجنون !
اس نے گھر بنایا تو ایسا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے لاٹ صاحب کا کلکتہ والا گھر اس گھر کے سامنے چمار گھر لگتا تھا۔ سالہا سال یہ گھر بنتا رہا۔ لوگ اس گھر کو بنتا، اوپر جاتا، چوڑا ہوتا دیکھتے رہے۔ دیکھنے والوں کو اس گھر کے سامنے اپنی بے بضاعتی کا احساس ہوتا۔ انہیں یوں محسوس ہوتا جیسے وہ اس قصر کے سامنے زمین پر رینگنے والے کیڑے ہیں۔ راج، معمار، مزدور، بڑھئی، لوہار، نقاش، ہنر مند، روبوٹ بن کر کام کرتے رہے۔ یہاں تک کہ شداد کی یہ جنت مکمل ہو گئی۔
پھر حساب کے دن کا آغاز ہو گیا۔ لوگ بھول جاتے ہیں کہ صبح سب کے لیے روشنی کا پیغام نہیں لاتی۔ یہ کچھ کے لیے نجات کا سبب بنتی ہے تو کچھ کے لیے عذاب کا۔ پو پھٹے غنچے کھل کر پھولوں کا روپ دھارتے ہیں اور یہ تڑکے کا وقت ہوتا ہے جب قیدی کو دار پر چڑھایا جاتا ہے! اِنَّ مَوْعِدَہُمُ الصُّبْحُ -اَلَیْسَ الصُّبْحُ بِقَرِیْب۔ ہائے وعدے کا وقت صبح ہے اور صبح ہونے میں دیر ہی کتنی ہے! اسے بیماری لگ گئی! ایسی جس کا علاج روئے زمین پر نہ تھا۔ اربوں کھربوں کے اس مالک کو کوئی ایسا طبیب، کوئی جراح، کوئی وید، کوئی سنیاسی کوئی جوگی، نہ ملا جو تندرست ہونے میں اس کی مدد کرتا۔ ظاہر ہے کہ روحانی علاج بھی کیا گیا ہو گا۔ دعائیں، تعو یذ‘ پانی جس پر آیاتِ شفا پڑھ کر پُھونکی گئیں، کیا کچھ نہ ہوا۔ ایوب نبی بیمار ہوئے تھے تو پکار اٹھے میرے رب! مجھے لگ گئی بیماری ! اور تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔ وہ پیغمبر تھے ۔ پیغمبر کے دامن کی شفافیت کا کیا ہی کہنا! کچھ بزرگ بیماری میں دعائے ایوب پڑھنے کی تلقین کرتے ہیں۔ یہ نہیں پوچھتے کہ کسی کا حق تو نہیں مارا؟ کسی غریب کا مال تو نہیں ہڑپ کیا؟ کسی مزدور کی مزدوری تو تمہارے ذمہ نہیں؟ کسی رشتہ دار سے تعلق تو نہیں قطع کیا؟ کسی کی زمین، کسی کی پگڈنڈی، کسی کا کھیت تو نہیں دبایا ہوا؟ کسی کے مقروض تو نہیں؟ بہر طور کوئی دوا کارگر نہ ہوئی۔ یہاں تک کہ اربوں کھربوں روپوں اور ڈالروں کی موجودگی میں اس کے سانسوں کی میعاد بڑھ نہ سکی۔ اب یہاں یہ سوال بھی اٹھایا جا سکتا ہے کہ پُر اسرار ، لا علاج بیماری کا سبب وہ چیخیں اور آہیں کیسے ہو گئیں جو فلک کے اُس پار پہنچیں! بجا فرمایا۔ کوئی ثبوت نہیں! کوئی گواہی نہیں! مگر اس امر کے شواہد بھی تو ناپید ہیں کہ پُراسرار ، لا علاج بیماری کا کوئی تعلق، کوئی کنکشن، چیخوں اور آہوں سے نہیں! ہاں تجربہ کرنے میں کوئی حرج نہیں! صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے ! جو سمجھتا ہے کہ دونوں چیزوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں تو وہ خلق خدا کے ساتھ وہی کچھ کر کے دیکھے جو اس شخص نے کیا۔ پھر اگر اس کا انجام خوشگوار اور قابلِ رشک ہوا تو وہ اپنا مقدمہ ثابت کرنے میں کامیاب شمار ہو گا!
موت کا سُن کر لوگ جوق در جوق پہنچے۔ ان کے ہاتھوں میں پنج سورے تھے نہ تسبیحیں! وہ دعائے مغفرت کرنے آرہے تھے نہ پس ماندگان سے اظہار افسوس کے لیے۔ ان کے ہاتھوں میں بینر تھے جن پر مطالبات درج تھے اور بد دعائیں! وہ مرنے والے کو کوس رہے تھے۔ اپنی ڈوبی ہوئی رقوم مانگ رہے تھے‘ مگر وہ جو، ان کا مجرم تھا وہ تو اب خالی ہاتھ تھا۔ اس کے کفن میں کوئی جیب نہ تھی۔ افسوس وہ کچھ بھی نہ ساتھ لے جا سکا۔ سب کچھ پیچھے رہ گیا اور یہ سب کچھ جو پیچھے رہ گیا، دوسروں کے قبضے میں چلا گیا۔ اُس کی چَیک بُکیں، اُس کے لاکر، اُس کی تجوریاں، اس کی ملکیتی دستاویزات، اس کی کرنسیوں کے ڈھیر، سب اس کی آنکھیں بند ہونے کے بعد ایک ثانیے کے اندر اندر، اس کے نہ رہے۔ ہو سکتا ہے موت کے بعد وہ یہ مطالبات، یہ بد دعائیں، یہ وحشت ناک کوسنے سُن رہا ہو، ہو سکتا ہے وہ یہ بینر پڑھ رہا ہو مگر ایک تہی دست ، قلاش، کنگال، مفلوک الحال ، خراب و خوار شخص کسی کو کیا دے سکتا ہے۔ جب اس کا جنازہ پڑھا جا رہا تھا، جب اسے لحد میں اتارا جا رہا تھا، جب اس کے بدن سے کچھ اِنچ اوپر، پتھر کی سِلیں رکھی جا رہی تھیں، جب ان سلوں کے درمیان نظر آنے والے گَیپ گارے سے بھرے جا رہے تھے، جب منوں مٹی ڈالی جا رہی تھی، جب مٹی کا یہ ڈھیر قبر کی صورت اختیار کر رہا تھا تو یہ سارا وقت اس کے ہاتھوں زخمائے لوگ مسلسل مطالبے کر رہے تھے ، بد دعائیں دے رہے تھے اور جھولیاں اُٹھا اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے۔
مگر یہ کہانی پوری نہیں ہوئی۔ اس کہانی کا ایک حصہ رہتا ہے۔ جب یہ معاملہ اُس وقت کے قاضی کے پاس گیا تھا تو انصاف یوں ظہور پذیر ہوا تھا کہ ملزم کا بیٹا قاضی کی دختر کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں بندھ گیا تھا۔ سو، کہانی ابھی نامکمل ہے۔ کہانی منتظر ہے۔ کہانی اپنا انجام دیکھنے کے لیے ساعتیں گِن رہی ہے۔
یاد نہیں مرزا فرحت اللہ بیگ نے یہ قصہ اپنے اوپر چسپاں کیا ہے یا کسی اور کردار پر۔ بہر حال قصہ یوں ہے کہ قانون کے امتحان میں سوال آیا کہ ایک شخص نے دوسرے شخص کو قتل کر دیا۔ قتل کے دو گواہ موجود ہیں۔ مقتول کے پسماندگان میں بیوہ اور دو بچے ہیں۔ کیس کا فیصلہ کرو۔ ہونہار امیدوار نے فیصلہ کیا کہ دونوں بچوں کو یتیم خانے میں داخل کرا دیا جائے۔ گواہوں کو سیدھا جیل میں بند کر دیا جائے۔ رہے قاتل اور مقتول کی بیوہ، تو ان دونوں کی شادی کر دی جائے! انصاف کی بھی کیا کیا صورتیں ہیں! اندھے کوتوال لگ جاتے ہیں۔ توتلے داستان گو بن جاتے ہیں ۔ حکم ہوتا ہے کہ آئندہ نائیجیریا، زیمبیا اور چاڈ، یورپ کا حصہ سمجھے جائیں گے۔ نقشے میں ہمالہ کو بحرالکاہل کے درمیان دکھایا جائے گا۔ دنیا کا گرم ترین مقام الاسکا ہو گا اور سرد ترین جیکب آباد! جس وقت پُل منہدم ہوا اُس وقت پُل پر سے ہاتھی گزر رہا تھا۔ عین اُسی وقت چیونٹی بھی پُل پر چل رہی تھی۔ چنانچہ پُل گرانے کی فرد جرم چیونٹی پر عائد کی گئی۔ پرانی بات ہے۔ ہمارے دوست اجمل نیازی صاحب نے اخبار میں لکھا کہ اُس وقت کا پنڈی کا کمشنر چونسٹھ پلاٹوں کا مالک ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ تریسٹھ بھی نہیں پورے چونسٹھ! اس کے فوراً بعد کمشنر صاحب کا درجہ بلند تر کر کے انہیں پی ٹی وی کا سربراہ بنا دیا گیا۔ یہ عجائبات کی سرزمین ہے۔ یہاں سب کچھ ممکن ہے۔ ماشکی بادشاہ بن سکتا ہے۔ کینیڈا کا طبیب آئل منسٹر لگ سکتا ہے اور قاضیٔ شہر ملزم کا سمدھی بن سکتا ہے!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں